اقوام متحدہ کا 72 واں اجلاس شروع ہو چکا ہے اور بظاہر ایسا ہی لگ رہا ہے کہ ہر دفعہ کی طرح اس بار بھی بغیر کسی نتیجے کے سب ممالک اپنی بھانت بھانت کی بولیاں بول کر اپنے ممالک واپس روانہ ہو جائیں گے ۔ دنیا کو اس وقت جن گمبھیر مسائل نے اپنے شکنجے میں جکڑ رکھا ہے اس میں سب سے بڑا مسئلہ طاقتور کا کمزور کے خلاف طاقت کے استعمال کا ہے جس نے دہشت گردی اور انتہا پسندی جیسے مسائل کو اس شدت سے جنم دیا ہے کہ ساری دنیا بالکل غیر محفوظ ہو کے رہ گئی ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئےے کہ ایک ایسا موقع جب تمام دنیا کے سربراہان مملکت ایک پلیٹ فارم پہ موجود ہیں کوئی ایسا لائحہ عمل سامنے لایا جائے کہ ساری دنیا میں جہاں جہاں کمزور ظالم کے ظلم کا شکار ہیں خاص طور پر کشمیر، شام، فلسطین، عراق اور برما (میانمار) وغیرہ میں ان کی داد رسی کے لئے کوئی پالیسی مرتب کی جائے۔ لیکن ایسا نہ ہونے کی سب سے بڑی وجہ تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ آج تک امریکہ کے تسلط سے آزاد ہو کر ایک غیر جانبدار ادارہ بن ہی نہیں سکا اور امریکہ ہی اصل میں ان تمام مسائل میں خود فساد کی جڑ ہے تو ایسی صورت میں امن کا خواب کیسے ممکن ہو سکتا ہے ۔ جس کا صدر اقوام متحدہ کے ڈائس پر کھڑے ہو کر بھی دوسرے ممالک کو آنکھیں دکھاتا اور دھمکیاں دیتا ہے۔
وزیراعظم خاقان عباسی صاحب کی حالیہ اقوام متحدہ میں کی گئی تقریر کا ملک میں کافی حلقوں کی جانب سے خیر مقدم کیا گیا اس تقریرمیں سب سے پہلے جو اہم بات کی گئی وہ یہ تھی کہ دنیا کو واضح طور پر کہا گیا کہ پاکستان اب مزید قربانی کا بکرا بننے کو تیار نہیں اور پاکستان میں دہشت گردوں کی کوئی محفوظ پناہ گاہیں نہیں ہیں۔ بھارت پاکستان میں تخریب کاری کی پشت پناہی بند کرے وغیرہ لیکن اس تقریر میں جو سب سے بڑی کمی تھی وہ شاید جوش اور اس اعتماد کی تھی جو دشمن کا ہاتھ جب شہ رگ تک پہنچ جائے تو اس کا ہوش ٹھکانے لگانے کے لئے بہت ضروری ہوتا ہے۔ عین اس وقت جب خاقان عباسی صاحب تقریر کر رہے تھے ، بھارت پاگلوں کی طرح اندھا دھند ہماری لائن آف کنٹرول پہ گولہ بارود برسا رہا تھا۔ جس میں چھے نہتے شہری بھی شہید ہوئے۔
نواز شریف صاحب نے دو برس قبل اقوام متحدہ کے اجلاس میں اپنی تقریر میں پہلی بار کشمیر کے مسئلے کی ناکامی پر اقوام متحدہ کے کردار پر سوال اٹھایا تھا اور بھارت کے ساتھ امن کے لئے 4 نکاتی فارمولا اقوام متحدہ میں پیش کر کے بال بھارت کی کورٹ میں ڈال دی تھی جس کے نکات یہ تھے۔ کنٹرول لائن پر مکمل جنگ بندی ہونی چاہیے اور اس حوالے سے جو میکانزم 2003ءمیں طے ہوا تھا اس پر عمل کیا جائے، دونوں ممالک مل کے وعدہ کریں کہ ایک دوسرے کے خلاف دھمکی اور طاقت کا استعمال نہیں کریں گے ۔ کشمیر بنیادی مسئلہ ہے حل ہونا چاہیے اور کشمیر سے فوجوں کو نکالا جائے اور سیاچن خالی کیا جائے۔ بھارت نے ان تجاویز کو کوئی اہمیت نہیں دی تھی اور یوں کمزور سفارت کاری کے باعث یہ تقریر محض لفاظی بن کر رہ گئی۔
اسی طرح اس دفعہ بھی بائیس ستمبر کو کی گئی وزیراعظم صاحب کی تقریر میں مسئلہ کشمیر کو کافی اہمیت دی گئی اور ساری دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کشمیر میں جاری جنگ در اندازی اور دہشت گردی نہیں بلکہ کشمیریوں کی حق خود ارادیت کی جدو جہد ہے۔ کشمیری بھارت سے دراصل آزادی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہوتا جو وزیراعظم صاحب کشمیریوں پہ ڈھائے جانے والے مظالم کے ساتھ ساتھ ساری دنیا کے سامنے بھارت کا اصل چہرہ بھی بے نقاب کرتے اور پاکستان کے خلاف بھارت کی سازشوں کو کھل کر دنیا کے سامنے لے کے آتے جس میں کلبھوشن یادیو سے لے کر اڑی سیکٹر تک اور بلوچستان میں بھارت کی شر انگیزیوں کی حقیقت کا پردہ چاک کیا جاتا ۔ وہ بینر اور گاڑیاں جو جنیوا میں فری بلوچستان کے اشتہارات بنی گھوم رہی تھیں ان کا بھی وزیراعظم صاحب کی تقریر میں ذکر ہوتا۔ ہماری حکومت کی کمزور خارجہ پالیسی کی وجہ سے بہت سے فورمز پہ جہاں ہم اپنے لوگوں کے لئے بہت عمدہ طریقے سے آواز اٹھا سکتے ہیں نہیں اٹھاتے خاص طور پر امن کی کوششوں کے حوالے سے ہمارے اقدامات کو کوئی پذیرائی نہیں ملتی جس سے ہمارا کیس کمزور رہا ہے۔
بھارت کی اقوام متحدہ میں تقریر میں شعلے اگلتی زبان ہر بار کوئی نہ کوئی گل ضرور کھلاتی ہے اور بھارت اپنے دفاع میں ہمیشہ کی طرح جھوٹ کا سہارا لیتے ہوئے دنیا کی آنکھو ں میں دھول جھونکنے کی کوشش کرتا ہے اور اقوام متحدہ کشمیر یوں پہ ڈ ھائے جانے والے مظالم کے ثبوت دیکھنے کے بعد بھی اگر اس کو کوئی لگام نہیں ڈالتا تو پھر ہمیشہ کی طرح یہ اجلاس بے نتیجہ اختتام پذیر ہو جائے گا۔ دوسری طرف یہ بھی اہم ہے کہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے تمام معاملات کو آگے کیسے لے کے چلتا ہے کیونکہ محض تقریروں سے تقدیروں کے فیصلے نہیں ہوا کرتے اپنا حق لینے کے لئے جدوجہد کرنی پڑتی ہے اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب آپ سفارتی محاذ میں بھی اتنی ہی کامیابی سے اپنا مقدمہ دنیا کے سامنے پیش کریں اور ان کو قائل کریں کہ سچ اور جھوٹ کیا ہے ورنہ پچھلے سال نواز شریف کی تقریر کی طرح اس سال کے نئے وزیر اعظم صاحب کی یہ تقریر بھی وقت کی غلام گردش میں تحلیل ہو کر بے اثر ہو جائے گی۔