لاہور: کسانوں کا دھرنا جاری، مرکزی قیادت رہا، پرامن احتجاج روکنا آمروں کا شیواہ ہے:خورشید شاہ

 پاکستان کسان اتحاد نے اپنے مطالبات کے حق میں دوسرے روز بھی مال روڈپر اپنا احتجاجی دھرنا جاری رکھا ، رات گئے مذاکرات کے بعد کسان اتحاد کی مرکزی قیادت کو رہا کر دیا گیا تاہم کسانوں نے دیگر ساتھیوں کی رہائی اور مطالبات کی منظوری تک احتجاج جاری رکھنے کا اعلان کر دیا ،احتجاج میں شریک کسان ہاتھوں میں ڈنڈے اٹھا کر نعرے بازی اور بھنگڑے بھی ڈالتے رہے۔ تفصیلات کے مطابق پاکستان کسان اتحاد کی طرف سے اپنے مطالبات کے حق میں 28ستمبر کو مال روڈ پر احتجاجی دھرنے کے اعلان پرپنجاب کے دوسرے شہروں سے کسانوں نے ایک روز قبل لاہور پہنچنا شروع کیا تو پولیس کی بھاری نفری نے کسانوں کو حراست میں لینا شروع کر دیا ۔ساتھیوں کی گرفتاریوں پر کسانوں نے ایک روز قبل ہی مال روڈ پر احتجاجی دھرنا دے کرشاہراہ کو ٹریفک کے لئے بند کر دیا ۔ کسانوں نے اپنے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے شدید نعرے بازی کی ۔ پاکستان کسان اتحاد کے مرکزی صدر خالد محمود کھوکھر، صوبائی صدر چودھری رضوان اقبال اور محمد حسین کو رات تین بجے کے قریب رہا کیا گیا تو وہ مال روڈ چیئرنگ کراس پر کسانوں کے دھرنے میں پہنچ گئے جہاں کسانوں کی بڑی تعداد نے ان کا بھرپور استقبال کیا۔خالد کھوکھر کا میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پولیس نے تاحال گرفتار کیے گئے دیگر سینکڑوں کسانوں کو رہا نہیں کیا۔ اگر ان کے گرفتار ساتھیوں کو فوری طورپر رہا نہ کیا گیا تو احتجاج کا دائرہ وسیع کردیا جائے گا اور پر امن احتجاج پر تشدد احتجاج کی صورت بھی اختیار کرسکتا ہے۔خالد کھوکھر کا کہنا تھا کہ حکومت کی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے زراعت کا شعبہ بری طرح تباہی سے دوچار ہوگیا۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کسان دشمن اور تاجر دوست کی پالیسی پر عمل کر رہے ہیں۔ مطالبات کی منظوری تک اسحاق ڈار کا پتلا نذر آتش کر کے علامتی جنازے نکالے جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ کسان بھارتی جارحیت کے خلاف اور اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرہ کرنا چاہتے تھے لیکن مجھ سمیت ان کے ڈھائی سے تین ہزار ساتھیوں کو پولیس نے بلاوجہ گرفتار کر لیا۔ انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے تین سو اکتالیس ارب روپے کے زرعی پیکج میں سے کسانوں کو صرف تیس ارب روپے ملے جبکہ حکومت پنجاب کے پچاس ارب روپے کے کسان پیکج سے ان کو کچھ نہیں ملا، وفاقی وزیر خزانہ ملک میں زراعت کی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔ کسانوں نے اپنے مطالبات کے حق میں دوسرے روز بھی مال روڈ پر احتجاج کا سلسلہ جاری رکھا ۔ پولیس نے مال روڈ کے مختلف مقامات پر کنٹینرز لگا کر راستے بند کردیئے ہیں جس کی وجہ سے بدترین ٹریفک جام ہوگئی۔ شہریوں کو منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے کرنا پڑ ا۔ سکول و کالج جانے والے طلبا بھی خوار ہو کر اپنی منزل مقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔راستہ بند ہونے کے باعث شہریوں اور مظاہرین میں جھگڑے کے واقعات بھی سامنے آئے۔ پاکستان کسان اتحاد کے رہنماوں کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپنے ہر فیصلے اور وعدے سے انحراف کیا ہے۔ حکومت فوری طور پر اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرتے ہوئے کسانوں کو ریلیف دے۔ مظاہرین نے ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اگر حکومت پنجاب نے ان کے مطالبات تسلیم نہ کئے تو اگلے دھرنے میں وہ پورے صوبے کو جام کردیں گے۔اکثر مقامات پر شہریوں اور کسانوں میں تلخ کلامی اور ہاتھا پائی کے مناظر بھی دیکھنے میں آئے۔کسانوں سے یکجہتی کے لئے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ، قمر کائرہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید اور پیپلزپارٹی کے رہنما شوکت بسرا نے بھی دھرنے میں شرکت کی۔ میڈیا سے گفتگو کرتے خورشید شاہ نے کہا پرامن احتجاج کو روکنا جمہوری حکمرانوں کا نہیں آمروں کا شیوہ رہا ہے لگتا ہے مسلم لیگ(ن) کے رہنماﺅں میں اب تک ضیاءالحق کی روح گھسی ہوئی ہے ، مجھے کسانوں کی ریلی میں شرکت سے روکنے کے لئے پنجاب حکومت نے کنٹینرز لگا ئے جو افسوسناک ہے۔ انہوں نے کہاکہ پرامن احتجاج عوام کا آئینی و قانونی حق ہے اور حکومت اس حق کو چھین نہیں سکتی۔خورشید شاہ نے کہا کہ پنجاب حکومت نے لاہور میں کنٹینرز لگا کر ان کا راستہ روکنے کی کوشش کی ہے، جس راستے سے انہیں ریلی میں شریک ہونا ہے وہ راستہ سیل کر دیا گیا ہے حالانکہ انہوں نے تحریری طور پر حکومت پنجاب کو اپنے شیڈول اور راستے سے آگاہ کردیا تھا۔ حکومت فوری طور پر کنٹینرز ہٹا کر راستے کھول دے ورنہ کسی بھی ناخوشگوار واقعے کی ذمہ داری پنجاب حکومت اور مسلم لیگ (ن) پر ہوگی۔انہوں نے کہاکہ کسانوں کے جائز مطالبات پورے ہونے چاہئیں کیونکہ کسانوں کا ملکی ترقی میں اہم کردار ہے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے خورشید شاہ نے کہا کہ حکومت نے کبھی کسانوں کے مسائل پر توجہ نہیں دی۔ ملک کا کسان بے حال ہو چکا ہے۔ ہم میدانوں میں بھی حکومت کا سامنا کرینگے۔ اگر راستے روکے گئے تو یہ اعلان جنگ تصور کرینگے۔ اپوزیشن لیڈر کہیں نہیں جا سکتا تو لیڈر آف دی ہاﺅس بھی کہیں نہیں جا سکتا۔

ای پیپر دی نیشن