پارٹی کا سیاسی مستقبل بچانے کیلئے انہیں اپنے سینئر ساتھیوں پر اعتماد کرنا چاہیے

میاں نوازشریف کی احتساب عدالت میں پیشی اور عدلیہ کے ساتھ محاذآرائی برقرار رکھنے کا عندیہ


سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ شریف خاندان کا ہر فرد نہ صرف اپنے خلاف عائد الزامات کا سامنا کریگا بلکہ ملک آکر ان مقدمات کا سامنا بھی کریگا۔ گزشتہ روز احتساب عدالت اسلام آباد میں پیشی کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ماضی میں بھی آمریت کے سامنے سر نہیں جھکایا‘ حالات کی سنگینی کا سامنا پہلے بھی کیا اور اب بھی کررہے ہیں۔ انکے بقول پانامہ کیس میں نشانہ میں اور میرا خاندان ہے مگر سزا پاکستان کو دی جا رہی ہے‘ میں جھوٹ پر مبنی بے بنیاد مقدمے کا سامنا کررہا ہوں‘ اب حقیقی مقدمہ لڑنے کا تہیہ کرلیا ہے‘ مجھے یقین ہے آخری فتح عوام اور پاکستان کی ہوگی اور عوام کا عظیم فیصلہ 2018ءمیں آئیگا جو مولوی تمیزالدین سے لے کر اب تک کے تمام فیصلے بہا کر لے جائیگا‘ میں جانتا ہوں کہ مجھے کیوں سزا دی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانامہ کیس کا فیصلہ آتے ہی وہ عہدے سے سبکدوش ہوگئے لیکن اس فیصلے کو جب آئینی اور قانونی ماہرین نے نہیں مانا تو میں اسے کیسے تسلیم کرلوں۔ انہوں نے کہا ”خدارا اہلیت اور نااہلی کا فیصلہ 20 کروڑ عوام کو کرنے دیں‘ منتخب قیادت کو نشانہ بنانے سے ملک دولخت ہوا‘ ڈر ہے پھر کوئی سانحہ نہ ہو جائے۔“ انہوں نے کہا کہ وہ اور انکے بچے جے آئی ٹی کے ان ”ہیروں“ کے سامنے پیش ہوتے رہے جن میں سے بعض کے اپنے خلاف انکوائریاں چل رہی تھیں۔ اگر فیصلوں کی ساکھ نہ رہے تو پھر عدالتوں کی ساکھ بھی نہیں رہتی۔ ہماری تاریخ ایسے فیصلوں سے بھری پڑی ہے جنہیں دیکھ کر ندامت ہوتی ہے۔
انکے بقول آمرانہ دور میں تو انہیں اپیل کا حق تھا مگر آج انہیں اپیل کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ جس عدالت نے فیصلہ دیا اسی نے جے آئی ٹی بنائی‘ اسی نے نیب کو حکم دیا اور اسی عدالت نے نیب کا کنٹرول بھی سنبھال لیا۔ اب اگر ضرورت پڑی تو یہی عدالت میری آخری اپیل بھی سنے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے فیصلوں کیخلاف اپیل ہو یا نہ ہو مگر اس کیخلاف پہلا فیصلہ جی ٹی روڈ کے راستے عوام نے سنایا‘ اسکے بعد فیصلہ این اے 120 نے سنایا اور یہ فیصلے مسلسل آتے رہیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر آئین پاکستان عوام کو حکمرانی کا حق دیتا ہے تو اسے تسلیم کرلینا چاہیے‘ میں بہرصورت عوام کے ساتھ کھڑا رہوں گا‘ انصاف کو انتقام بنانے سے سزا عدالتی عمل کو ملتی ہے۔
میاں نوازشریف کا ملک کا ملک واپس آکر احتساب عدالت میں پیش ہونا‘ اپنے کیس کے دفاع کا اعلان کرنا اور نیب کے ریفرنسوں میں ملوث اپنے خاندان کے دیگر ارکان کے بھی ملک واپس آکر اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کرنے کا عندیہ دینا بلاشبہ خوش آئند اور انکی طرف سے آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری تسلیم کرنے کا پیغام ہے۔ گزشتہ روز شریف فیملی کے رکن اور وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار پر احتساب عدالت کی جانب سے فردجرم بھی عائد کردی گئی ہے جبکہ اسحاق ڈار نے عدالت کے روبرو صحتِ جرم سے انکار کیا ہے۔ انہیں اور میاں نوازشریف سمیت شریف فیملی کے دوسرے متعلقہ ارکان کو ان ریفرنسوں میں اپنے دفاع کا مکمل حق حاصل ہے جو عدالتی کارروائی میں شریک ہو کر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے تاہم میاں نوازشریف نے اپنی گزشتہ روز کی پریس کانفرنس میں جو لب و لہجہ اختیار کیا اور شریف فیملی کیخلاف مقدمات کے حوالے سے براہ راست عدلیہ پر انتقامی کارروائی کا الزام عائد کیا اور پھر عوام کے فیصلوں کو عدالتی فیصلوں کی نفی قرار دیا‘ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کا میرٹ پر دفاع کرنے کی بجائے پہلے ہی کی طرح اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ اور محاذآرائی کی پالیسی پر ہی گامزن ہیں۔ وہ اس امر پر شاکی ہیں کہ انہیں اپیل کا موقع بھی نہیں دیا گیا جبکہ ان کیخلاف فیصلہ صادر کرنیوالی عدالت نے نیب کی نگرانی بھی سنبھال لی ہے۔ اس طرح وہ احتساب عدالت کے فیصلہ سے پہلے ہی اسے متنازعہ قرار دلانے کی حکمت عملی طے کئے بیٹھے نظر آتے ہیں۔ عدلیہ کے بارے میں انکے گزشتہ روز کے ریمارکس سے بھی یہی اندازہ ہو رہا ہے کہ وہ انصاف کے اس ادارے کی آئینی ذمہ داریوں کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں جبکہ وہ عدالت میں پیش ہو رہے ہیں اور اپنے خاندان کے دوسرے متعلقہ ارکان کے بھی عدالت میں پیش ہونے کا عندیہ دے رہے ہیں۔ اس سے انکی سوچ اور حکمت عملی میں واضح تضاد نظر آتا ہے جس کا بہرصورت انہیں ہی نقصان اٹھانا پڑیگا۔
مسلم لیگ (ن) کے ذرائع سے عندیہ تو یہی مل رہا تھا کہ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار علی خاں اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف کی مشاورت اور معروضی حالات میں طے کی گئی حکمت عملی کے تحت میاں نوازشریف ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکراﺅ مول نہ لینے پر آمادہ ہو گئے ہیں اور اسی بنیاد پر ان کا ملک واپس آنا ممکن ہوا ہے۔ انکی احتساب عدالت میں پیشی سے پہلے بھی پنجاب ہاﺅس میں چودھری نثارعلی خاں کے ساتھ طویل مشاورت ہوئی اور وہ میاں نوازشریف کی پریس کانفرنس کے دوران انکے ہمراہ بھی رہے تاہم انہوں نے پریس کانفرنس میں جس انداز میں عدلیہ پر ملبہ ڈالا اور سقوط ڈھاکہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ منتخب قیادت کو نشانہ بنانے سے کہیں پھر کوئی سانحہ نہ ہو جائے۔ اس سے تو یہی نتیجہ اخذ ہوتاہے کہ میاں نوازشریف محاذآرائی کی سیاست پر ڈٹے رہنا چاہتے ہیں اور عدلیہ کے فیصلوں پر عوام کے ممکنہ فیصلوں کو ترجیح دے رہے ہیں جبکہ عوام انتخابی عمل کے ذریعہ ہی کسی کو مسترد کر سکتے ہیں یا حکمرانی کا مینڈیٹ دے سکتے ہیں۔ اگر میاں نوازشریف کی اختیار کی گئی محاذآرائی کی سیاست میں خدانخواستہ پورے سسٹم کو گزند پہنچنے کی نوبت آگئی تو پھر عوام انکے حق میں فیصلہ کہاں صادر کرینگے۔ عوام کا فیصلہ لینے کیلئے تو بہرصورت رواداری کا ایسا ماحول پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ مقررہ آئینی میعاد میں آزادانہ منصفانہ اور شفاف انتخابات کے مراحل طے ہو جائیں جس کیلئے بنیادی طور پر میاں نوازشریف نے کردار ادا کرنا ہے کیونکہ انکے وزارت عظمیٰ سے الگ ہونے کے باوجود حکومت انہی کی پارٹی کی ہے۔ اگر وہ اپنی پارٹی کی حکومت کے دوران بھی اپوزیشن لیڈر والا کردار سنبھالیں گے تو اس سے حکمران مسلم لیگ (ن) کی گورننس کو ہی نقصان پہنچے گا جس کا جواز بنا کر ماورائے آئین اقدامات کی سوچ کے حامل عناصر کو جمہوریت کی بساط الٹانے سے متعلق اپنے مقاصد کی تکمیل کا موقع مل سکتا ہے۔
