بزدل، مکار اور ظالم دشمن مغرب اپنی تلملاہٹ کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے مشرقی و ایشیائی غلام اپنے ابلیس آقا کے اشارے پر تگنی کا ناچ، ناچ رہے ہیں۔ مغرب ہمارے افکار کو حقیر جانتا ہے اور ہمارے ثقافتی اقدار مغرب کے نزدیک حیوانیت ہیں‘ان کے نزدیک ہم مشرقی لوگ بہرحال دوسرے درجے کے انسان ہیں۔ وہ ہماری خرید و فروخت کو اپنا بنیادی استحقاق گردانتے ہیں۔ وہ ہمارے اہل دانش کی بولی لگاتے ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنے قبضہ زر میں رکھتے ہیں۔ ہمارے مقتدر ذہنوں پر اپنی ثقافت کا جادو کرتے ہیں۔ دوسری جانب ہم ہیں اور ہمارے ارباب بست و کشاد ہیں جو ہر لمحہ اپنی ذات کو، اپنی صفات کو اور اپنی عادات کو مغرب کی خوشنودی کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔
لیکن یاد رہے کہ مسلمان چاہے مغرب کا ہو یا مشرق کا، اپنی تمامتر خرابیوں اور کوتاہیوں کے باوجود اپنے مرکز ایمان حضور عالمین پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی وابستگی میں کوتاہی نہیں کرتا۔ اس کے ایمان کی روشنی اور بقا وفا ءمصطفی سے وابستہ ہے۔
چین کے شہر مراکش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شان رفعتالک ذکرک دیکھے
خالق کائنات نے محمد مصطفی کو انسانی خوبیوں کے کمال درجے پر فائز فرمایا۔ ہر انسان دوست اسی لیے محمد مصطفی سے قلبی لگاﺅ رکھتا ہے کہ اسے سرکار عالمین مدار کی ذات اقدس میں انسان پروری کا بحر بیکراں نظر آتا ہے ۔ ان کے مفکرین اور ان کے متعصب اہل علم ہر وقت اسلام اور بانی اسلام حضرت محمد مصطفی پر تنقید کے نئے زاویے اور توہین کے ذلیل ترین راستے تلاش کرتے رہتے ہیں۔ یوں تو ان کا ایک بڑا ذخیرہ اسی پست ترین غلیظ ذہنیت کے اظہار پر مشتمل ہے لیکن گزشتہ دس سال سے توہین اسلام کا مسلسل اور مربوط سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے یہ انسانیت دشمن عناصر جارحیت اور منافقت کے جملہ اصولوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی مذموم کارروائی کرتے ہیں۔
تصور کیجئے کہ جب آپ کسی بھی فرد یا ملت سے عزت و حیات اور بقاءو سلامتی کا ہر حق چھین لیں گے تو فطرت یقینا ایسے راستے تلاش کرے گی جو عام زندگی اور عمومی اخلاق سے مختلف ہوں گے۔ مسلمانوں سے ان کے ایمان کا سخت ترین امتحان لیا جا رہا ہے۔ مسلمان تو مسلمان دنیا کا ہر غیر مسلم مذہب پرست بھی اپنی جان پر، اپنے ایمان اور عقائد افکار کو فوقیت دیتا ہے۔ تعلق اور وفاءکا ایک فطرتی اور بنیادی تقاضا یہی ہے کہ کوئی بھی شخص یا ملت اپنے محترم ومکرم اور ممدوح وجود کیلئے اپنا اثاثہ¿ جان پیش کرے تاکہ وفاءکی تکمیل ہو۔ اس حقیقت کو کسی بھی جگہ اور کسی بھی وقت اصل عقل و شعور اور صاحبان دانش و اخلاق نہیں جھٹلا سکتے۔مسلمان اگر اپنے آقا و مولا نبی اعظم و اکرم سے محبت کرتے ہیں تو یہ ان کا فطرتی، بنیادی، عمرانی اور انسانی حق ہے لیکن اگر کوئی شخص یا ملت ان سے ان کا یہ حق چھینے یا پامال کرے تو انسانی جذبوں کے دریاﺅں کے راستے میں بے سبب رکاوٹ پیدا کرنے کے مترادف ہے۔ جب حقیقت ثابت ہے کہ مسلمانوں نے یہودیوں اور عیسائیوں کو کبھی بھی ان کے انبیاءعلی نیتا علیہم الصلوٰة و السلام کی عزت و تکریم اور تعظیم سے نہیں روکا۔آج کے دور کی تازہ ترین سفاک اور گھناﺅنی واردات یہی ہے کہ جب چاہا جیسے چاہا اور جہاں چاہا، توہین اسلام اور توہین رسالت پناہ کا انسانیت سوز ارتکاب کیا جاتا ہے۔
