کاش آپ اٹلی میںپیدا ہوتیں!

( مضمون کا پہلا حصہ قارئین 22 ستمبر کے اخبار میں پڑھ چکے ہیں۔دوسرا اور آخری حصہ ملاحظہ فرمائیں)
فیصل صالح حیات صاحب ‘ آپ رینٹل پاور کے منصوبوں پر تو مذاکرہ اور مباحثہ کا چیلنج کرتے رہے ‘تب تو آپ کو چند کروڑ روپے کی خردبرد ہضم نہیں ہو رہی تھی‘موجودہ حکومت کی ناکام پالیسیوں پر آپ دستاویزات اٹھائے میڈیا پر حجاج بن یوسف کے لہجے میںتقریریں کرتے رہے ‘ اسوقت آپکے تدبر کے ہونٹ کس نے سی دیئے تھے؟ آپکی فہم و فراست اور آپکی حب الوطنی کو کس دیو نے نگل لیا تھا؟ جب وزارت داخلہ کا قلمدان آپکے پاس تھا اور”ڈاکٹر عافیہ صدیقی “کو وائٹ ہاوس کی قربت حاصل کرنے کے لیئے امریکیوں کو بیچ ڈالا گیا۔ حیران ہوں‘ آپ نے ڈاکٹر عافیہ کو ان درندہ صفت امریکی فوجیو ں کے رحم و کرم پر کیسے چھوڑ دیا‘ جن کی تاریخ خود پرستی، حیوانیت اور درندگی سے پہلے ہی داغدار اور خون آلودہ ہے۔ اگر آپ کا اس میں کوئی کردار نہیں تھا توکم از کم آپ وزیر داخلہ ہونے کی حیثیت سے حقائق توعوام کے سامنے لاسکتے تھے۔
ہم جو کام گزشتہ ساڑھے نو سال میں نہ کر سکے وہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن نے فقط20گھنٹے میں کر دکھایا‘ جب وہ کیلیفورنیا سے تعلق رکھنے والی امریکی صحافیوں”32سالہ لارا لنگ “اور ”36سالہ یونا لی“ کوبازیاب کروانے 5اگست 2009کو ایک چارٹرڈ طیارے کے ذریعے پیانگ یانگ پہنچ گئے۔ بل کلنٹن کی آمد پرشمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ دوئم نے خصوصی معافی کے ذریعے دونوں صحافیوں کو رہا کر دیا۔یہ صحافی خواتین شمالی کوریا اور چائنہ کے بارڈر پر صحافتی ذمہ داریاں انجام دے رہی تھیں‘ بغیر اجازت بارڈر پار کرنے پر انہیںشمالی کورین پولیس نے گرفتارکیا اور عدالت نے بارہ سال قید بامشقت کی سزا سنادی‘ لیکن صرف 20گھنٹے پر مشتمل دورے میں کلنٹن دونوں خواتین کو لے کراتنے اطمینان،فخر اور سکون سے وطن واپس لوٹ گئے جیسے ہوا خشک پتوں کو شاخوں سے جدا کر کے اپنے ہاتھوں پہ اٹھائے زمین کی گود میں سلا دیتی ہے۔ لارا لنگ فرط جذبات میں اپنے شوہر کلائٹن سے بغلگیرہو گئیں۔جبکہ یونا لی کا اسکے شوہر مائیکل سولڈیٹ اور اسکی ننی بیٹی ہنا( Hanna)نے استقبال کیا۔یونا نے ہنا کو ہاتھوں میں اٹھا لیا ‘ اسے اپنی قید بھول گئی‘ اسکی دنیا،اسکی کل کائنات اسکے ہاتھوں میں تھی‘ وہ ہنا کو ہوا میں اچھالنے لگی‘ وہ ایسے زندہ ہو گئی جیسے ساون کی بارش بنجر زمین کے سینے میں دفن بیج کو زندہ کر دیتی ہے۔
