بھارت کا منفی رویہ علاقائی امن کیلئے خطرہ

جنوبی ایشیاء کی تھانیداری بھارت کی دیرینہ حسرت ہے یہی وجہ ہے کہ نہ صرف پڑوسی ملکوں کے ساتھ بھارت کا رویہ ہمیشہ منفی رہا ہے بلکہ اقلیتوں کو مفلوج اور سر نگوں رکھنے کیلئے ریاستی جبر کا راستہ بھی بھارت کا شیوہ چلا آرہا ہے۔ پڑوسی ممالک کے حوالے سے بات کی جائے تویہی نظر آتا ہے کہ اچھے پڑوسی کی طرح رہنا تو در کنار بھارت نے کبھی سفارتی آداب کا خیال کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ چین پاک بھارت کی آزادی سے دو سال بعد آزاد ہوا ، نئے آزاد ممالک کے بے شمار مسائل ہوتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں سرحدوں کا ابہام کوئی غیر معمولی بات تصور نہیں ہوتی۔ بعض مقامات پر سرحدی جھڑپوں کے واقعات تو رونماء ضرور ہوئے مگرمسئلہ کے پرامن اور منصفانہ حل کی بجائے بھارت نے یکطرفہ طور پر فارورڈ پالیسی کے تحت خود ہی سرحدوں کا تعین کرتے ہوئے چینی سرحد کے ساتھ ساتھ پوسٹیں بنانی شروع کر دیں۔ چنانچہ 3225 کلومیٹر طویل ہمالیہ بارڈر کا تنازعہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوا۔ ویسے بھی لگتا ہے بھارت نے چین سے تصادم کا ذہن بنا لیا تھا یہی وجہ ہے کہ تبت کے مسئلے پر بھی بھارت نے چینی ٹروپس کے خلاف گوریلہ جنگ کی خاطر تبتی گوریلے بھرتی کرنے اور انہیں ٹریننگ دینے کیلئے نہ صرف اپنی سرزمین امریکہ کو فراہم کی بلکہ دلائی لاما کو سیاسی پناہ بھی دی ۔ یوں حالات مسلح تصادم کی جانب بڑھے اور اکتوبر 1962ء میں چین نے بھارت پر حملہ کرکے آکسئے چن کا علاقہ کلیئر کروا لیا اور کئی علاقوں پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد آج تک دونوں ملکوں میں اعتماد کی فضاء پیدا نہیں ہو سکی۔ سری لنکا کو دیکھ لیں۔ کوئی چار دہائیوں پر محیط تامل ٹائیگرز کی سول وارکو اکثر و بیشتر بھارتی ایجنسی راء اور مقامی سہولت کاروں کی پشت پناہی حاصل رہی حتیٰ کہ بھارتی ریاست تامل ناڈو ایک عرصہ تک تامل ٹائیگرز کا ٹرانزٹ کیمپ بنی رہی۔اس دوران اگرچہ1987ء میں سری لنکا کے ساتھ معاہدہ کی رو سے بھارت نے آئی پی کے ایف کے نام سے اپنی فوج سری لنکا بھیجی مگر اس فورس نے اپنے دائرہ کار سے تجاوز کرتے ہوئے بلا تفریق گوریلہ گروپوں کو غیر مسلح کرنے کی بجائے صرف ایک گروپ کو ٹارگٹ بنایا اور شیطان فورس کا لقب پاکر ہدف حاصل کئے بغیر بھارت واپس آئی۔ تامل ٹائیگرز کو شک تھا کہ آئی پی کے ایف کو سری لنکا میں دوبارہ تعینات کر دیا جائیگا۔ لہٰذا راجیو گاندھی کو قتل کر دیا گیا۔ نیپال کے وزیراعظم بھی کہہ چکے ہیں کہ بھارت ان کی حکومت گرانے کیلئے اپوزیشن سے گٹھ جوڑ میں ملوث ہے۔ اگرچہ بھارت انکاری ہے مگر حکومت نیپال کا موقف ہے کہ یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کی طرف سے انڈین بارڈر پر برگنج شہر کے مقام پر چار ماہ تک جاری رہنے والی نیپال کی ناکہ بندی انڈین حکومت کی سپورٹ کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ واضح رہے کہ نیپال کی 70 فیصد درآمدات کا یہی راستہ تھا جس کی چا ر ماہ تک ناکہ بندی جاری رہی حالانکہ یونیسف نے خدشہ ظاہر کیا تھا کہ نیپال کے تین ملین سے زائد بچے خوراک اور ادویات کی عدم دستیابی کی بنا پر موت کے منہ میں جا سکتے ہیں۔ جہاں تک پا کستان کا تعلق ہے۔ بھارت نے پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم ہی نہیں کیا۔ کشمیر کے مسئلہ پر دونوں ملکوں کے درمیان جنگیں ہو چکی ہیںاور آئے روز جنگ کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ آج کل بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہے۔ جس کی تمام ذمہ داری بھارت پر عائد ہوتی ہے۔کیونکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت کشمیر میں رائے شماری کروانے کی بجائے بھارت نے ایک طرف کشمیری حریت پسندوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے اور دوسری طرف پاکستان کے صوبہ بلوچستان سمیت دیگر علاقوں میں دہشت گردوں کی سپورٹ کرنے کی دھمکی دے رہا ہے۔ یہ تو کھلی دہشت گردی ہے۔ اب اوڑی واقعہ کا الزام کسی ثبوت کے بغیر پاکستان پر تھوپنے کا اس کے سوا کیا مقصد ہے کہ بھارت پر جنگی جنون سوار ہے جو اسے کبھی چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اور پڑوسی ممالک سے ہر وقت الجھائو بھارتی حکمرانوں کی سیاسی مجبوری ہے۔ مگر دانشمندی کا تقاضا ہے کہ انہیں خطے کے امن کی بھاری قیمت پر اپنی سیاسی دوکان چمکانے کی بجائے خطے کی بھلائی کی خاطر ہوش کے ناخن لیتے ہوئے منفی کی بجائے مثبت رویہ اختیار کرنا چاہئیے۔ کشمیری حریت پسند راہنماء سید علی گیلانی کا کہنا ہے کہ کشمیرمیں بھارتی فوج کے مظالم سے توجہ ہٹانے کیلئے یہ بھارت کا اپنا منصوبہ ہو سکتا ہے ۔کچھ ایسا ہی بیان علیحدگی پسند سکھ راہنماء امر جیت سنگھ نے دیا ہے جس سے سید علی گیلانی کے موقف کی تائید ہوتی ہے۔اگر بھارت کی اندرونی صورتحال کا ذکر چھیڑا جائے تو یہاں بھی بھارتی رویئے کا وہی عکس نظر آتا ہے جو اس نے شروع سے پڑوسی ممالک کے ساتھ روا رکھا ہوا ہے۔ 1984ء میں گولڈن ٹمپل کا واقعہ جس میں سکھ مذہب کے ہزاروں پیروکاروں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، بھارت کے ماتھے پر بدنما داغ کی حیثیت رکھتا ہے۔ واقعہ کے چار ماہ کے اندر بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی اپنے ہی دو سکھ سیکورٹی گارڈز کے ہاتھوں قتل ہوئی ۔ سکھ راہنماء امر جیت سنگھ کے مطابق خالصتان کی تحریک کو کچلنے کی غرض سے ڈیڑھ لاکھ کے قریب سکھوں کو موت کی وادی میں دھکیل دیا گیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان سفارتی امداد کرے تو خالصتان بن سکتا ہے جو دو متحارب قوتوں کے مابین بفر زون کا کام دے گا۔ 1992ء میں ہندو انتہاء پسندوں نے تاریخی بابری مسجد گرا دی۔ ہزاروں مسلمان شہید کر دئیے گئے۔ سعودی عرب، ابوظہبی، متحدہ عرب امارات، ایران، بنگلہ دیش اور پاکستان نے بھارتی حکومت کو ہدف تنقید بناتے ہوئے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی مگر بے سود۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ دوسروں پر الزام تراشی کا کیا فائدہ، سچ یہ ہے کہ جس خطہ میں ریاستی دہشتگردی بے لگام ہو، ظلم وجبر اور بے انصافی عام ہو وہاں امن نہیں رہتا۔

ای پیپر دی نیشن