نیویارک (رمیزہ نظامی)....وزیراعظم نواز شریف نے اپنی تقریر کا آغاز ان الفاظ سے کیا کہ وہ تیسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میں تیسری بار منتخب وزیراعظم کی حیثیت سے اس ایوان میں انکساری کے ساتھ آیا ہوں۔ میں خود کو بری الذمہ محسوس کرتا ہوں کیونکہ میرے حامی اور میں جلاوطنی اور ریاستی جبر کے برسوں میں جمہوریت کیلئے اپنے عزم پر مستحکم رہے۔ اس خطاب میں پہلا حقیقی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کشمیر تھا۔ بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ کے ساتھ اتوار کو انکی ملاقات کنفرم ہے۔ اس بات کی افواہیں ہیں کہ بھارت کی جانب سے کچھ شرائط عائد کی گئی تھیں۔ ان میں ایک ایک یہ تھی کہ نواز شریف کشمیر کا ذکر نہ کریں مگر ایسا نہیں ہوا اور نواز شریف نے اس کی بجائے اپنی کریڈیبلٹی بہتر بنائی کیونکہ یہ تاثر پایا جاتا تھا کہ نواز شریف بھارت کے بارے میں نرم رویہ رکھتے ہیں اور کشمیر کا شاید ذکر نہ ہو مگر یہ ان کی اس تقریر میں سرفہرست تھا جس پر انہیں اپنے ملک میں ہیرو سمجھا جائے گا۔ بھارت کے حوالے سے وزیراعظم نے منموہن سنگھ کو ملاقات کی دعوت دی۔ انہوں نے 1999ءکے اعلان لاہور کا بھی ذکر کیا اور اس حوالے سے عالمی برادری کا اعتماد حاصل کیا کہ یہ کام انہوں نے کیا ہے مگر وزیراعظم نے پشاور چرچ میں دھماکہ کے حوالے سے مسلمانوں کا ”سٹیرو ٹائپنگ“ ذکر کیوں کیا یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ بات سمجھنا مشکل ہے کہ وزیراعظم نے اس موضوع پر کیوں اظہار کیا جب پوری دنیا پاکستان میں بڑھتے ہوئے عدم تحفظ کے بارے میں کچھ سننا چاہتی تھی۔ کسی چیز کو یہ کہہ کر قبول نہ کرنا بہت آسان ہے کہ دہشت گردی کرنے والے مسلمانوں اور اسلام کے دشمن ہیں مگر یہ بات اس وقت کھوکھلا سا لگتا ہے جب آپ ایک لمحہ پہلے کہہ چکے ہوں کہ ہمیں دلوں اور ذہنوں کو جیتنا ہے اور نوجوان انتہا پسندوں کو انتہا پسندی سے واپس لانا ہے۔ وزیراعظم نے نیوکلیئر سپلائر گروپ کے حوالے سے بھی بات کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کے مقابلے میں ہمارے ساتھ امتیازی سلوک کیا گیا لیکن یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ دنیا کی نظر میں ہمارے ایٹمی پروگرام کے ہیرو ڈاکٹر قدیر کی قدر کم کی جا چکی ہے۔ وزیراعظم کی تقریر میں پاکستان کی سکیورٹی کی صورتحال کے حوالے سے خصوصی طور پر کسی مربوط حکمت عملی کا فقدان نظر آیا اور تقریر میں ”مذاکرات“ ”قربانیاں“ اور ”دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا“ جیسے الفاظ کو ہی دہرایا گیا، ہر کوئی جانتا ہے کہ مسٹر نوازشریف کو سکیورٹی صورتحال کے علاوہ کسی بڑی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں مگر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی جو سننا چاہتی تھی وہ اس حوالے سے کسی منصوبے یا کسی پلان کا اعلان تھا جو کہ ابھی تک لگتا ہے کہ نوازشریف کے پاس نہیں ہے۔
پوائنٹ سکور