نفاذِ اُردو کیلئے جنرل ضیاء الحق کے اقدامات

بلاشبہ بانی پاکستان قائد اعظمؒ نے قیام پاکستان سے قبل ہی پاکستان کی قومیزبان کو ایک بار نہیں کئی بار ’’اُردو‘‘ قرار دے دیا تھا اور پھر 1973ء کے آئین میں بھی واضح درج ہے کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہے اور پندرہ سال تک یعنی 1988ء تک اسے پورے ملک میں نافذ کر دیا جائے گا مگر بدقسمتی سے مقررہ دی گئی مدت سے بھی کئی پندرہ سال زیادہ گزر چکے ہیں لیکن نہ ہی اعلیٰ عدلیہ نے اس سنگین آئینی خلاف ورزی کا نوٹس لیا اور نہ ہی حکمرانوں نے اس طرف توجہ دی۔ صرف جنرل ضیاء الحق کا دور ایک استثنائی مثال ہے کہ ’’جمہوری‘‘ حکمرانوں کے مقابلے میں اس ’’آمر‘‘ نے نہ صرف قومی زبان کی اہمیت و افادیت کا کھل کر اعتراف کیا بلکہ اسے بہ حیثیت ذریعہ تعلیم اور بطوردفتری زبان نافذ کرنے کی ضرورت کو بھی محسوس کیا اور ہر دو کے نفاذ کے لئے عملی اقدامات بھی کئے۔ سابقہ حکومتوں نے اُردو کی ترقی کے لئے چند ادارے ضرور قائم کئے لیکن کوئی ایسا ادارہ قائم نہ کیا جسے اُردو کی ترقی سے بڑھ کر اُردو کے نفاذ یا اس کی ترویج کا کام سپرد ہوا ہو۔ جیسا ضیا ء الحق نے اپنے دور حکومت کے دوسرے ہی سال ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ قائم کر کے ملک کی تاریخ میں نہایت منفرد اور قابل قدر کام کیا جسے پچھلی ’’جمہوری‘‘ حکومت نے ختم ہی کر دیا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری! اسے ختم کر کے اُردو کے ایک عام اور بے اثر سے ادبی ادارے کی حیثیت دے کر ’’ادارہ فروغ قومی زبان، کا نام دیا ہے اور جیسے اس طرح کے متعدد ادارے ہونے کے باوجود اس کی کوئی ضرورت باقی رہ گئی تھی۔ ’’مقتدرہ قومی زبان‘‘ کا خاتمہ دراصل اس سابقہ ’جمہوری‘ حکومت کا کھلا اعلان تھا کہ اس ملک میں قومی زبان کے نفاذ کی کوئی ضرورت نہیں۔ ظاہر ہے یہی فیصلہ اسی سیاسی جماعت کی حکومت کا تھا جس نے ماضی میں سندھ میں قومی زبان کے نفاذ کو سرکاری سطح پر سارے صوبوں سے ہٹ کر ایک دعوت مقابلہ دیا یا چیلنج کیا تھا اور بلوچستان صوبہ سرحد اور پنجاب کی طرح جنہوں نے کھلے دل سے اُردو کو سرکاری زبان کا درجہ دے دیا تھا، سندھ میں سرکاری زبان بننے نہ دیا۔ ضیاء الحق نے مقتدرہ قومی زبان کو فروری 1981ء میں یہ ہدایت دی تھی کہ وہ ایسی سفارشات مرتب کرے کہ مرحلہ وار قومی زبان سرکاری و دفتری معاملات میں رائج ہو سکے۔ چنانچہ مقتدرہ نے ہنگامی بنیادوں پر فوراً ہی ایسی سفارشات مرتب کر کے پیش کردیں کہ تین سال کی مدت میں اُردو بتدریج ہر سطح پر رائج ہو جاتی۔ ان سفارشات کو کابینہ ڈویژن کے اجلاس منعقدہ 31 اکتوبر 1981ء کو تمام صوبائی حکومتوں، ڈویژنوں اور وزارتوں کے نمائندوں نے اصولاً منظور بھی کر لیا اور یہ توقع پیدا ہو گئی کہ ان سفارشات کو اسی سال کابینہ کے سامنے پیش کر کے منظور کرا لیا جائے گا ا ور یوں قومی زبان ان سفارشات کے مطابق نافذ کر دی جائے گی لیکن وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کہ نوکر شاہی نے یہ سفارشات دو سال تک کابینہ کے ایجنڈے ہی میں شامل نہ ہونے دیں۔ بصورت مجبوری و اصرار بالآخر یہ ایک ا یسے عاجلانہ اجلاس میں پیش کی گئیں جب صدر مملکت (جنرل ضیاء الحق) بیرون ملک روانہ ہونے والے تھے ان کے پاس وقت کم تھا کہ ان سفارشات پر مئوثر انداز سے فیصلے کر سکتے، چنانچہ صرف چند شقوں پر گفتگو ہو سکی تھی کہ اجلاس ختم ہو گیا۔ اس کے بعد یہ سفارشات کبھی کابینہ میں پیش نہ کی گئیں بلکہ یہ بھی سننے میں آیا کہ کسی ضرورت کے تحت جب ان سفارشات کو ایک بار تلاش کیا گیا تو متعلقہ دفتر میں دستیاب بھی نہ ہوئیں اور مقتدرہ کے دفتر سے منگوائی گئیں۔ یہ بات مسلمہ و عیاں رہی کہ ضیاء الحق حقیقی معنوں میں قومی زبان کے نفاذ کے لئے انتہائی مخلص اور سنجیدہ تھے، بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ا یک ’’آمر‘‘ نے ملک میں قومی زبان کو نافذ کرنے کے لئے جتنی مخلصانہ کوششیں کیں ان سے قبل اور بعد میں کسی حکمران نے ایسا سوچا بھی نہیں، عمل کیا کرتے۔ مقتدرہ قومی زبان کے قیام ہی پر انہوںنے اکتفا نہ کی تھی بلکہ اس کو زیادہ سے زیادہ فعال و خودمختار بنانے کے لئے اس کی تشکیل و کارکردگی کے اعتبار سے اسے کسی وزارت کے ماتحت نہیں بلکہ صدر مملکت کے ماتحت رکھا تھا تاکہ وہ دفتری گورکھ دھندوں اور نوکر شاہی کے اثر سے بے نیاز ہو کر سہولت اور سرعت کے ساتھ اپنی سفارشات کو صدر مملکت سے منظور کروا کے نفاذ کے قابل بنا دے۔ ضیاء الحق کو قومی تقاضوں کے تحت قومی زبان کے نفاذ سے اس حد تک دلچسپی تھی کہ مقتدرہ کی سفارشات کے ترتیب پانے کے عرصے ہی میں انہوںنے اپنے ماتحت اداروں کو ہدایت کر دی تھی کہ وہ اپنے معاملات زیادہ سے زیادہ قومی زبان میں انجام دیں اور خود بھی اُردو کو استعمال کرنے کا عملی مظاہرہ کر کے اپنے افسران کے اس احساس کمتری کے لئے ایک مثال قائم کی کہ وہ انگریزی زبان پر انحصار چھوڑ دیں۔ انہوں نے صرف قومی اورملکی سطح پر نہیں بلکہ اقوام متحدہ، چین اور کیوبا وغیرہ میں اُردو زبان میں تقریریں کر کے اپنی قومی زبان کو صرف قومی نہیں بین الاقوامی حیثیت بھی دے دی۔ مقتدرہ نے بھی اس عرصے میں اس کے اولین صدر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی ا ور معتمد میجر آفتاب حسن کے اخلاص اور سنجیدگی کے نتیجے میں صرف تین سال کی مدت میں اُردو کے نفاذ کے لئے سفارشات مرتب کرنے کے ساتھ ساتھ اُردو کو دفتری زبان بنانے کے لئے تمام ضروری مواد، فرہنگیں، اصطلاحات اور لغات یکجا اور فراہم کرنے کی کامیاب کوشش کر لی اور اُردو کا ٹائپ رائٹر بھی بنا لیا جو اتنی تعداد میں بن گیا کہ کارخانے میں رکھنے کے لئے جگہ نہ رہی۔
ضیاء الحق کے بعد کسی حکمران نے اس جانب نہ کوئی توجہ دی اورنہ کسی میں ایسا جذبہ و شعور ہی کبھی دیکھنے میں آیا کہ وہ ملک میں قومی زبان کے نفاذ کے لئے کبھی سوچتے بھی ہوں۔ سنجیدہ ا ور فعال ہوتا تو دور کی بات ہے انہیں تو قومی تقاضوں، قومی ضرورتوں اور ملک کی ترقی و خوش حالی سے صرف زبانی حد تک دلچسپی نظر آتی ہے۔ قومی زبان کا نفاذ سابقہ حکمرانوں کی کبھی ترجیح نہیں رہی۔ اب ہمیں موجودہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے پوری اُمید ہے کہ وہ دیگر مسائل کے علاوہ قومی زبان کے نفاذ کی طرف بھی پوری توجہ مبذول کریں گے۔ یہ قائد اعظم کا حکم بھی ہے اور آئینی تقاضا بھی۔

ای پیپر دی نیشن