کوئٹہ (بی بی سی) بی بی سی نے بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقوں کے دورے کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ بیلہ چوک سے آواران تک چار گھنٹے کے سفر کے بعد ہمارا پہلا سٹاپ سرکاری ہپستال تھا جہاں ایک نجی گاڑی میں ایک خاتون کو مشکے سے لایا گیا تھا۔ خاتون کا شوہر لیویز میں ملازم تھا اور اسے اس سفر کیلئے آٹھ ہزار روپے کرایہ دینا پڑا۔ زخمی خاتون کی ریڑھ کی ہڈی متاثر ہوئی تھی اور وہ مسلسل چلا رہی تھیں۔ ضلعی ہیڈکوارٹر ہپستال میں ایکسرے ، لیبارٹری کی کوئی سہولت دستیاب نہیں تھی۔ کچھ دردکش ادویات اور مرہم پٹی کا کچھ سامان بکھرا ہوا نظر آیا جبکہ جراحی کے کچھ آلات بھی اس کے برابر میں ہی موجود تھے۔ یہیں دوپہر کے وقت خواتین اور بچوں کو چاول فراہم کئے جا رہے تھے اور ایف سی کے جوان صورتحال کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے دکھائی دئیے۔ ہسپتال میں معلوم ہوا کہ آواران کے قریبی علاقوں میں ابھی تک لاشیں نکالی جا رہی ہیں۔ اس پر ہم تقریباً دس کلومیٹر دو ترتیج گاو¿ں پہنچے جہاں 20 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ہماری آمد سے قبل ایک دس سالہ بچی کی لاش نکالی گئی جسے نکالنے کیلئے ملبہ ہٹانے کو ٹریکٹر کی مدد حاصل کی گئی تھی۔ یہ پورا گاو¿ں ہی ملبے کا ڈھیر نظر آیا۔ 2 ہزار کی آبادی کے اس گاو¿ں کے بازار میں بھی تباہ شدہ دکانوں میں کھانے پینے کی اشیا دب چکی تھیں۔ پورے علاقے میں ایک ہی پکی عمارت نظر آئی جو ہائی سکول تھا لیکن اس میں بھی دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ روایتی طور پر قدرتی آفات کے بعد لوگوں کو سرکاری عمارتوں میں ٹھہرایا جاتا ہے لیکن متاثرہ علاقوں میں ایسی کوئی سرکاری عمارت اس حالت میں نہیں کہ اسے استعمال کیا جا سکے۔ترتیج گاو¿ں میں کہیں بھی ریسکیو اور ریلیف کی کوئی کارروائی نظر نہیں آئی۔ لوگ اور بچے کھلے آسمان کے نیچے یا درختوں کے سائے میں بیٹھے دکھائی دئیے۔ بلوچستان حکومت اور این ڈی ایم اے کے بیانات تو دو روز سے سامنے آرہے تھے لیکن ان کی عملی شکل دیکھنے کو آنکھیں ترستی ہی رہیں۔ رپورٹ کے مطابق ترتیج سے 30 کلومیٹر دور ملاہار میں زیادہ ہلاکتوں کا پتہ چلا تو خیال آیا شاید حکومت نے وہاں ریلیف کا آغاز کیا ہوگا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑک پر سات کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کے دوران ویرانے میں ایف سی کی کئی گاڑیاں سامنے آئیں جبکہ کچھ اہلکار سڑک کے کنارے پر بھی تعینات تھے جنہوں نے کہیں کہیں روک کر سوال کیے لیکن آگے جانے کی اجازت دیدی۔ ملاہار جب پہنچے تو سورج غروب ہونے کے نزدیک تھا۔ ایک سکول کی عمارت پر ”آزاد“ بلوچستان کا جھنڈا لہرا رہا تھا۔ اس عمارت کے علاوہ صرف مسجد پکی اینٹوں سے بنی ہوئی تھی اور گاو¿ں کے 90 فیصد کچے مکانات مٹی کا ٹیلہ بن چکے تھے۔ہماری آمد پر مقامی لوگ سمجھے کہ شاید کوئی مدد کیلئے آیا ہے لیکن انہیں یہ سن کر ضرور مایوسی ہوئی ہوگی کہ ہم میڈیا سے وابستہ ہیں۔ امدادی کارروائیوں کا آغاز یہاں بھی نہیں ہو سکا تھا اور یہاں بھی وہی پریشانیاں، مشکلات اور گرد آلود چہرے والے بچوں اور دور بیٹھی ہوئی خواتین جن کے پاس کھانے پکانے کیلئے کچھ نہ تھا۔