دوہری شہریت پر سپریم کورٹ کا فیصلہ

 وطن کی مٹی وطن کی خوشبو سے پیار کر لیں
وطن کو پھولوں سے اب سجائیں بہار کرلیں
سپریم کورٹ نے دوہری شہریت کے حساس معاملے پر تاریخی فیصلہ سنا کر قومی افق پر معلق قانونی موشگافیوں کی دھند کو کافی حد تک ختم کر دیا ہے۔ عدالت عالیہ کے ایک بنچ نے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں دوہری شہریت کے حامل گیارہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کو آئین کی دفعہ 63 ون سی کے تحت نااہل قرار دے دیا ہے۔ تاہم عدالت نے وزیر داخلہ رحمان ملک کو گزشتہ سینٹ کی سیٹ سے نااہل قرار دیتے ہوئے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے لہذا الیکشن کمشن کو ہدایت کی ہے کہ ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کرے ان کا معاملہ چیئرمین سینٹ کو بھی بھیجا گیا ہے۔ سپریم کورٹ نے کہاہے کہ ارکان پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کے تحت حلف لیتے ہیں۔ جس کے مطابق وہ اہل ہوتے ہیں۔ آئین کے تحت صادق اور امین ہونا لازمی شرط ہے۔ رحمان ملک نے 2008ءمیں ڈیکلریشن دینے میں غلط بیانی کی۔ عدالتی فیصلے میں کہا گیا ہے کہ نااہل ارکان سے 2 ہفتوں میں تمام تنخواہیں اور مراعات واپس لی جائیں۔ عدالت نے الیکشن کمشن کو ارکان اسمبلی سے دوبارہ دوہری شہریت نہ رکھنے کا حلف لینے کی ہدایت کی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپیکر اور چیئرمین سینٹ آئین کے تحت ایسے ارکان کا معاملہ الیکشن کمشن کو بھجیں گے جبکہ الیکشن کمشن تعزیرات پاکستان کے تحت کارروائی کرے گا۔ ان دنوں دوہری شہریت رکھنے والے معاملے کے بارے میں سیاسی حلقوں اور میڈیا پر سنجیدہ بحث و مباحثہ جاری ہے اس کی مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ دوہری شہریت رکھنا وطن سے غداری کرنے کے مترادف ہے کیونکہ غیر ملکی آئین کے تحت ان کا کوئی شہری اپنی ریاست کے خلاف ہتھیار نہیں اٹھا سکتا جبکہ وہ دیگر تمام ممالک کے خلاف لڑنے کا پابند بھی ہو جاتا ہے۔ اس اصول کے تحت امریکہ، برطانیہ و یگر مغربی ممالک کی شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو بوقت جنگ اپنے ملک (پاکستان) کے خلاف ہتھیار اٹھانا ہو نگے۔ یہ نکتہ غور طلب ہے۔ دوسری جانب دوہری شہریت کے حامیوں کا موقف یہ ہے کہ اس وقت لاکھوں پاکستانی دیگر ممالک میں اپنے روزگار کے سلسلے میں مقیم ہیں اور ہر سال12 ارب ڈالر کی رقم وطن ارسال کرتے ہیں۔ دوہری شہریت ختم کر دینے سے نہ صرف ان کا ذریعہ معاش ختم ہو گا بلکہ پاکستان ہر سال12 ارب ڈالر کے زرمبادلہ سے محروم ہو جائے گا جو کہ بیرونی ادائیگیوں کے لئے ضروری ہے۔ اس تناظر میں دوہری شہریت کا معاملہ بڑا حساس اور قومی نوعیت کا ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ پارلیمنٹ میں اسے زیر بحث لایا جائے اور قانونی ماہرین کی آراءکی روشنی میں مناسب قانون سازی کی جائے یہ بھی دیکھا جائے کہ دیگر ممالک نے اس مسئلے کا کیا حل نکالا ہے؟ علاوہ ازیں یہ امر بھی پیش نظر رکھنا چاہئے کہ جلد بازی میں کئے گئے کسی فصلے سے ”پائے رفتن نہ جائے ماندن“ والی صورت حال پیدا نہ ہو جائے۔

ای پیپر دی نیشن