مہنگائی کی لہر ایک دم کہیں سے اچانک نہیں پھوٹ پڑتی۔اس کے اسباب قطرہ قطرہ جمع ہورہے ہوتے ہیں۔ بالآخر ملکی معیشت والا تالاب اسے سنبھال نہیںپاتا۔ زندگی کے ہر شعبے میں اپنی بساط سے زائد جمع ہوئے مواد کو پھیلادیتا ہے اور عوام بلبلا اُٹھتے ہیں۔
سیاسی حقائق کا مگر ظلم یہ بھی ہے کہ مہنگائی کی لہر ناقابلِ برداشت ہونا شروع ہوجائے تو ہم ایسے ملکوں میں ہی نہیں امریکہ اور برطانیہ جیسی مستند ومنظم جمہوری ریاستوں میں بھی حکمران جماعت ہی کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔
عمران خان کو وزیر اعظم منتخب ہوئے صرف دو ماہ ہوئے ہیں۔ اس حکومت نے اپنی دانست میں ابھی تک صرف بجلی اور گیس کی قیمتوں کو "Rationalize"کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری معیشت کے بے شمار دیگر شعبوں میں ہاتھ بھی نہیں ڈالا گیا۔بطور صحافی میرے رابطے میں آنے والے تقریباََ سب افراد مگر حکومت کو کوسنا شروع ہوگئے ہیں۔
ان میں سے کم از کم 50فی صد افراد نے بہت چاﺅ سے 2018ہی نہیں 2013کے انتخابات میں بھی تحریک انصاف کے امیدواروں کو ووٹ دیا تھا۔ کسی جماعت کے ایسے حامیوں کا اپنی پسند کے لوگوں کا حکومت میں آنے کے چند روز ہی بعد ایسا غصہ میں نے شاذ ہی دیکھا ہے۔ بسا اوقات ان کے غصے کو منطقی بنیادوں پر ٹھنڈا کرتے ہوئے خود کو اکثر حکومتوں کے روایتی ترجمانوں کی طرح گفتگو کرتے ہوئے محسوس کیا اور اس امر کے بارے میں اکثر بہت حیرانی اور کبھی کبھار تھوڑی پشیمانی ہوئی۔
عمران حکومت کے بارے میں غیر معمولی عجلت میں ابھری مایوسی کے اسباب لیکن تحریک انصا ف نے ازخود کئی برسوں سے دہرائے اپنے بیانیے کے ذریعے فراہم کئے ہیں۔اس کا دعوی رہا کہ پاکستان ذخائر سے مالا مال ہے۔ اس کے موسم حسین۔جغرافیہ شاندار اور لوگ ایمان دار اور محنتی ہیں۔ایسے ملک کو کاروبارِ گلشن چلانے کے لئے غیر ملکی قرضوں کی قطعاََ ضرورت نہیں تھی۔ بدقسمتی مگر یہ ہوئی کہ ”گزشتہ 30برسوں سے “ یہ ملک ”باریاں لینے والے“ نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کے قبضے میں چلا گیا۔ ان سیاست دانوں نے عوام کی خدمت کرنے اور ان کی زندگی بہتر بنانے کے بجائے اپنی ذات اور خاندان کے لئے غیر ملکی بینکوں میں قومی خزانے سے لوٹا پیسہ جمع کرنا شروع کردیا۔ غیر ممالک میں نااہل اور بدعنوان سیاست دانوں کی ”حرام طریقوں سے کمائی“رقم کو 200ارب ڈالر کے قریب بتایا گیا۔ عمران خان نے امید دلائی کہ وہ اقتدار سنبھالتے ہی اس خطیر رقم کو قومی خزانے میں واپس لانے کا عمل بہت تیزی سے شرع کردیں گے۔ اس رقم سے غیر ملکی قرض یکمشت ادا کرنے کے بعد باقی بچی رقوم سے تعلیم اور صحت کے اعلیٰ معیار کو عام آدمی تک پہنچایا جائے گا۔ ہر گھر کی ضرورت کے لئے بجلی اور گیس نہ صرف مہیاہوگی بلکہ ان کے نرخ حیران کن حد تک کم بھی ہوجائیں گے۔