اس صورتحال میں بہترین حکمت عملی تو یہی ہے جس کا میاں شہبازشریف اور چودھری نثارعلی خاں نے میاں نوازشریف کو مشورہ بھی دیا ہے کہ اپنی پارٹی کی حکومت کے ہاتھ مضبوط کئے جائیں اور اسکے ذریعے توانائی کے بحران کے خاتمہ سمیت تمام فلاحی ترقیاتی منصوبے پایہ¿ تکمیل کو پہنچائے جائیں تاکہ انکی بنیاد پر آئندہ انتخابات میں عوام کی ہمدردیاں حاصل ہو سکیں۔ اگر میاں نوازشریف اسکے برعکس اپنی مزاحمت اور محاذآرائی والی پالیسی ہی برقرار رکھتے ہیں تو پھر سسٹم کیخلاف کسی سازشی منصوبے کا بروئے کار لایا جانا بعیدازقیاس نہیں۔ اس طرح میاں نوازشریف کا اپنی پارٹی کی حکومت سے ہاتھ دھو بیٹھنے کا بھی امکان ہے اور سسٹم کو نقصان پہنچنے کا احتمال بھی موجود ہے۔ اگر وہ ریاستی اداروں کے ساتھ محاذآرائی کی پالیسی میں اپنے پاﺅں پر خود ہی کلہاڑی مارنے کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں تو اس کا نقصان انکی ذات اور انکی پارٹی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اس سے ملک کا استحکام بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ اس تناظر میں انہیں ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے اور اپنی پارٹی کے سینئر ساتھیوں کی جانب سے دیئے گئے مشوروں کی روشنی میں اپنی مستقبل کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے۔ اسکے برعکس انہوں نے مقررہ میعاد کے اندر اپنی پارٹی کے صدر کا انتخاب نہ کراکے الیکشن کمیشن کے ساتھ بھی محاذآرائی کا عندیہ دیا ہے جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے مقررہ مدت میں پارٹی صدر کا انتخاب نہ کرانے پر مسلم لیگ (ن) کے سیکرٹری جنرل کو نوٹس جاری کردیا گیا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی باور کرادیا گیا ہے کہ مسلم لیگ (ن) ضابطے کی اس خلاف ورزی کے باعث 2018ءکے انتخابات یا کسی بھی ضمنی انتخاب کیلئے اپنا انتخابی نشان حاصل کرنے کی اہل نہیں رہی۔ اگر محاذآرائی کی سیاست کے نتیجہ میں آئندہ انتخابات کیلئے مسلم لیگ (ن) کے پاس کوئی انتخابی نشان ہی نہ رہا تو وہ کس منشور کے تحت انتخابی میدان میں اترے گی۔
یہ سارے وہ معاملات ہیں جو مسلم لیگ (ن) کی قیادت سے خود کو انتخابی عمل میں اتارنے کا اہل بنانے کے متقاضی ہیں۔ اگر عوام کی عدالت سے ہی فیصلہ لینا ہے تو پھر اس فیصلے کی نوبت تو آنے دی جائے۔ اسکے برعکس اگر میاں نوازشریف کی محاذآرائی کی سیاست سے عوام کا فیصلہ صادر ہونے کی نوبت بھی نہ آئی اور قانون کی عدالتوں سے بھی انکی محاذآرائی کی پالیسی کے باعث دادرسی نہ ہو پائی تو انکے پاس اپنا اور اپنی پارٹی کا سیاسی مستقبل بچانے کا اور کون سا راستہ باقی بچے گا۔ وہ اپنی اہلیہ کی دوبارہ علالت کی خبر ملنے پر لندن واپس جانے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں جبکہ مستقبل قریب میں انکے خاندان کے دوسرے ارکان کے ملک واپس آنے کا بھی کوئی امکان نظر نہیں آتا اس لئے انہیں تو اپنی عدم موجودگی میں اپنی پارٹی کا سیاسی مستقبل بچانے کیلئے دوراندیشی سے کام لینا چاہیے اور پارٹی کی قیادت کیلئے میاں شہبازشریف اور دوسرے سینئر ساتھیوں پر بھروسہ کرنا چاہیے جو انکی عدم موجودگی اور نااہلیت برقرار رہنے کی صورت میں پارٹی کا انتظام بہتر طور پر سنبھال سکتے ہیں۔ اگر وہ ”دمادم مست قلندر“ کا تہیہ کئے بیٹھے ہیں تو پھر عوام کے فیصلے کے آگے بند باندھنے کا وہ خود ہی اہتمام کر رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن