وزیراعظم خان اورحکومتی فیصلوں میں ’’یوٹرن‘‘ کی …

Sep 28, 2018

وزیراعظم عمران خان کو اپنے فیصلوں کیلئے محمود غزنوی کی مثال کو سامنے رکھنا ہوگا کیونکہ ماضی کے حکمرانوں کے کرتوتوں کو سمجھنے کیلئے عوام کو وقت درکار ہوتا ہے کیونکہ بہت سارے لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو حکمرانوں کی چوری چکاری کو مردانگی تصور کر رہے ہوتے ہیں۔ محمود غزنوی کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ اس نے ایک صاف ستھرے میدان میں ایک چھوٹی پہاڑی کے برابر پتھر نصب کروا دیا۔ اس میدان سے لوگ گھوڑوں پر گزرا کرتے تھے۔ لوگوں نے محمود غزنوی سے شکایت کی کہ گھوڑے بھی بدک جاتے ہیں اور لوگوں کو چلنے میں بھی مشکلات پیش آتی ہیں۔ محمود غزنوی نے شکایات سنیں اور خاموشی اختیار کئے رکھی۔ کچھ وقت گزر گیا تو ایک دن محمود غزنوی نے اس پتھر کے حوالے سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ اب گھوڑے بھی راستہ بدل کر چلتے ہیں اور لوگوں کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ کہاں سے گزر کر میدان کو پار کرنا ہے۔ یعنی بادشاہ جب فیصلہ کر لیتا ہے تو اسے تبدیل نہیں کرتا ۔ قائداعظم کا بھی یہی اصول تھا۔ یعنی سوچ سمجھ کر فیصلہ کر لینا اور پھر حالات کو اس فیصلے کے سانچے میں ہموار کر لینا دانش مندی ہے ورنہ عوام جو بہت سارے حقائق کو ان کی اصل شکل میں نہیںجان رہی ہوتی وہ پریشر پیدا کرتی ہے مگر بعض معاملات میں یہ عارضی ہوتا ہے وزیراعظم عمران خان کو اپنے فیصلوں پر قائم رہنے کیلئے امیر تیمور کی ’’تزک تیموری‘‘ کا مطالعہ بھی کرنا ہوگا یہ چھوٹی سی کتاب ہے جس میں وہ لکھتا ہے کہ میں ہر کام مشورے سے کرتا ہوں اور اس کے مشورہ کرنے کی ٹیم میں جرنیل، علمائ، دانشور اور اس کی بیگم بھی شامل تھی کیونکہ امیر تیمور کا نظریہ تھا کہ اس کی بیوی اس کی نفسیات کو اچھی طرح سمجھتی تھی لہٰذا اس کے مطابق مشورہ دیا کرتی تھی۔ قرآن پاک کی سورۃ شوریٰ میں بھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ نماز قائم کرو ، شکر ادا کیا کرو اور اپنے فیصلوں کیلئے مشورہ کیا کرو۔ وزیراعظم عمران خان کے لئے یہ مسئلہ بھی رہے گا کہ مشورہ دینے والوںکو اپنا ذاتی تضاد نہیں ہونا چاہئے اور اس زمانے میں ایسے مخلص تلاش کرنا بھی دشوار ہے اور اگر موجود ہوں تو بہت تھوڑے سے ہونگے۔ وزیراعظم عمران خان کو بھی ’’تھکنک ٹینک ‘‘ کے ساتھ مشاورت کرکے فیصلے کرنے اور پھر ان پر قائم رہنے کی روش اختیار کرنا ہوگی۔ وزیراعظم عمران خان نے سادگی مہم اختیار کی جس کی ضرورت بھی تھی اور جو خان کا منشور ہی تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے عوام سے مختلف انداز کے پرتعیش لائف سٹائل کو بھی رد کیا اور یہ بھی اچھی بات ہے مگر ان سارے فیصلوں حکو بہتر بنانے کی ضرورت موجود ہے۔ پنجاب کا گورنر ہائوس عوام کیلئے کھولا گیاجہاں وہ خوب گند ڈال کر باہر نکل آتے ہیں یہ عوام پارکوں میں ہی تفریح کر سکتی ہے۔ پنجاب کے گورنر ہائوس سرکاری تقریبات کیلئے مہیا کیا جا سکتا ہے تاکہ سرکاری تقریبات کا ہوٹلوں کا خرچ بچایا جا سکے۔ گورنمنٹ سرکاری تقریبات کے انعقاد کیلئے بڑے بڑے ہوٹلوں میں بڑے بڑے بل ادا کرتی ہے پھر گورنر ہائوس کو تقریبات کیلئے این جی اوز کو بھی دیا جا سکتا ہے اور پھر لاہور کی بڑی تنظیموں کو بھی گورنر ہائوس کا مثبت استعمال بھی سامنے آئے اور پیسے بھی آتے رہیں۔ دوسرے شہروں سے آنیوالے سرکاری مہمان بھی بڑے بڑے ہوٹلوں میں ٹھہرتے ہیں انہی ہی سادگی کے ساتھ یہاں ٹھہرایا جا سکتا ہے۔
وزیراعظم عمران خان نے برائیوں کو اچھائی سمجھنے والی اس قوم کو بحث اور سادگی کا راستہ دکھانے کیلئے پرائم منسٹر ہائوس میں نہ رہنے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلے میں بھی انہیں چودھری محمد علی کی مثال سامنے رکھنی ہوگی۔ پاکستان کے چوتھے وزیراعظم منتخب ہو کر چودھری محمد علی پی ایم ہائوس پہنچے اور رات کو کام کر رہے تھے جب کمرے سے نکلے تو دیکھا کہ سارا ماحول بقعہ ٔ نور سا ہوا جگمگا رہا ہے۔ انہوں نے چاروں طرف چکر لگایا اور ساری بتیاں بجھانے کا حکم دیا اور کہا کہ ایک بتی میری ایک میرے پی اے کی اور ایک میرے چوکیدار کی جلتی رہا کرے۔ باقی سب بجھا دیا کریں تاکہ بچت ہو سکے۔ عمران خان کو بحیثیت وزیراعظم سادگی کا یہ انداز اختیار کرنا چاہئے مگر وزیراعظم ہائوس ہی شفٹ ہو جانا چاہئے اور دوسرا فیصلہ سادگی اور بچت کیلئے یہ کرنا چاہئے کہ محترم نوازشریف کے زمانے میں پرائم منسٹر ہائوس میں ہی سیکرٹریٹ قائم کرکے جو درجنوں ملازمین منتقل کئے گئے تھے انہیں واپس متعلقہ محکموں میں بھیج دیا جائے اور صرف ضروری اور قابل اعتماد عملہ ہی پرائم منسٹر ہائوس میں مقرر کیا جائے جبکہ دوسرے ملکوں سے آئے ہوئے مہمانوں کے لئے چائے بسکٹ کے علاوہ کم از کم سینڈوچز کا اہتمام ہونا چاہئے۔ دراصل بچت اور سادگی کا مقابلہ اتنے بڑے پیمانے پر پرتعیش لائف سٹائل سے ہے کہ وزیراعظم کو عوام کی عادات تبدیل کرنے کیلئے بہت بڑا جہاد کرنا پڑ رہا ہے اور نوازشریف کے زمانہ کی پالی ہوئی بھینسوں کو فروخت کرکے شاعری کی زبان میں استعارئے کے طور پر استعمال کیا گیا ہے مگر بھینسوں کی اس فروخت کے ’’استعارے‘‘ یا "Symbol" کے طور پر سمجھنے کا ہنر کم لوگوں کے پاس ہے ۔ معروف لیجنڈ شاعر انور مسعود نے بھینس کو استعارہ بنا کر بہت پہلے ایک نظم لکھی تھی جو کہ دنیا بھر میں مشہور ہے اس نظام کا شعر ہے: …؎
تو کی جانے پولیے مجے انار کلی دیاں شاناں
ون سونے گاہک نے ایتھے پلیوں پلی دکاناں
مگر وزیراعظم ہائوس رہنے والی خوش قیمت بھینسوں کو انار کلی کی شان دیکھنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ عمران خان یہ بھینسیں بھی کسی خیراتی ادارے کو یا یتیم خان کو دے دیں تاکہ غریب بچوں کو دودھ مل سکے۔ وزیراعظم عمران خان کو کرپشن ، اقرباء پروری اور عیش و عشرت کے سر سبز میدان میں سادگی اور بچت کا ایک چھوٹی پہاڑی کے برابرپتھر رکھنا پڑے گا اور خاموشی اختیار کرنا پڑے گی۔ عوام کو اس پتھر کی عادت ہونے میں وقت درکار ہے۔

مزیدخبریں