یہ پرانے زمانے کی حکایت ہے کہ اس وقت کی ایک عدالت نے کسی مجرم کا جرم ثابت ہونے پر سزا سنائی کہ مجرم کی ننگی پیٹھ پر سو ڈنڈے برسائے جائیں یا اسکی سو گنڈوں سے تواضع کی جائے یعنی اسے سو گنڈے کھلائے جائیں اور ان دنوں سزاﺅں میں سے کسی ایک کے انتخاب کا اختیار مجرم کی مرضی پر چھوڑ دیا جائے۔ قارئین کرم! واضح رہے کہ گنڈے پنجابی میں پیاز کو کہتے ہیں۔ سو ہم نے یہاں گنڈے ہی لکھا ہے تو عدالت کے حکم کے تقاضوں کو پورا کرنے الفاظ اور توازن کو ویسے ہی برقرار رکھنے کیلئے لکھا ہے۔ آپ انہیں پیاز ہی سمجھیں۔ اور یہ اس وقت کی کہاوت ہے جب جج کی بجائے قاضی عدالت کے سربراہ ہوا کرتے تھے اور قاضی عدالت کو عبادت سمجھ کر اپنے فرائض انجام دیا کرتے تھے۔ اس وقت وکیل ہوا کرتے تھے نہ کوئی دلیل اپیل، جھٹ پٹ فیصلے ہوا کرتے تھے۔ چنانچہ نہ وکیلوں کی فنکارانہ موشگافیاں نہ لمبی تاریخوں کے داﺅ پیچ، نہ اعصاب شکن بحثیں نہ التواءکیلئے من گھڑت کہانیاں۔ واقعات اور مشاہدات کی بنیاد پر قاضی اللہ کو حاضر و ناظر جان کر اپنے کامل ایمان کی رہنمائی میں فوراً فیصلے کیا کرتے تھے تو ایسے میں جب ایک مجرم کو سزا سنائی گئی تو اس نے سوچا ننگی پیٹھ پر سو ڈنڈے کھانا نہایت اذیت ناک ہے تو اس نے سو گنڈے کھانے کا فیصلہ کیا کہ سزا ہی کیا‘ پیٹ پوجا کیلئے یہ غذا ہی غذا‘ چنانچہ گنڈے کھانا شروع کئے تو چار و ناچار پانچ دس گنڈے زہر مار کئے ہوں گے کہ جلتی آنکھوں سے کڑوے کسیلے پانی کی جھڑی لگ گئی اور دہن نے بھی مزید کھانے سے انکار کر دیا۔ ایسے میں سو گنڈے کھانا محال لگا تو مجبوراً مجرم نے اپنی ننگی پیٹھ ڈنڈوں کیلئے حاضر کر دی اور یوں جب پیٹھ پر آٹھ دس ڈنڈے پڑے تو وہ اذیت سے بلبلا اٹھا اور سوچا کہ اس طرح تو سو ڈنڈے کھانے سے اس کی جان بھی نکل جائے گی۔ چنانچہ دوبارہ گنڈے کھانے پر رضامندی ظاہر کر دی اور ایک بار پھر گنڈے کھانے شروع کر دیئے لیکن مشکل سے مزید آٹھ دس گنڈے کھائے ہونگے کہ دہن اور ہمت جواب دے گئے.... تو پھر ڈنڈے کھانے پر اکتفا کر لیا اور ایک دفعہ پھر ڈنڈوں سے نڈھال ہو گیا تو دوبارہ گنڈوں پر آگیا اور یوں باری باری وہ سو ڈنڈے بھی کھا گیا اور سو گنڈے بھی۔ یہ کہاوت ہمیں آج موجودہ حکومت پاکستان کی سپریم کورٹ میں این آر او مقدمات کے حوالے سے یاد آ رہی ہے جس میں حکومت کو سو ڈنڈے بھی کھانے پڑے اور سو گنڈے بھی۔ اس سلسلے میں حکومت کو چانس دیا گیا تھا کہ وہ آصف علی زرداری کے خلاف سوئس عدالتوں میں منجمد مقدمات کو بحال کرنے کیلئے انکو خط لکھ دے یا پھر سپریم کورٹ کے اس حکم کی حکم عدولی پر اپنے وزیراعظم کو گھر چلتا کرے تو حکومت نے کہا وہ ایسا خط نہیں لکھے گی کہ انہیں ڈر تھا کہ ایسا کرنے سے زرداری کے مقدمات بحال ہوئے تو انہیں سوئس بینکوں میں زرداری کی پاکستان سے لے جائی ہوئی دولت واپس کرنی پڑے گی لہٰذا وہ خط لکھنے سے انکاری ہوئے اور اپنے چھیل چھبیلے وزیراعظم جناب یوسف رضا گیلانی سے ہاتھ دھونے پڑے کہ انہیں عدالت کے حکم پر گھر جانا پڑا.... اور اس کے بعد یہ کہہ کر راجہ پرویز اشرف کو وزیراعظم کے طور پر لایا گیا کہ کوئی پرواہ نہیں‘ ان کے پاس ایسے بہت سے بکرے قربانی کیلئے موجود ہیں۔ سپریم کورٹ کب تک انکے وزیراعظموں کو گھر بھیجتی رہے گی لیکن اب جب حکومت بلکہ آصف علی زرداری جو اس سارے کھیل کے بڑے کھلاڑی ہی نہیں ٹیم کے کپتان ہیں، کو یقین ہو چلا کہ سپریم کورٹ ایسا کرنے پر تلی ہوئی ہے تو ایک دم گھٹنے ٹیک دیئے اور انکے وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے اعتراف کر لیا کہ وہ نہ صرف سوئس عدالتوں کو ایسا خط لکھیں گے بلکہ اس سے پہلے سابق اٹارنی جنرل ملک قیوم کا لکھا ہوا ان مقدموں کو ختم کرنے کا خط بھی واپس لے لیں گے۔ تو گویا اس حکومت کو یہاں سو ڈنڈے بھی کھانے پڑے اور سو گنڈے بھی۔ لوگوں کے مطابق یہ زرداری کی ایک نئی چال ہے جو ایسی سیاسی اور غیرسیاسی چالوں کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ آگے کیا ہوتا ہے۔ بہرحال کچھ بھی ہو، ہمیں یہاں یوسف رضا گیلانی، سے دلی ہمدردی ہے کہ اس کھیل کھیل میں ناحق انکی وزیراعظمی کام آئی۔ ہمیں یہاں یہ بھی گمان ہوتا ہے کہ یہ سارا گورکھ دھندا ہی یوسف رضا گیلانی سے وزیراعظم کا عہدہ چھیننے کا ایسا ہی ایک بہانہ تھا جیسے شہر کے ایک میلہ میں ایک دیہاتی کا کھیس چرائے جانے کا بہانہ بنا۔!