وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے گزشتہ ہفتے امریکہ کا پانچ روزہ دورہ کیا۔ اس دورے کا بنیادی مقصد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں شرکت کرنا تھا۔ جنرل اسمبلی کایہ سالانہ اجلاس بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ اس میں دنیا کے بہت سے ممالک کے سربراہان حکومت شرکت کرتے ہیں جن سے ملاقات کا موقع ملتا ہے جو کہ ویسے ممکن نہیں ہوتا۔ پاکستان کو آج بہت سے اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے جن کا مقابلہ مو¿ثر سفارت کاری کے ذریعے ہی کیا جاسکتا ہے۔ بدلتے ہوئے بین الاقوامی حالات کے پس منظر میں وزیراعظم کا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا۔ چند ہفتے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے پاکستان پر کڑی تنقید اور دھمکی آمیز بیان نے بھی صورتِحال میں مزید کشیدگی پیدا کردی ہے۔ اس دورے کی سب سے اہم مصروفیت تو جنرل اسمبلی سے خطاب تھا مگر اسکے علاوہ وزیراعظم کی مصروفیات میں بہت سی اہم ملاقاتیں بھی شامل تھیں۔ پاک بھارت کشیدگی‘ افغانستان کے حالات اور پاک امریکہ تعلقات بھی ان ملاقاتوں کے دوران بات چیت کے اہم موضوعات رہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ ملک کے اندر حکومت کی حالیہ تبدیلی کے بعد وزیراعظم کا یہ پہلا غیرملکی دورہ تھا جس سے انہیں بین الاقوامی سطح پر پاکستان کی نمائندگی کا موقع بھی ملا۔ امریکہ میں مقیم اور موجود بہت سے بین الاقوامی اداروں کے سربراہوں سے بھی وزیراعظم کی ملاقاتیں ہوئیں جس کے دوران ملک کی معاشی اور اقتصادی صورتِحال زیربحث رہی۔
آج کے جدید دور میں میڈیا کا کردار سب سے اہم ہے جو کہ کسی بھی ملک‘ معاشرے یا شخصیت کے بارے میں تاثر قائم کرنے میں سب سے بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ امریکہ میں دنیا کے بڑے بڑے میڈیا ہاﺅسز‘ ہیڈکوارٹر موجود ہیں جو اپنی رپورٹنگ اور تجزیوں کے ذریعے دنیا بھر میں رائے عامہ کو ہموار کرتے ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے دورے کے دوران اہم ترین نشریاتی ادارے CNN اور امریکہ ریجنل فورم کو بھی انٹرویو دیئے۔ CNN کی کوریج دنیا جہاں میں ہے اور اسکے ذریعے آپ اپنا نقطہ¿ نظر انتہائی مو¿ثر طریقے سے پیش کر سکتے ہیں۔ عمومی طور پر CNN کے ذریعے پاکستان کا منفی تاثر ہی پیش کیا جاتا ہے اور بہت کم پاکستانی سربراہان حکومت اس ادارے کو انٹرویو دیتے ہیں۔ وزیراعظم کو ان انٹرویوز اور میڈیا سے Interaction کے دوران کڑے سوالات کا سامنا کرنا پڑا مگر انہوں نے انتہائی اعتماد اور موثر دلائل کے ذریعے پاکستان کا نقطہ نظر پیش کیا۔ ہندوستان کی ہر وقت یہ کوشش رہتی ہے کہ پاکستان کے امیج کو بین الاقوامی سطح پر داغدار کیا جائے جس کے توڑ کیلئے ہمیں ہر وقت تیار رہنا چاہیے۔ خطے اور دنیا کے چند اہم ممالک کے سربراہان سے بھی وزیراعظم کی ملاقاتیں ہوئیں جن میں ایران‘ سری لنکا اور ترکی کے صدور‘ امریکہ کے نائب صدر اور اردن کے بادشاہ شامل ہیں۔ ان ملاقاتوں میں بین الاقومی اور علاقائی تنازعات‘ مسلم اُمہ کو درپیش مسائل اور پاکستان کے کردار پر سیر حاصل گفتگو ہوئی۔ امریکی نائب صدر سے ملاقات کے دوران وزیراعظم نے مختلف امور بالخصوص افغانستان کی صورت حال اور دہشتگردی کیخلاف جاری جنگ میں پاکستان کے کردار اور موقف سے آگاہ کیا۔ امریکی صدر کی حالیہ Policy Statment اور پاکستان کےخلاف لگائے جانیوالے الزامات پر بھی بات چیت ہوئی۔ وزیراعظم نے امریکی نائب صدر کو اس بارے میں پاکستان کے موقف اور پاکستانی قوم کے جذبات سے آگاہ کیا۔ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ کی گئی پاک امریکہ تعلقات کو صرف افغانستان کے حالات سے منسلک نہیں کیا جاسکتا۔ اس دورے کی سب سے اہم مصروفیت اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس سے خطاب تھا۔ پاکستان خطے اور مسلم دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہے لہٰذا پاکستان کے وزیراعظم کا اس اہم ترین بین الاقوامی فورم سے خطاب بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ وزیراعظم نے ایک انتہائی سیر حاصل اور مدلل خطاب کیا جس کے دوران دنیا کی توجہ تمام اہم امور کی جانب مبذول کروائی گئی۔ وزیراعظم نے نہ صرف ان اہم امور کو اجاگر کیا بلکہ اس بارے میں پاکستان کا واضح موقف بھی دنیا کے سامنے پیش کیا جس سے یقینا بہت سے خدشات اور قیاس آرائیاں دور کرنے میں مدد ملی۔ وزیراعظم نے اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی ذمہ داریوں‘ کامیابیوں اور ناکامیوں کا بھی ذکر کیا۔ ایک اہم اسلامی ایٹمی قوت کے سربراہ ہونے کے ناطے سے وزیراعظم نے مسلم اُمہ کو درپیش چیلنجز کا بھی برملا اظہار کیا جس کی لوگ ہم سے توقع کرتے ہیں۔ عراق‘ شام‘ فلسطین اور برما کے مسلمانوں کی حالت ِ زار کو اجاگر کرنا اور بین الاقوامی دنیا کو اسکی ذمہ داریاں یاد دلانا یقینا ایک مو¿ثر اور اصولی موقف کی عکاسی کرتا ہے۔ خصوصاً جبکہ آج اسلامی دنیا کی اکثریت ان تنازعات/ موضوعات پر بات بھی کرنے کوتیار نہیں۔ وزیراعظم کی تقریر کا اہم ترین حصہ حسب توقع پاک بھارت اور پاک افغان تعلقات کے بارے میں تھا۔ انہوں نے مقبوضہ کشمیر میں ہندوستانی فوج کی طرف سے جاری بدترین انسانی مظالم کی جانب دنیا کی توجہ مبذول کروائی اور ہندوستان کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے اجاگر کیا۔ بھارت کی جانب سے جاری ریاستی دہشت گردی اور پاکستان مخالف سرگرمیوں سے بھی دنیا کو آگاہ کیا۔ افغانستان کی زمینی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے وزیراعظم نے پاکستان کے مخلصانہ کردار کا بھی ذکر کیا۔ وزیراعظم نے افغان سرزمین کے پاکستان مخالف دہشتگردی کی کارروائیوں کیلئے استعمال پر بھی اپنے مو¿قف کا بھرپور اظہار کیا۔ ان کا یہ کہنا کہ افغان مسئلے کا پُرامن حل پاکستان کے کردار کے بغیر ممکن نہیں انتہائی اہم تھا۔ وزیراعظم کی تقریر ایک انتہائی جامع اور مو¿ثر تقریر تھی جس کے ذریعے انہوں نے اقوامِ عالم کو پاکستان کے واضح مو¿قف سے دلیرانہ طور پر آگاہ کیا۔ وزیراعظم کی تقریر کو ہر سطح پر سراہا گیا ہے ماسوائے ہمارے ہاں چند تنگ نظر سیاستدانوں اور جانبدار میڈیا ہاﺅسز کے جن کا مقصد ہی ملک کے اندر بے یقینی اور عدم استحکام کو ہوا دینا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ وزیراعظم پاکستان کا یہ دورہ ایک کامیاب سفارتکاری کا مظہر تھا تو کم نہیں ہوگا۔ اسکے مو¿ثر اور کامیاب ہونے کا ثبوت ہندوستان کی بدحواسی اور پاکستان مخالف ہرزہ سرائی ہے کیونکہ دنیا میں صرف پاکستان ہی واحد ملک ہے جو ہندوستان کے توسیع پسندانہ عزائم کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ صرف پاکستان ہی ہندوستان کا اصل چہرہ دنیا کو دکھاتا ہے۔ مزید برآں برما کے مظلوم مسلمانوں کا مسئلہ بھی صرف پاکستان اور ترکی نے ہی دنیا کے سامنے آشکار کیا ہے جسکی وجہ سے برما کی حکومت پر دباﺅ یقینا بڑھا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے اندر اتحاد و یگانگت کی فضا کو بہتر کیا جائے۔ اندرونی طور پر مضبوط اور مستحکم پاکستان ہی بڑھتے ہوئے بیرونی خطرات کا مو¿ثر طریقے سے مقابلہ کر سکتا ہے۔ اس سلسلے میں میڈیا اور سیاستدانوں کا کردار سب سے اہم ہے جو کہ بدقسمتی سے سیاسی تناﺅ اور خطرناک تقسیم کی بدولت ابھی تک صحیح طور پر ادا نہیں کیا جا رہا۔سیاست اور اقتدار آنی جانی چیز ہے مگر ملک نے ہمیشہ قائم و دائم رہنا ہے انشاءاللہ۔ لہٰذا نفرت اور تقسیم کو اس قدر ہوا نہ دی جائے کہ پھر حالات کو سنبھالنا ہی مشکل ہو۔