بعض اوقات کسی شخص کی ایک خوبی کا ذکر اتنے تواتر سے سننے میں آتا ہے کہ وہ بس اک لطیفہ بن کر رہ جاتی ہے۔ میاں شہباز شریف کو حکومت پنجاب کے ذرائع ایک ”عالم ہفت زباں“ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں- سات زبانوں میں شعر کہنے والے سندھی شاعر حضرت سچل سرمست کے وزن میں سات زبانیں جاننے والے سیاستدان، میاں شہبازشریف کے ہر غیر ملکی دورے کے دوران آپ کو یہ خبر ضرور پڑھنے کو ملے گی۔
میاں شہباز شریف نے وہاں کی مقامی زبان میں تقریر کی۔ تقریر اتنی شاندار کہ بس کچھ نہ پوچھیئے، سننے والے انگلیاں دانتوں تلے داب کر رہ گئے۔ وہ لوگ حیران پریشان تھے کہ معزز مہمان نے ان کی زبان میں اہل زبان کی سی دسترس کیسے حاصل کر لی۔ اب آپ میزبانوں کی حیرانی اور پریشانی چھوڑیں، کچھ ہماری فکر کریں۔ ہم اپنے وزیر اعلیٰ پنجاب کے احترام میں ایسی خبریں پڑھ کر ہنس بھی نہیں سکتے۔ ویسے ایسے ہنسی والے مواقع ہمیں اور بھی میسر آتے رہتے ہیں۔ کیا آپ نے انہیں کبھی حبیب جالب کا کلام لہک لہک کر پڑھتے نہیں سنا؟ اک سماں بندھ جاتا ہے، پھر وہ منظر نامہ دیکھنے والا ہوتا ہے۔ مرزا غالب نے کہا تھا کہ میری رسوائی کا باعث میرے شعروں کا انتخاب ہے اسی سے میری پسند کا بھانڈا پھوٹ گیا۔ اب حبیب جالب کے شعر ترنم میں پڑھنے سے میاں شہباز شریف کی موسیقی میں شدبد ثابت ہو یا نہ ہو، ان کے درد دل کا پتہ ضرور چلتا ہے۔ اپنے پچھلے دور میں انہوں نے علمائے دین سے ایک ملاقات میں یہ سوال اٹھایا تھا۔ وہ ان سے درد بھرے لہجے میں پوچھنے لگے کہ آپ قیامت کی سختیوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں لیکن آپ اس قیامت کا ذکر کیوں نہیں کرتے جو اس قوم کے غریب، بے سہارا اور بے گھر لوگوں پر جیتے جی روز ٹوٹتی ہے پھر اس سے نجات کی کوئی راہ بھی نہیں۔ بھوک ننگ سے دو چار اور فکر روزگار سے بے نیاز بس اپنے خوابوں کی دنیا میں بسنے والے ایک شاعر کوئی اور طرح کی قیامت بتا رہے ہیں:
قیامت سے بہت پہلے قیامت ہم نے دیکھی ہے
ترا مل کر بچھڑ جانا قیامت اور کیا ہو گی
یہ خیالی دنیا میں رہنے والوں کی باتیں ہیں۔ فیض احمد فیض نے کہا تھا کہ ”اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا“ تو سچ کہا تھا۔
یہ گوجرانوالہ ہے، جنڈیالہ باغوالہ کی رہائشی نازیہ ٹریفک سے ہردم آباد جی ٹی روڈ پر کئی گھنٹے ہاتھوں میں پلے کارڈ لیے بیٹھی رہی کہ شاید کوئی مدد کے لیے پہنچ جائے لیکن اس کی کوئی شنوائی نہ ہوئی۔ یہ نازیہ ایک اندھی عورت ہے وہ غربت اور خاوند کی بیماری سے تنگ آ کر اپنے چھ بچوں کو فروخت کرنے کیلئے جی ٹی روڈ پر لے آئی۔ اس نے یہ بھی کہا کہ اگر اس کی مدد نہ کی گئی تو وہ بچوں سمیت خود کشی کر لے گی۔ یہ خبر چند روز پرانی ہے شاید وہ اب تک خود کشی کر چکی ہو۔ اکیلی یا بچوں سمیت، ہم کچھ نہیں کہہ سکتے۔ اب ہم صرف یہی کہہ سکتے ہیں کہ ادھر حالات میں بہتری کا کوئی امکان نہیں۔
