گدھے کا گوشت.... گدھی کا دودھ

نوکر ہانپتا کانپتا اندر آیا اور بولا سر جی وہ آ گئے ہیں۔
میں بھی دوڑ کر باہر آ گئی۔ وہ چار تھے۔ کڑ کڑ کرتے کپڑے پہن کر تنے تنائے اور سر اٹھائے کھڑے تھے۔ سازوسامان ان کے ہاتھ میں تھا۔
کیا کرتے ہو بھائی.... کہاں سے آئے ہو۔
اجی آج کے دن کون پوچھتا ہے کہاں سے آئے ہو، کیا کرتے ہو، آج کے دن تو صرف جی آیاں نوں کہتے ہیں۔
میں نے یہ پوچھا تھا قصائی ہو کہ نہیں۔
آج کے دن تو ہر کوئی قصائی ہوتا ہے۔ ایک کڑک کر بولا۔
ہر کوئی.... میں اور بھی حیران ہوئی۔
اور کیا.... کیا دکاندار آپ کی کھال نہیں اتارتے۔ پیاز کتنا مہنگا ہے۔ سبز دھنیا جو مفت میں ملا کرتا تھا سو روپے کی گڈی مل رہی ہے۔ بکرے والے نے کیا آپ کا لحاظ کیا ہے۔ بس جی ہر ایک کو آپ قصائی تو نہیں کہہ سکتے۔
مگر بکرا کاٹنا بنانا تو ایک الگ قسم کا پیشہ ہے۔
ہو گا جی.... وہ بولا۔ جو قصائی ہوتا ہے وہ خود چھری ٹوکا اٹھا کے دوسروں کے گھر جاتا ہے۔ ہم آئے ہیں نا؟ اتنا بڑا شہر ہے لاہور، ہر گھر سے بکروں کی آوازیں آ رہی ہیں۔ یہ آوازیں خود قصائیوں کو بلا رہی ہیں۔ جلدی فیصلہ کریں۔
کیا ریٹ ہے تمہارا فی بکرا۔
لو اور سنو، کبھی آپ نے ڈالر کا ریٹ پوچھا ہے۔ کبھی سونے کا ریٹ پوچھا ہے۔ کبھی پٹرول کا ریٹ پوچھا ہے۔ جن میں ہر روز تبدیلی آتی ہے۔ سال میں ایک دن قصائی آ گیا تو آپ کو ریٹ کا فکر پڑ گیا۔
دوسرا بولا ہمارا ایک ایک منٹ قیمتی ہوتا ہے۔ آج کے دن ہم ایک ایک منٹ کے حساب سے پیسے کماتے ہیں۔ اس شہر کے لوگ عجیب ہیں۔ تیسرا بولا ایک لاکھ کا بکرا خرید لیتے ہیں اور پانچ ہزار قصائی کو دینے سے رونے لگتے ہیں۔ عید کے روز قصائی مہنگا ہوتا ہے اور بکرا سستا ہو جاتا ہے۔ تین دن تک کوئی قصائی نصیب نہ ہو تو آپ سمجھیں آپ کی قربانی قبول نہیں ہوئی۔
باہر ہماری ویگن کھڑی ہے۔ چوتھا بولا جلدی طے کر لیں۔ ہم کہیں اور چلے جائیں گے۔
آپ ویگن میں آئے ہیں تو کہاں سے آئے ہیں۔
جی ویگن قصائیوں سے بھر کر لائے ہیں۔ ابھی سب لگ جائیں گے.... لوگ سڑکوں پر کھڑے ہماری راہ دیکھ رہے ہیں۔
آخر کار بہت سوچنے کے بعد میں نے صرف اتنا پوچھا....
بس اتنا بتا دیں آپ نے کبھی گدھا ذبح کیا ہے؟
گدھا....؟ آپ گدھے کی قربانی کریں گی۔ چاروں ایک ساتھ چیخے۔
ہاں بھائی ہم نے قصائی کی اصل پہچان ہی یہ رکھی ہے۔ جو شخص گدھا ذبح کر کے سلیقے سے اس کی کھال اتار کے اور بڑی مہارت سے اس کا گوشت لوگوں کو کھلا سکتا ہے وہی اصل قصائی ہوتا ہے۔ وہ چاروں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے....
میں نے ملازم کو بلایا اور کہا بکرے لا کر ان کو دکھاﺅ مگر ہمارے بکروں کی تو آواز بھی نہیں آ رہی۔ ہر گھر کا بکرا بول رہا ہے۔ دیکھو ان قصائیوں کی صورت دیکھ کر بکرے بھاگ تو نہیں گئے۔ ملازم نے بدتمیزانہ قہقہہ لگایا اور بولا
سر جی یہ بکرے ہیں۔ سیاسی لیڈر نہیں ہیں کہ ہر وقت بولتے رہیں۔ چار آدمی دیکھیں اور تقریر کرنا شروع کر دیں۔
دیکھیں پچھلی عید پہ قصائی نے دونوں بکرے خراب کر دیے تھے۔ میں نے کہا آپ نے بھی خدا کو جواب دینا ہے۔ انہوں نے بکروں کو دیکھ کر چھریاں تیز کیں اور بولے.... کہاں لکھا ہے جی.... کس کتاب میں لکھا ہے کہ قصائی بھی جواب دہ ہوں گے۔ آپ کو کیا معلوم گدھے کتنے معصوم ہوتے ہیں۔ ان کو تو لٹانے تک پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ ذبح کئے جا رہے ہیں۔ نہ وہ دولتیاں چلاتے ہیں۔ ان بکروں کو دیکھنا آپ.... ہم چاروں ایک ایک بکرے کو قابو کریں گے۔
میں اندر آ گئی اور اخباریں دیکھنے لگی۔ ایک غیرملکی اخبار میں لکھا ہوا تھا گدھوں کی پیداوار میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے۔ ہائے ہائے پہلا نمبر پھر کوئی لے گیا اور ہم گدھے پیدا کرتے رہ گئے۔ وہ کہتا ہے گدھے پاکستان کا قومی سرمایہ ہیں۔ ہائے اللہ اسی لیے انہیں بے دریغ قتل کیا جا رہا ہے۔ گدھوں کی چمڑی کھال اور گوشت ایکسپورٹ بھی ہوتا ہے۔ گدھوں کی وجہ سے پاکستان کو گذشتہ سال 147ارب روپے کی کمائی ہوئی مگر ہمارے کسی ادارے نے نہ یہ ریسرچ کی اور نہ ہمیں بتایا کہ گدھے قومی آمدنی میں اس قدر اضافہ کر رہے ہیں.... ہمارا خیال ہے اور مشورہ بھی ہے کہ حکومت کو بڑی شدت سے گدھوں کی پیداوار بڑھانی چاہیے اور بڑھتی ہوئی بدوضع بے ہنگم آبادی پر روک لگانی چاہیے۔
ہمارے ملک میں عورتیں ہمیشہ اپنی ناقدری کا رونا روتی رہتی ہیں مگر جہاں جہاں کوئی گدھی رہتی ہے وہ اپنی ذات پر فخر کرتی ہے کیونکہ طب سے ثابت ہوا ہے کہ گدھی کا دودھ سب سے طاقتور دودھ ہوتا ہے۔ ہمارے بچپن میں ایک حکیم حاذق ہوتے تھے۔ وہ ٹی بی کے مریضوں کو گدھی کا دودھ پینے کا مشورہ دیتے تھے۔ حال ہی میں ہمارے ہمسائے بھارت کے ایک ریجن میں گدھی کا دودھ ایک دوا کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔ یہ دوا بچوں کی سانس کی بیماریوں یعنی دمہ، نزلہ، زکام، اور پرانی کھانسی کے لیے بنائی جاتی ہے۔ اس علاقے کے لوگ اپنی اپنی گدھی کو لے کر صبح سویرے شہروں میں پہنچ جاتے ہیں کیونکہ شنید ہے گدھی کا دودھ خالی پیٹ ہی استعمال ہوتا ہے اور اس کی قیمت سن کر یقیناً تمام گایوں اور بھینسوں کو رشک آئے گا کہ اس علاقے یعنی تلنگانہ ریجن میں گدھی کا دودھ تین ہزار روپے فی لٹر بکتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی گدھی کے دودھ سے استفادہ کیا جا رہا ہو کیونکہ کبھی کسی گدھی کے ذبح ہونے کی اطلاع نہیں ملی۔
ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عام طور پر ہر گھر میں شوہر کبھی نہ کبھی اپنی بیوی کو گدھی کا لقب ضرور دیتا ہے۔ بعض شوہروں کا تو منہ محاورہ ہی ہوتا ہے کہ عجب گدھی ہو تم.... تم تو بالکل گدھی ہو.... یار میری بیوی تو ہے ہی گدھی....
اب معلوم نہیں وہ کس حساب میں اپنی بیوی کو گدھی کہہ کر پکارتے ہیں۔ پھر تو جو بچے اپنی ماں کے دودھ اور وجود پر پلتے ہیں ان کو بہت تنومند اور طاقتور ہونا چاہیے۔
ہمیں نہیں معلوم ہمارے ہاں جو دودھ بکتا ہے اس دودھ میں کس کس جانور کے دودھ کی ملاوٹ ہوتی ہے۔
اس مرتبہ پاکستان حکومت نے اعلان کر دیا کہ عیدالاضحیٰ پر بکرے کی قربانی دی جائے گی بکریوں کو ذبح نہیں کی جائے گا۔ شکر ہے خواتین کے حقوق کا اطلاق بچاری بکریوں پر تو ہوا.... سنا ہے کہ طبی لحاظ سے بکری کا دودھ بھی بہت کارآمد ہے۔ سنا ہے کہ بعض ملکوں میں بکری کا دودھ پانچ سو روپے لٹر سے لے کر 1800 روپے لٹر تک فروخت ہو رہا ہے اور یہ دودھ ڈینگی کے علاج میں سب سے بڑا مددگار ہے۔ اس دودھ کے اندر انسانی جسم میں پلیٹ لیٹس بڑھانے کی خوبی ہوتی ہے.... علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے
نہیں مصلحت سے خالی یہ جہان مرغ و ماہی
اور پھر کہا ہے ....
گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی
دل کو لگتی ہے بات بکری کی
چلیں چھوڑیں جی میں اندر بکری بکری کرتی رہوں اور وہ لوگ باہر بکرے کا حشر نشر کرتے رہیں۔

ای پیپر دی نیشن