دھرنے اور وزیراعظم کا جنرل اسمبلی سے خطاب

پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے کئی ہفتوں سے لگاتار اسلام آباد میں دھرنے دے رکھے ہیں۔ ہر کوئی سوچنے پر مجبور ہے کہ آخر عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری نے اس طرح کے اقدام کیوں اٹھائے ہیں؟ عمران خان کا موقف ہے کہ 2013 میں ہونے والے عام انتخابات دھاندلی کی نذر ہو گئے تھے۔ اس طرح وہ دھاندلی زدہ انتخابات کے نتائج کو ماننے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کہتے ہیں کہ 1973 کے آئین کے آرٹیکل 62 اور آرٹیکل 63 کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے اسمبلیوں کے اراکین منتخب ہوئے ہیں۔ انکے مطابق یہ سب اسمبلیاں ’’بوگس‘‘ ہیں۔ آئین اور قانون کے تحت ان تمام قانون ساز اداروں کی قطعی وقعت نہ ہے۔ یہ بات اہم ہے کہ ان انتخابات میں عمران خان کی جماعت نے حصہ لیا تھا۔ خیبر پی کے میں تحریک انصاف نے حکومت بنا رکھی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت نے ان انتخابات میں حصہ نہ لیا تھا۔ وہ آئین پاکستان کے تحت انتخابی امیدواروں کی باریک بینی سے جانچ پڑتال کرنا چاہتے ہیں۔ انکے مطابق وہی لوگ انتخابات میں حصہ لینے کے حق دار ہونگے جو آئین کے آرٹیکل 2 6اور آرٹیکل 63 کی حدود میں آتے ہونگے۔ یہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ الیکشن کمیشن جیسا ادارہ ’’متنازعہ‘‘ بن گیا ہے۔ اگر واقعی 2013 میں ہونیوالے انتخابات بوگس ہیں تو میرے نزدیک یہ ایک قومی سطح کا ناقابل معافی جرم ہے۔ یہ بات غداری کے زمرے میں آئیگی، ایسے لوگوں کے خلاف غداری کے مقدمات قائم کرنا ہوں گے۔ وہ کون لوگ ہیں جو اس دھاندلی کے ذمہ دار ہیں؟
حکومت وقت کا اعلان ہے کہ مذکورہ انتخابات قانون کے عین مطابق ہوئے ہیں۔ صاف ظاہر ہے کہ قومی انتخابات کے مسئلے پر قوم دو حصوں میں تقسیم ہو چکی ہے۔ ایک حصہ حکمرانوں کا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ انتخابات میں کسی قسم کی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی، اس طرح قانون کی نظر میں یہ امر متنازعہ ہو چکا ہے کہ انتخابات صاف ستھرے ماحول میں ہوئے تھے۔ وہ سوال جو قوم کے سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ اس جھگڑے کا فیصلہ کون کریگا؟ واقعی یہ ایک مشکل سوال ہے بہرحال اس مسئلے کا حل ہم سب کو مل کر نکالنا ہو گا۔ دنیا ساری میں ہماری جگ ہنسائی دن رات ہو رہی ہے۔ میرے نزدیک سپریم کورٹ ہی وہ واحد ادارہ ہے جو فریقین کو باقاعدہ سماعت کرنے کے بعد کسی نتیجہ پر پہنچ سکتا ہے۔ ۔
اس وقت ہر قسم کا ’’کار سرکار‘‘ رک چکا ہے۔ پاکستان کی ترقی کو دھچکا لگ گیا ہے۔ ہر طرف مایوسی کا عالم ہے۔ قوم کیلئے اس قسم کی فضاء ناقابل قبول ہے۔ کچھ حلقے کہتے ہیں وزیراعظم کو اس وقت پاکستان میں ہونا چاہئے تھا۔لیکن وزیراعظم نے جس طرح خطاب کیا اور مسئلہ کشمیر اجاگر کیا‘ ان کا یو این جانے کا فیصلہ درست ثابت ہوا۔ انہوں نے کشمیریوں کی بھرپور ترجمانی کی۔ توقع ہے کہ وہ اب اس ایشو پر عملی اقدمات بھی کرینگے۔ کشمیر کے مظلوم اور محکوم لوگوں کی نظریں ہمیشہ کی طرح اب بھی پاکستان کی طرف جمی پڑی ہیں۔ کشمیری ہمارے بھائی ہیں۔ وہ غلامی کی زنجیروں کو توڑ کر آزادی سے ہمکنار ہونا چاہتے ہیں وہ آج بھی پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگاتے ہیں۔ ریاست جموںوکشمیر کا کونہ کونہ آزادی کے نعروں سے گونج رہا ہے اگر کبھی بھی حکمرانوں نے مسئلہ کشمیر کو نظرانداز کیا تو قوم کبھی بھی ان کو معاف نہ کریگی۔ قوم کے جذبات اور احساسات کی ہر صورت میں ترجمانی کرنا ہو گی۔
مجھے اسلام آباد میں دھرنے دینے والی جماعتوں سے بھی شکایت ہے کہ انہوں نے آج تک مسئلہ کشمیر پر آواز نہ اٹھائی ہے۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کا یہ فرض اول ہے کہ وہ کشمیریوں کی بھرپور حمایت کا اعلان کریں۔ دونوں حضرات سے میری درخواست ہے کہ وہ اپنے اپنے دھرنوں میں کشمیریوں کی آزادی کیلئے طاقتور آواز اٹھائیں لوگوں کو مظلوم کشمیریوں کی امداد کیلئے آمادہ کریں۔ بھارت کشمیریوں پر دن رات ظلم و ستم کے پہاڑ توڑتا چلا جا رہا ہے۔ حکمران خاموش ہیں۔ انکی خاموشی معنی خیز ہے۔ شاید وہ بھارت کی اندھی طاقت سے مرعوب ہیں۔ کیا حکمران یہ بھول چکے ہیں کہ پاکستان بھی دنیا کی ایک ایٹمی طاقت ہے۔ گویا وہ بھی ایشیا کی سپر طاقتوں میں بلاشک وشبہ شامل ہے۔ عمران خان بار بار یہ کہتے آ رہے ہیں کہ وہ پاکستان کو قائداعظم کا پاکستان بنائینگے۔ یہ بات یاد رکھی جائے کہ کشمیر کے بغیر نواں پاکستان یا قائداعظم کا پاکستان نہ بن سکے گا۔ قائداعظم نے اعلان کیا تھا کہ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے کیا ہم سب پاکستانیوں کا یہ فرض مقدس نہ ہے کہ ہم اپنی شہ رگ کی حفاظت کریں اور اس کو دشمن کے قبضہ سے آزاد کرائیں کشمیر میں پاکستان کی زندگی ہے۔ کشمیر سے آنے والا پانی ہی ہمیں زندگی کی ضمانت دیتا ہے ۔دیکھیں اور غور کریں کہ جب ہمیں پانی کی اشد ضرورت ہوتی ہے تو بھارت اس پانی کو بند کر دیتا ہے جب ہمیں اس پانی کی ضرورت نہیں ہوتی تو بھارت اپنے اس فالتو پانی کا رخ پاکستان کی طرف کر دیتا ہے حالیہ سیلاب سے ہمیں بے حساب معاشی اور اقتصادی نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے اب بھی ہمارا پیارا وطن سیلابی پانی سے ڈوبا پڑا ہے۔
ان خوفناک سیلابوں کی تباہ کاریوں سے صرف اور صرف اس وقت محفوظ ہونگے جب کشمیر بھارت کی غلامی سے آزاد ہو کر پاکستان کے ساتھ شامل ہو گا۔ میں خود کشمیر سے آیا ہوں کشمیر کا بچہ بچہ پاکستان کے ساتھ ہے۔ کشمیری پاکستان کو اپنا نجات دہندہ تصور کرتے ہیں۔ پاکستانیوں کو کشمیریوں کا نجات دہندہ بن کر ثابت کرنا ہو گا۔ ڈاکٹر طاہر القادری آپ کی تقریر پرجوش اور دلائل سے بھرپور ہوتی ہیں۔ مظلوم کشمیری آپ دونوں کی نظروں سے ابھی تک کیوں اوجھل چلے آ رہے ہیں؟ کشمیریوں کا ساتھ دیں۔ ان کی پوری پوری حمایت کا اعلان کریں۔ آج پاکستان کی طرح کشمیر کے لوگ بھی سیلاب کی بے رحم لہروں کی لپیٹ میں آئے پڑے ہیں۔ ہم سب کا یہ فرض ہے کہ ہم پاکستان اور کشمیر میں سیلاب زدہ لوگوں کی ’’قدمے درمے سخنے‘‘ امداد کریں۔ 

ای پیپر دی نیشن