تحریک انصاف کا 2011سے مسلسل دہرایا بیانیہ منطقی اور عملی حوالوں سے بے بنیاد مگر Populistبیانیہ تھا۔ دنیا بھر میں ویسے بھی کئی برسوں سے Populismکی لہر پھیلی ہوئی ہے۔ اس کی بنیاد پر ہوئی سیاست میں پیچیدہ سوالات کے سادہ ترین جواب گھڑے جاتے ہیں۔ وہ جواب سو طرح کی مشکلات میں گھری خلقِ خدا کو پسند آتے ہیں۔ برطانیہ جیسے ٹھنڈے مزاج ملک میں یورپین یونین وہاں کی تمام مشکلات کا سبب بناکر دکھائی گئی۔ Brexitہوگیا۔ریفرنڈم کے ذریعے یورپی یونین سے الگ ہونے کا فیصلہ کرنے کے بعد مگر برطانیہ کو سمجھ نہیں آرہی کہ اپنی جامد ہوئی معیشت میں رونق لگانے کے لئے کونسے نسخے استعمال کرے۔
Brexitکے بعد ڈونلڈٹرمپ نے بھی امریکہ میں غیر ملکی تارکینِ وطن اور خاص کر مسلمانوں کو اپنے ملک پر آئی ا داسی کا اصل ذمہ دار ٹھہرایا۔ انہیں دیس نکالا دینے کے نعرے کی بنیاد پر اقتدار میں آیا۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد مگر وہ ڈھنگ کی کوئی ایک پالیسی بھی متعارف نہیں کراپایا ہے۔ اس کی خوش نصیبی ہے کہ اوبامہ کے 8سالوں کے دوران امریکی معیشت کو تباہ ہونے سے بچانے کے لئے جو فیصلے لئے گئے تھے ان کے اثرات اب نظر آنا شروع ہوئے ہیں۔ ٹرمپ کے ساتھ مہنگائی کی لہر نہیں آئی ہے۔نئے روزگار بھی پیدا ہوئے ہیں۔ روزمرہّ معیشت سے قدرے مطمئن ہوئے امریکی ٹرمپ کی مضحکہ خیز حرکتوں سے لطف اندوز ہورہے ہیں۔
عمران خان صاحب کو لیکن معاشی جمود ورثے میں ملا ہے۔ اس جمود کو کئی حوالوں سے انہوں نے اپنے دھرنے کے ذریعے 2014سے اس ملک پرمسلط کرنا شروع کردیا تھا۔ 2016کے آغاز میں پانامہ ہوگیا۔ اس کے بعد نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی اپنے عہدے اور حکومتیں بچانے کی فکر میں مبتلا رہے۔
پالیسی سازی کے اعتبار سے محض ”ڈنگ ٹپاتے“ رہے ۔ ان کی بے بسی نے دریں ریاست کے کئی ستونوں کو ان معاملات پر مکمل کنٹرول کا موقعہ بھی فراہم کردیا جو عموماََ سیاسی قیادت اور ا داروں کے لئے مختص تصور کئے جاتے ہیں۔
عمران حکومت کو فیصلہ سازی کے لئے جو Spaceملی ہے وہ بہت محدود ہے۔ نظر بظاہر وہ اس میں اضافے کی خواہش بھی نہیں رکھتی۔ جو Spaceمیسر ہے اس میں رہتے ہوئے معاشی میدان میں جلو دکھانا مگر ممکن ہی نہیں۔ عوام کو لہذا سابق حکمرانوں کی ”پرتعیش زندگی“کے بارے میں بنائے افسانوں سے بہلایا جارہا ہے۔
