بقر عید کا تیسرا دن ہموطنوں اور ہمسفروں کے ساتھ

میں ہمیشہ بقر عید کے تیسرے اور آخری دن بقر عید کرتا ہوں۔ میں اپنی بقر عید کی بات کروں گا مگر پہلے یہ بات کہ لوگ ہمیشہ بالعموم اپنے لوگوں رشتہ داروں عزیزوں کے ساتھ عید بقر عید کرتے ہیں۔ جس حال میں وہ اپنے گھروں کو جاتے ہیں یہ اذیت اور ذلت بھی اس احساس کے لیے قبول ہوتی ہے کہ اپنے گھر جا کے عید کریں گے۔ وطن بھی گھر ہوتا ہے۔
مگر ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں نے بیرون ملک بقر عید کی۔ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں ایک دو دن کے بعد بھی جایا جا سکتا تھا۔ جنرل اسمبلی میں تو 30 ستمبر کو نواز شریف کا خطاب ہے۔ وہ بقر عید ہم وطنوں کے ساتھ کر کے جاتے۔ البتہ شہباز شریف نے بقر عید اپنے لوگوں کے ساتھ کی۔ یہ اچھی بات ہے۔ ”صدر“ زرداری کسی خوف سے دبئی جا کے بیٹھ رہے ہیں۔ پارٹی میٹنگز وہیں کرتے ہیں۔ بقر عید سے ایک روز پہلے بلاول کو بھی اپنے پاس بلا لیا۔ اب لگتا ہے کہ دبئی ان کا وطن ہے۔ یہ شہر لندن سے بھی اہم ہو گیا ہے۔ زرداری شہید بی بی کے بعد پاکستان آئے تھے۔ اب کیوں چلے گئے ہیں اور کب آئیں گے؟
اس بار لاہور میں زیادہ گندگی اور تعفن نہیں پھیلا۔ کمشنر لاہور عبداللہ خان سنبل ان دنوں میں شہر کی صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے خود گھومتے رہے۔ برادرم ڈاکٹر ندیم گیلانی نے بتایا کہ ڈی سی او لاہور بھی بہت متحرک رہے ہیں۔ وہ شہر کے لیے بہت محنت کر رہے ہیں۔ البتہ کراچی میں گندگی کے ڈھیر اور آلودگی کی فضا نے لوگوں کے لیے زندگی اجیرن کر دی۔ یہ کام سندھ حکومت کا ہے۔ ان کا خیال ہو گا کہ یہ کام بھی رینجرز کرے۔ رینجرز کوئی کام کرتی ہے تو سیاستدانوں، حکمرانوں کو برا لگتا ہے۔ کراچی والے تو چاہتے ہیں کہ شہر کو رینجرز والے سنبھال لیں۔ میں نے بتایا کہ میں ہمیشہ بقر عید کے تیسرے اور آخری دن بقر عید کرتا ہوں۔ میرا ڈرائیور میرا بھائی سعید نیازی انہی پیسوں میں دو بکرے لے آیا جو میں نے ایک بکرے کے لیے رکھے ہوئے تھے۔ میں منڈی میں اس کے ساتھ تھا مگر خرید و فروخت اور مول تول وہی کرتا رہا۔ بقر عید کے تین دن رکھنے کا کوئی توجواز ہونا چاہیے۔ دو دن گھر میں پڑے پڑے گزر گئے۔ دوست احباب بقر عید ملنے آتے رہے۔ دوستوں اور ہمسایوں نے اتنا گوشت بھجوایا کہ اس میں سے بہت سا ہم نے ضرورت مند لوگوں کو دے دیا۔ پتہ ہی نہ چلا کہ ہم نے بقر عید کی ہے یا نہیں کی ہے۔
بقر عید کے دوسرے دن آرٹسٹ اور سرائیکی دوست مظہر ملک اور اس کی فنکار بیوی بہت اچھی عالیہ شاہ نے چند دوستوں کی دعوت کر دی۔ برادرم خاور نعیم ہاشمی ذوالقرنین، نعیمہ بی بی خالد اعجاز مفتی۔ یہ عجیب مفتی ہے کہ اس نے آج تک کوئی فتویٰ نہیں دیا۔ اب مفتی ایک ذات بن چکی ہے۔ اللہ کرے فتویٰ ختم ہو اور تقویٰ شروع ہو۔ ان کے چھوٹے بھائیوں جیسا بیٹا عمیر بھی مفتی ہے اور عزیزم غالب۔ ہم پانچ سات لوگ تھے۔ مزے سے کھانا کھایا بلکہ بقر عید کھائی۔ گیت بھی گاتے گئے۔
وچ روہی دے رہندیاں
نازک نازک جٹیاں
راتیں کرنا شکار دلیں دا
ڈہنیں ولوڑن مٹیاں
خواجہ فرید کا سرائیگی کلام بے قرار دلوں میں سرشار کیفیتوں کی تاثیر گھول دیتا ہے۔ جن دنوں میں پی ٹی وی پر پروگرام کرتا تھا تب کوئی پرائیویٹ چینل نہ تھا۔ ایک بار بے پناہ پڑھے لکھے عالمی سطح کے دانشور تعلیمی امور کے تخلیقی بادشاہ ڈاکٹر محمد اجمل سے گفتگو کے دوران پوچھ لیا کہ آپ نے عالمی شعر و ادب کا مطالعہ کر رکھا ہے۔ آپ کے خیال میں دنیا کا بہترین شاعر کون ہے۔ انہوں نے احساس کمتری کے مارے ہوئے جعلی دانشوروں کی طرح کسی مغربی شاعر کا نام نہیں لیا۔ انہوں نے مجھے حیران کر دیا۔ بے ساختہ کہا کہ میرے خیال میں دنیا کا سب سے بڑا شاعر سرائیکی شاعر خواجہ فرید ہے۔ جس نے پیر فرید کو یار فرید بنا دیا تھا۔ میں نے پی ٹی وی انتظامیہ سے گذارش کر کے ڈاکٹر اجمل کا یہ انٹرویو محفوظ کرا لیا۔ وہ اب بھی لاہور سنٹر میں موجود ہے۔ کوئی اجتماعی خوشی اور ملال خواجہ فرید کے کلام میں رقص کرتی ہے۔
آچنوں رل یار۔ پیلوں پکیاں نی وے
باجی بھابی ناہید منیر نیازی کے فون پر بقر عید مبارک کے بعد شاعری کے خان اعظم میرے قبیلے کے سردار منیر نیازی کے لیے باتیں شروع کر دیں۔ وہ ہر وقت ان کے لیے سوچتی رہتی ہیں اور میرے ساتھ اپنی باتیں شیئر کرتی ہیں۔ کہتی ہیں مجھے منیر نیازی نے کہا تھا میرے بعد تمہیں کوئی پریشانی ہو تو اجمل نیازی سے بات کرنا۔ یہ بات میرے لیے اعزاز ہے۔ وہ عید بقر عید پر یا ہفتے میں دو دن گھر سے باہر نکلتے تھے تو مجھے بلوا لیتے۔ میں تب ٹوٹی پھوٹی گاڑی لے کر حاضر ہو جاتا۔ بغیر کسی مقصدکے گھومتے رہتے۔ کہیں پہنچنے کے لیے چلنا تو مجبوری ہوتی ہے۔ سیر و تفریح یہ ہے کہ آدمی یونہی گھومتا رہے۔ لانگ ڈرائیور کا شغل یہی ہے۔ دوست منیر نیازی سے گلے کرتے ہمارے پاس اچھی گاڑیاں ہیں اور ہم ہر وقت حاضر ہیں۔ آپ ہر وقت اجمل نیازی کو بلوا لیتے ہیں۔ انہوں نے اس موقع پر جو جملہ کیا وہ میرے لیے اعتبار اور پیار کا ایسا سرٹیفکیٹ ہے جو میری زندگی کو تابناک بنا دیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں اجمل نیازی کی موجودگی میں تحفظ محسوس کرتا ہوں۔
باجی ناہید منیر نیازی نے کہا کہ صدیق پلازہ گلبرگ میں شہباز شریف انڈر پاس بنا رہے ہیں۔ اسے منیر نیازی کے نام سے منسوب کیا جائے۔ میں نے بے ساختہ اس کی تائید کی۔ میں شہباز شریف سے درخواست کرتا ہوں کہ منیر نیازی پاکستان کے لیے اعزاز سے بڑھ کر کسی اعزاز کی طرح ہیں۔ اس انڈر پاس کو ان کا نام دے دیا جائے۔ دوسرے انڈر پاس کے لیے بھی پاکستانی شاعروں ادیبوں کو یاد رکھا گیا ہے جو شہباز شریف کے ذوق و شوق کی بڑی گواہی ہے۔ مال روڈ انڈر پاس ایک بڑے پاکستانی شاعر فیض احمد کے نام سے منسوب ہے۔ ماڈل ٹاﺅن انڈر پاس کے لیے بہت مستحکم شخصیت کے بڑے نظریاتی اور بہادر ادیب اشفاق احمد کے نام پر ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کا انڈر پاس دلیر اور سچے معروف صحافی شعبہ ابلاغیات پنجاب یونیورسٹی کے پروفیسر وارث میر کے نام کے ساتھ منسوب ہے۔ صدیق پلازہ گلبرگ والا انڈر پاتھ منیر نیازی کے لئے مخصوص کیا جائے۔ اہل فکر اہل دل اہل دانش لوگ ہی کسی قوم کے ہیرو اور ترجمان ہوتے ہیں۔ یہ بات کسی حکمران کے دل میں آئی ہے تو حوصلہ اور اطمینان کی بات ہے۔

ای پیپر دی نیشن