دنیاوی قیامت ٹالنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ ان مسائل پر قابو پایا جائے جو اس قیامت کا سبب بنتے ہیں۔ ہمارا پہلا مسئلہ ہے آبادی، اب دیکھئے! اک غریب، اندھی، بے سہارا، احتجاج کرنے والی عورت نازیہ کے بچوں کی تعداد چھ ہے۔ ہمارے ملک کی آبادی کتنی ہے؟ درست جواب سر دست ہمیں میسر نہیں۔ ہم نے آخری مردم شماری 1998ءمیں کی تھی۔ اب 2016ءمیں کرنے کے ارادے ہیں۔ اچھی بات ہے کہ ارادہ تو ہے۔
ہمارا دوسرا مسئلہ ہے زرعی اصلاحات۔ لیکن چھوڑ ئیے، زرعی اصلاحات کا ذکر ہی چھوڑئیے۔ سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر سماعت ہے۔ لیکن اس کے فیصلہ کیلئے ہمیں کئی چیف جسٹس اور کئی نسلوں کا صبر چاہئے۔ اپنی سروس کے آخری دنوں میں چیف جسٹس افتخار چوہدری وکلاءسے کہنے لگے۔ اگر آپ تعاون کریں تو میں عابد حسن منٹو کی اس رٹ کا ایک ہفتہ میں فیصلہ سنا سکتا ہوں۔ عابد حسن منٹو نے سپریم کورٹ میں قزلباش کیس کے خلاف نظر ثانی کی اپیل دائر کی ہوئی ہے۔ حفیظ پیر زادہ بولے: می لارڈ! یہ مسئلہ چودہ سو برس سے حل نہیں ہوسکا۔ اب ایک ہفتے میں کیسے حل ہو جائیگا۔ بہت لمبی بحثیں ہونگی، وہ جاگیرداروں کے وکیل تھے۔ اب زرعی اصلاحات چھوڑیں۔ کیا ہماری قومی اسمبلی زرعی ٹیکس لگانے کی طاقت رکھتی ہے؟ درست جواب نفی میں ہے۔ یہی اک مسئلہ ہے جس پر ہماری ساری سیاسی جماعتوں کا اتفاق و اتحاد ہے۔
جب بھٹو کا نواسہ بلاول بھٹو کہتا ہے کہ کسانوں پر ودہولڈنگ ٹیکس نہیں لگ سکتا تو اس کی کسانوں سے مراد یہی ہزاورں ایکڑ اراضی کے مالکان ہیں۔ جو بڑے بڑے شہروں میں رہتے ہیں۔ ان دنوں تحریک انصاف بھی کسان کانفرنس شو کر رہی ہے۔ بے زمین کسان اور مزدور کے سے بھونڈے الفاظ ہماری نفیس سیاست سے خارج ہو چکے ہیں۔ تیسرے نمبر پر تاجروں کا معاملہ آتا ہے۔
ہمارے تاجر ٹیکس بالکل نہیں دینا چاہتے۔ وہ اپنی من مرضی سے ریاست کو صرف تھوڑی بہت خیرات کرنا چاہتے ہیں۔ ٹیکس وغیرہ کا ذکر چھوڑیں۔ آپ ان سے یہ بھی نہیں منواسکتے کہ بجلی کی قلت کے باعث وہ اپنی دکانداری ہی دن کی روشنی میں سجالیں۔ چوتھے نمبر پر یہ کہ جب تک ہم اپنی خارجہ پالیسی اور ہمسایوں کے ساتھ طرز عمل میں ایسی تبدیلی نہیں لاتے جس کے نتیجے میں ہم اپنے قومی وسائل کا بڑا حصہ عوام کی فلاح و بہبود اور قومی ترقی کے منصوبوں پر صرف کرسکیں، ہمارے دن بدلنے کے نہیں۔
رہا کشمیر، وہ چنگاری سے شعلہ بن چکا ہے۔ یہ چنگاری سے شعلہ، کشمیر کے ایک عرصہ تک رہنے والے گورنر جگموہن کی اردو میں لکھی کتاب کا نام بھی ہے اور کشمیر کی صورت حال کی دو لفظی سچی تصویر بھی۔ سو! کوئی میاں شہباز شریف سے جا کہے کہ دنیا کی قیامت کو ٹالنے کےلئے کوئی وظیفہ علمائے دین نے اگر انہیں بتایا ہے تو وہ اسے ضرور آزما دیکھ لیں۔ ہم تو بس یہی سمجھتے ہیں کہ ہمارے ملک میں یہ قیامت ہر گز ٹلنے والی نہیں۔
پس تحریر! کیا آپ زکوٰة کا اجر اس دنیا میں بھی حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ گوجرانوالہ میں کروڑوں روپے زکوٰة دینے کی سکت رکھنے والوں کے لئے ایک سیاسی جماعت کے عہدئے اور لاکھوں روپے کی زکوٰة دینے کی حیثیت رکھنے والوں کیلئے ایک تاجر تنظیم کے عہدے موجود ہیں۔ زکوٰة کی شکل میں ان عہدوں کی قیمت انہیں صرف ہدیہ قبول کیا جائے گا۔
]