عمران حکومت یہ بنیادی حقیقت سمجھ نہیں پارہی کہ اس کے حکومت میں آنے کے بعد مجھ جیسے تنخواہ دار صارف یا محدود آمدنی والے شخص کا بجلی اور گیس کا ماہانہ بل ضرورت سے زیادہ بڑھاہوا محسوس ہوگا تو ذمہ دار اس کا ماضی کے نااہل اور بدعنوان حکمرانوں کو نہیں ٹھہرایا جائے گا۔ مہنگائی کی لہر ہمیشہ حکومتِ وقت کے متھے لگاکرتی ہے اور اس ضمن میں ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔
اس حکومت کی معاشی پالیسیوں کے بارے میں بظاہر بہت ہی پڑھے لکھے اور خوش گفتار وزیر خزانہ ہر حوالے سے کنفیوز نظر آرہے ہیں۔ ان کی جانب سے لئے فیصلے Clarityاور ثبات کا گماں فراہم نہیں کرتے۔
مثال کے طورپر آج کے دور میں کسی بھی ترقی پذیر ملک کے لئے جو 50کی دہائی سے ورلڈ بینک سے قرضوں کا عادی ہونا شروع ہوگیا تھا یہ ممکن ہی نہیں کہ اپنے خالی ہوتے زرمبادلہ کے ذخائر میں استحکام لانے کے لئے IMFسے رجوع نہ کرے۔ اسد عمر اس ادارے کا دروازہ کھٹکھٹانے کو آمادہ نظر نہیں آتے مگر بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضاضے جیسے اقدامات کی بدولت واضح طورپر یہ عندیہ دے رہے ہیں کہ بالآخر IMFسے رجوع کرنا ہوگا۔ IMFسے Bail out Packageمانگا جائے تو وہ عموماََ ہم جیسے ملکوں کی معیشت کو ”درست“ کرنے کے لئے جو نسخے تجویز کرتے ہیں ان کا استعمال شروع کردیا گیا ہے۔ مقصد اس کا لوگوں کو یہ تاثر دینا ہے کہ عمران حکومت نے IMFکی "Dictation"پر بجلی یا گیس کی قیمت نہیں بڑھائی ہے۔
سابقہ حکومت کے مفتاح اسماعیل نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے نام پر Non Filersکے لئے زمینوں کی خریدوفروخت اور کاروں سے متعلق دھندا چلانا تقریباََ ناممکن بنادیا تھا۔ اس فیصلے کی وجہ سے یہ دونوں شعبے ٹھپ ہوئے نظر آنا شروع ہوگئے۔ اپنا منی بجٹ پیش کرتے ہوئے اسد عمر نے غیر ملکی پاکستانیوں کی مذکورہ شعبوں سے جڑی دلچسپی کا عذر پیش کرتے ہوئے اس فیصلے کو واپس لینے کا اعلان کیا۔ اس فیصلے کو لیکن اب وہ واپس لینے پر آمادہ نظر آرہے ہیں۔ پراپرٹی اور کاروں کا دھندا کرنے والے سینکڑوں لوگ یہ طے ہی نہیں کرپارہے کہ بالآخر ان کے شعبوں کے بارے میں کیا حکم آئے گا۔ اپنے دفاتر اور شورومز میں ہاتھ پہ ہاتھ دھرے اس حکومت کو کوستے پائے جارہے ہیں۔
بہتر یہی ہوگا کہ تماشوں سے خلقِ خدا کا دل بہلانے کے بجائے عمران حکومت اپنے ابتدائی ایام میں ملکی معیشت کے لئے ضروری تصور کئے سخت فیصلوں کا کھلے دل کے ساتھ اعلان کرے اور ان پر ثابت قدم رہنے کا عہد بھی ۔معیشت کے بارے میں بنیادی فیصلوں کے بارے میں پیدا ہوا ابہام بالآخر بدگمانیوں کو ایک خوفناک لاوے کی صورت پھوڑدیتا ہے۔
٭٭٭٭٭