عیدالاضحٰی کی آمد ہے۔ نیویارک میں دیکھے جانے والے، مختلف نیوز چینلوں پر، بعض مذہبی اور رفاہی تنظیموں کی طرف سے قربانی کے جانوروں اور کھالوں یا اُن کی قیمت کے برابر رقوم کے عطیات کی اپیلیں کی جا رہی ہیں۔ دو تین دن سے دنیا کے 90 ملکوں میں قائم ادارہ منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہرالقادری کے بارے میں ایک نیوز چینل پر وقفوں وقفوں سے اعلان ہو رہا تھا کہ ”شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری 26 ستمبر کی شب اپنا پہلا تاریخی فتویٰ جاری کریں گے!“۔
26 فروری کو غیر ملکی میڈیا کے حوالے سے پاکستانی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی تھی جس کے مطابق جامعہ الازہر کے مذہبی سکالرز نے جامعہ کے گرینڈ امام شیخ الطیب کے نام ایک درخواست میں کہا تھا کہ ”طاہرالقادری جامعہ الازہر کا ٹائٹل ”شیخ الاسلام“ اپنے نام کا حصہ بنا کر سیاسی مقاصد حاصل کر رہے ہیں انہیں روکا جائے!“۔ گرینڈ امام صاحب نے اس درخواست پر کیا فیصلہ کیا؟ پتہ نہیں ممکن ہے علامہ القادری نے کینیڈا کی حکومت سے ”شیخ الاسلام“ کا خطاب حاصل کر رکھا ہو، جیسے بعض بادشاہ اپنے کسی درباری شاعر کو ”ملک الشعرائ“ کا خطاب دے دیا کرتے تھے۔
اہلِ پاکستان کو علامہ القادری کے ”شیخ الاسلام“ کا لقب اختیار کرنے کا علم ستمبر 2012ءمیں ہوا جب پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات کے ذریعے انہیں خبردار کیا گیا تھا کہ ”شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری کینیڈا سے وطن واپس تشریف لا رہے ہیں اور غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کے لئے 23 دسمبر کو لاہور میں جلسہ¿ عام سے خطاب کریں گے“۔ علامہ صاحب نے وعدے کے مطابق لاہور میں جلسہ¿ عام کیا، 50/40 ہزار شرکائے جلسہ کی تعداد کو 10 لاکھ بتایا۔ پھر اتنی ہی تعداد کے لوگوں کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آباد پہنچے۔ علامہ صاحب نے اپنے بم پروف کنٹینر پر سوار ہو کر بسوں، کاروں اور ٹرالوں کے جلوس کو تاریخ کا سب سے بڑا ”لانگ مارچ“ قرار دیا اور اُسے قافلہ¿ امام حسینؓ سے تشبیہ دی۔ پنجاب میں میاں شہباز شریف اور وفاق میں جناب زرداری اور راجہ پرویز اشرف کی حکومت کو ”یزیدیو“ کہا اور 14 اور 15 جنوری کی درمیانی رات کو صدر زرداری، وزیراعظم راجہ پرویز اشرف اور سارے وفاقی وزراءکو بے حس اور بے غیرت کہا۔ رحمن ملک کو شیطان ملک قرار دیا۔
17 جنوری 2013ءکو علامہ طاہرالقادری نے اپنا فتویٰ واپس لے لیا اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف کی غیر موجودگی لیکن اجازت سے، پیپلز پارٹی اور اُس کی اتحادی جماعتوں کے نمائندوں کے ساتھ علامہ القادری نے پاکستان عوامی تحریک کے چیئرمین کی حیثیت سے ”میثاقِ جمہوریت دو نمبر“ پر دستخط کر دئیے۔ ادارہ منہاج القرآن کے جھنڈے تلے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کے لئے حیسنیؓ لانگ مارچ سے سیاسی کباڑ خانے میں پڑی پاکستان عوامی تحریک زندہ ہو گئی لیکن علامہ طاہرالقادری نے 11 مئی کے عام انتخابات کا بائیکاٹ کر دیا۔ اس سے قبل موصوف نے الیکشن کمشن کو تحلیل کرانے کے لئے سپریم کورٹ میں دلائل دئیے۔ سپریم کورٹ کے جج صاحبان کی خوشامد بھی کی تو انہیں کہا گیا کہ ”آپ ہماری تعریف نہ کریں۔ دلائل دیں!“۔ علامہ طاہرالقادری اپنی ”شیخ الاسلامی“ سمیت سپریم کورٹ میں ہار گئے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے خلاف دہرا معیار اختیار کرنے کا فتویٰ دے دیا۔ سپریم کورٹ نے علامہ صاحب کو ”سُکا جان دِتا“ توہین عدالت کا مجرم نہیں ٹھہرایا۔