 2009میں اٹلی کی عدالت نے مصری عالم کے اغوا پر سی آئی اے کے 23اور اٹلی کی خفیہ ایجنسی کے 2سابق ایجنٹس کو قید کی سزا سنائی ۔ سی آئی اے میلان کے سربراہ کو 8سال اور دیگر بائیس ایجنٹس کو پانچ پانچ سال قید کی سزا سنائی گئی۔ 2003 میں سی آئی اے کے ملزمان نے مصر کے عالم‘ اسامہ مصطفی حسن کو دہشت گردی کے شبہ میں اغوا کر کے جرمنی کے فوجی اڈے پر منتقل کر دیا تھا۔ جس کے بعد انہیں مصر میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ میں بھی بنیادی حقوق سلب نہیں کیئے جا سکتے جبکہ امریکہ نے اس فیصلے پر شدید مایوسی کا اظہار کیا ہے۔
نہ جانے کیوںدنیا میں کمزور ی ، ناکامی اور مایوسی کا لفظ فقط پاکستان ہی سے منسوب ہو کر رہ گیا ہے؟ڈاکٹر صاحبہ! یہی اگر آپ اٹلی کے کسی پسماندہ قصبے میں پیدا ہوئی ہوتیںاو ر امریکی ایجنسیاں آپ کو غائب کرلیتیںتواٹلی کے عوام روم کی سڑکوںپر نکل آتے‘ اٹلی کا میڈیا بین ا لاقوامی دباو بڑھانے کی مہم شروع کر دیتا‘دنیا بھر کے ٹی وی چینلز پر بریکنگ نیوز چلنے لگتیں‘ اٹلی کے صدر”جیورجیو نیپولیٹینو“ اپنی تمام مصروفیات ترک کر دیتے‘ایوان صدر میں ہنگامی اجلاس بلا لیا جاتا‘ انتظامیہ ،وزرا،مشیر سر جوڑ کر بیٹھ جاتے‘ تمام سیاسی جماعتیں بلدیاتی آرڈیننس،این آر او، ضمنی انتخابات،کیری لوگر بل، صوبوں کی تقسیم اور سارے اختلافات ایک لمحہ کیلئے بھلا کرآپ کی بازیابی کے لیئے اٹلی کی عوام کے ساتھ کھڑی ہو جاتیں‘ اٹلی کی ہوا سوگوار ہو جاتی‘ صدر کا خصوصی طیارہ ہنگامی پرواز کے لیئے تیار ہو جاتا‘ صدر اعلی حکومتی مشینری کے ساتھ ایوان صدر Quirinal Palace))سے ” فیومیسینو“ ائرپورٹ کی جانب روانہ ہو جاتے‘ ہاٹ لائن کے ذریعے سے امریکی قیادت کو اٹلی کی اعلی حکومتی مشینری کی آمد سے آگاہ کر دیا جاتا اور پھرآپ کے احمد‘مریم اور سلمان آج ہنا کی طرح بیس گھنٹوں میں آپ کی بانہوں میں ہوتے۔ صدر صاحب! ایوان صدر کی دیواروں پرجگہ جگہ آویزاں محترمہ کی آنکھوں میں خدارا ایک دفعہ تو جھانک کر دیکھیئے ‘ آپ کو بلاول، آصفہ اور بختاور کے لیئے تڑپتی ہوئی ممتایہی کہہ گی‘ آصف! آپ کو یاد ہے ناکہ ہم‘ بلاول ، آصفہ اور بختاور کی جدائی برداشت نہیں کر سکتے تھے‘ آصف! آج عافیہ اپنے بلاول،آصفہ اور بختاور کے لیئے تڑپ رہی ہے۔ڈاکڑ صاحبہ! معاف کر دیجیئے گا کہ ہمارے پاس کلنٹن یا جیورجیو نیپولیٹینو جیسی قیادت نہیں ہے‘ آپ کو پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں نہیں بلکہ اٹلی کے کسی پسماندہ گاوں کی تاریک گلی میں پیدا ہونا چاہیے تھا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...