اب صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ تین ہفتوں سے پورے عالم اسلام میں نہایت جذباتی مگر مبنی پر معقولیت و انسانیت احتجاج جاری ہے۔ دوسری طرف مغرب اور مشرق میں اس کے لے پالک بچے اس احتجاج کو منافقانہ آئینے سے دیکھتے ہیں اور منافقانہ تبصرہ کرتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم نے پاکستانی مسلمانوں کے جذبات کا احترام و ادراک کرتے ہوئے یوم عشق رسول منانے کا اعلان کیا۔ اس مقدس و متبرک موقعہ پر کچھ منظم اظہار کا سلسلہ قائم نہ ہو سکا۔ عوام سراپا احتجاج تھے۔ بدقسمتی سے سیاسی اور مذہبی قیادت جذبات کے ان پیمانوں سے ہم آہنگ نہ ہو سکی۔ مغرب کے لے پالک نام نہاد فلاحی گداگروں نے قلم سے لیکر عمل تک منافقانہ کردار ادا کیا اور احتجاج کے مقدس جذبات کو گدلا کرنے کیلئے کرائے کے شرپسند اور ہنگامہ پرستوں کو ان جلوسوں میں شامل کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کیے پھر غریب فکروطن فروش قلمکاروں نے اپنے خیالات کے کچے اور بودے اسلوب سے قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ سوائے ایک دو چینلز کے باقی اکثر چینلز کے عزت فروش اینکر منافقوں کی زبان بول رہے تھے۔ ایک اینکر نے ملت اسلامیہ کے حقیقی اور ایمانی رویوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اس حادثہ فاجعہ پر حقیقی اور سچے انداز سے روشنی ڈالی۔ سیاسی محاذ اور سیاستدانوں کے رویے مدافعت، خوف اور منافقت پر مبنی ہیں۔ لوگوں کے جذبات کی عمارت پر اپنی عزت کا مینار بنانے والو سیاستدانوں اگر ناموس مصطفےٰ کے محافظ نہ بنو گے تو عنقریب تمہاری عزتوں کے تاجد بھنگیوں اور ذلیل ترین مخلوق کے پاﺅں تلے روندے جائیں گے۔
سلام ہو ان غیور روشن کردار،بلند مقام افراد پر جو اپنی ہر دنیاوی حیثیت کو خیرات مصطفےٰ سمجھ کر اپنے آقا و مولاﷺ کی ناموس پر نچھاور کرتے ہیں۔
غلام احمد بلور وفاقی وزیر ایک تقریب میں ملے تھے اور اپنی وفاﺅں کی تکمیل کیلئے استقامت کا اظہار کر ہے تھے وہ ایک دھڑکتے ہوئے دل کیساتھ اپنے ایمان و وفا کا اظہار کر رہے ہیں کہ وزارت سیاست کیا چیز ہے میرا اصل اثاثہ تو وہ دل ہے جہاں محبت مصطفیﷺ کا چراغ روشن ہے اورجاں ہر لمحے اس رسول کریم کی عزت و ناموس کی حفاظت کے روشن جذبوں کا دریا بہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شوکت بسرا اور جمشید دستی ملت اسلامیہ کے بطل جلیل ہیں جن کے دلوں میں غیرت دینی کے ہمالیہ مقیم ہیں۔ وہ اپنی زندگی کو ایک ایسی امانت خداوندی سمجھتے ہیں جو ناموس رسول کے تحفظ کیلئے کسی وقت قربان کردی جائیگی۔ افسوس تو ان منجمد برف زدہ لیڈروں پر ہے کہ جنہیں احتجاج کی بے احتیاطیاں تو یادہیں لیکن خون آلودہ جارحانہ شاتمانہ حملے بھول گئے۔ عوام اور پاکستان کا نام نہاد درد انہیں ہر الٹی سیدھی حرکت پر اکساتا ہے لیکن احتجاجی جلوسوں کی قیادت سے اسلئے قرار اختیار کرگئے کہ خفیہ والوں نے جان کا خطرہ بتا دیا تھا۔ اٹھو اور دیوانہ وار اہل محبت کے قافلہ عشق و مستی کی قیادت کرو‘ خدا تعالیٰ اور مصطفیٰ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نوازشات کی نوربھری بارش تم پر برسا چاہتی ہے....
دہن میں زبان تمہارے لئے
بدن میں ہے جاں تمہارے لئے
ہم آئے یہاں تمہارے لئے
اٹھیں بھی وہاں تمہارے لئے
”ہم آئے یہاں تمہارے لئے“
Sep 28, 2012