”شرعی حکم“ کو فتویٰ کہا جاتا ہے۔ متحدہ ہندوستان اور اس کے بعد پاکستان میں اس صنف کا بے دریغ استعمال ہوا۔ 1970 کے عام انتخابات سے قبل جب 113 علماءنے ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی کے اقتصادی پروگرام سوشلزم/ اسلامی سوشلزم کے خلاف کُفر کا فتویٰ دیا تو شاعر اعزاز احمد آذر نے کہا :
”کیا خبر کون مجھے مار دے کافر کہہ کر؟
اب تو اِس شہر کے ہر شخص سے ڈر لگتا ہے“
اُن دنوں سیاسی اور مذہبی مفتی عام انتخابات میں ووٹروں سے ووٹ مانگتے تھے۔ اُن کی باقاعدہ سیاسی جماعتیں تھیں لیکن انہوں نے کلاشنکوف بردار لشکر نہیں بنا رکھے تھے۔ میں یکم ستمبر کو لندن پہنچا۔ 6 ستمبر کو لاہور میں میری خوشدامن بیگم مرزا امیر بیگ کا 90 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ 1947ءمیں سکھوں نے اُن کے خاندان کے 15 افراد کو شہید کر دیا تھا۔ مرحومہ مجھ سے اکثر پوچھا کرتی تھیں کہ ”سکھوں نے ہمارے لوگوں کو اس لئے قتل کیا کہ وہ مسلمان تھے، پھر دہشت گرد ہمارے لوگوں کو کافر سمجھ کر کیوں مار رہے ہیں؟“ میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔ کسی کے پاس بھی نہیں ہے، خلافتِ راشدہ کے قیام کے لئے اسلامیہ جمہوریہ پاکستان میں معصوم اور بے گناہ لوگوں کو قتل اور اپاہج بنا دینے والے طالبان کے 70/60 گروپوں کے ”امیرالمومنین“ کہلانے والے قائدین کے پاس بھی نہیں ہے۔
بعض مذہبی/ سیاسی قائدین قائداعظمؒ کے پاکستان کو تباہ و برباد ہوتا دیکھ کر لاپرواہی برت رہے ہیں، شاید اپنے اُن بزرگوں کی روحوں کو خوش ہونے کا موقع دے رہے ہیں جنہوں نے قائداعظم کو ”کافرِ اعظم“ قرار دے کر اپنے کانگریسی آقاﺅں کا حقِ نمک ادا کیا تھا، لیکن خود ساختہ شیخ الاسلام علامہ طاہرالقادری تو بعد کی پیداوار ہیں۔ انہوں نے 26 ستمبر کی شب ایک نجی چینل پر ”اپنے پہلے تاریخی فتویٰ“ کے نام سے حسبِ عادت غصے میں بھرے ہوئے جو انٹرویو دیا اس میں وزیراعظم نوازشریف اور اُن کی حکومت کے ارکان کو بھی گالیاں دیں، انہیں ”بے ضمیر، بے حِس، بِکے ہوئے اور بھکاری“ کہا اور پاکستان کے عوام سے کہا کہ ”وہ موجودہ حکمرانوں کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوں اور اُن کو کرسی سے اُتار دیں! شاعر نے کہا تھا۔
”بک رہا ہوں جنُوں میں کیا کیا کُچھ
کُچھ نہ سمجھے خُدا کرے کوئی!“
لیکن علامہ القادری جنوں میں نہیں اقتدار کے لالچ میں بک رہے ہیں۔ برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد وُکلاءکی تنظیم ”ASSOCIATION OF PAKISTANI LAWYERS (A.P.L)“ نے علامہ القادری کے (برطانوی حکومت سے امداد لینے والے) خیراتی اداروں منہاج القرآن انٹرنیشنل اور منہاج القرآن ویلفیئر انٹرنیشنل کے خلاف برطانیہ میں رفاہی اداروں کی نگرانی کے لئے قائم کئے گئے بورڈ ”CHARITY COMMISSION“ کے پاس خیراتی کاموں کے لئے وصول کی گئی رقم میں سے 69 ہزار ڈالر سے علامہ القادری کے لئے بُلٹ پروف لینڈ کروزر خرید کر امانت میں خیانت کی درخواست دی ہے“۔
ایک فارسی ضرب المثل ہے ”تو درونِ خانہ چہ کر دی کہ بیرونِ خانہ آئی“۔ یعنی تم گھر کے اندر کیا (خیانت) وغیرہ کرتے ہو کہ (مُنہ اُٹھا کر) باہر آ گئے“۔ علامہ القادری اِس طرح کی ضرب الامثال پر دھیان نہیں دیتے۔ کچھ دن پہلے انہوں نے کہا تھا کہ ”اگر میری قیادت میں ایک کروڑ نمازی جمع ہو جائیں تو میں اُن کی قیادت کرتے ہوئے غریبوں کے حق میں انقلاب لے آﺅں گا“۔ 26 ستمبر کے ”اپنے پہلے تاریخی فتویٰ“ میں علامہ القادری نے دو کروڑ نمازیوں کے جمع ہونے کی شرط عائد کر دی ہے یعنی ”نہ نو من تیل ہو گا اور نہ رادھا ناچے گی“۔ رادھا ہندوﺅں کے اوتار شری کرشن جی کی محبوبہ (گوپی) تھی جس کے ساتھ (اور دوسری گوپیوں کے ساتھ بھی) وہ برندرا بَن میں ناچتے تھے۔ علامہ طاہرالقادری کے کرشن کنہیا کون ہیں؟ اور کہاں ہیں؟ کہ اُن سے پوچھا جائے کہ علامہ صاحب ”فتویٰ گالم گلوچ کا بازار کب تک گرم رکھیں گے؟“