تحریر:۔ پیر شاہ محمد قادری
6اکتوبر بروز ہفتہ آستانہ ہاشمیہ تاجیہ قادریہ لاہور میں 93واں عرس مبارک منعقد کیا جارہا ہے، جس میں مغرب تا عشاء محفلِ نعت میں ملک کے نامور نعت خواں مدحتِ رسولؐ پیش کریں گے اور بعد نمازِعشاء محفلِ سماع ہو گی اور بعد ازاں تبرکاتِ نبویؐ کی زیارت کرائی جاے گی ۔طریقت و تصوف کی دنیا کی عالمی روحانی شخصیت حضورسیّد نا تاج الدین اولیاء ناگپوری 21جنوری 1861،میں کامٹی ناگپور شریف انڈیامیں پیدا ہوئے ، آپ کی پیدائش کے ابتدائی تمام حالات مستند کتابوں میں مذکور ہیں ، آپ حسنی ، حسینی دونوں طرف سے سیّد ہیں ۔ آپ کے والد ماجد سیّد بدالدین شاہ کی شادی حضرت سیّد میراں شاہ صاحب صوبیدار کی صاحبزادی مریم بی بی سے ہوئی تھی ، آپ کی ولادت کے پہلے ہی سال والد صاحب انتقال کر گئے، 6سال کی عمر میں آپ کو مدرسے میں داخل کرایا گیا، آپ کی ابتدائی تعلیم مولوی اکرام الحسن اور مولوی اکرام الحق سے ہوئی جو خود اپنے سلسلے کے معروف بزرگ تھے۔
دورانِ تعلیم ایک مرتبہ آپ کے مدرسے میں معروف بزرگ اور ولی کامل حضرت عبداللہ شاہ قادری نوشاہی پہنچے اور سرکار تاج الدین کو دیکھ کر فرمایا ، اس کو کیا پڑھاتے ہو ۔ یہ تو علم لدنی کا مالک ہے، پھر نو عمر تاج الدین سرکار سے کہا ، بیٹے کم کھائو، کم بولواور قرآن شریف کی تلاوت کیا کرو۔ اس کے بعد جھولی میں سے ایک چھوہارا نکال کر آدھا حصہ چبا کر سرکار کو عطا فرمایا۔اس کو کھاتے ہی آپ کی حالت بدل گئی، آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اور کئی دن تک یہی کیفیت رہی ۔ نو سال کی عمر میں آپ کی والدہ کا بھی وصال ہو گیا۔
آپپ میں زبانوں کو سیکھنے کی قدرتی صلاحیت بے پناہ تھی چند ہی سالوں میں آپ عربی، اردو، فارسی اور انگریزی زبانوں میں گفتگو فرمانے لگے آپ پر بعض اوقات جذب کی کیفیت طاری ہو جاتی اور آپ گوشہء تنہائی کر لیتے۔ اسی دوران آپ کے نانا جان کا بھی انتقال ہو گیا ۔
آپ ایک مرتبہ ریاضت کے لئے گونڈوانہ چلے گئے، یہ علاقہ جادو گروں کے لئے مشہور تھا ۔ آپ کی عبادت اور ریاضت کا یہ اثر ہوا کہ وہ علاقہ جادوگروں سے پاک ہو گیا ، لوگوں کی ایک کثیر تعداد نے آپ کے دستِ حق پر توبہ کی اور اسلام کو قبول کیا ۔آپ نے اٹھارہ برس کی عمر میں فوج میں ملازمت اختیار کی ، آپ 1881میں ناگپور کی رجمنٹ نمبر 8میںنائک مقررہوئے ، آہستہ آہستہ عشق الٰہی کا جذبہ فزوں تر ہوتا گیا ، یہاں تک کہ آپ نے عین اس وقت جبکہ آپ کی ترقی ہو رہی تھی، ملازمت ترک کر دی ۔
دنیا کا دستور ہے کہ ناقص کامل کی طرف رجوع کرتا ہے ، تاج الدین اولیا ء کی جذب و مستی نے یہ
رنگ دکھایا کہ آپ کی زبان سے جو نکلتا اللہ پاک اسے پورا کر دیتے ۔
ایک مرتبہ آپ کو جذب و مستی کی وجہ سے انتظامیہ نے پاگل سمجھ کر رپورٹ کر دی اور یوں آپ کو پاگل خانے میں داخل کرا دیا گیا، 26اگست 1892،کا واقعہ ہے یہاں بھی آپ کی جذب و مستی ریاضت جاری رہی ، لوگ حیران ہوتے تھے کہ تالے لگے ہونے کے باوجود آپ جب چاہتے باہر تشریف لے آتے، پریشان حال لوگ سرکار کی دعائوں کے لئے پاگل خانے پہنچنے لگے ، رش اتنا بڑھ گیا کہ انتظامیہ نے آپ سے ملاقات پر فیس مقرر کر دی، دو آنے سے بڑھا کر روپیہ کر نے پر بھی لوگوں کا ہجوم کم نا ہوا بلکہ آہستہ آہستہ خواص بھی آپ کے دریائے فیض کے لئے پہنچنے لگے ، ان میں انگریز افسران، مہاراجہ رگھوجی رائو بھونسلے بھی شامل تھے۔ راجہ جی سرکار سے بہت عقیدت رکھتے تھے، آج بھی سرکار کے تبرکات ، چلہ شریف ، پلنگ مبارک وہاں موجود ہیں راجہ رگھو رائودو ہزار کی ضمانت داخل کر کے آپ کو اپنے محل لے آئے۔
آپ کے کشف و کرامات کا تذکرہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے آپ کی نظر ِکیمیا اثر جس پر پڑتی اس کو پارس کر دیتی ، ہزاروں عقیدت مند محبت کرنے والے آپ تک دیوانہ وار پہنچتے تھے اور آپ کی دعائوں سے فیض یاب ہوتے تھے۔ آپ کی شہرت کا ڈنکاپورے ہندوستان میں بج رہا تھا اس سلسلے میں علامہ محمد اقبال اپنے مکتوب بنام سرکشن پرشاد 11اکتوبر 1921میں لکھتے ہیں ناگپور میں ایک بزرگ مولانا تاج الدین ہیں کیا سرکار نے کبھی ان کا نام سنا ، زیارت کی ، حکیم اجمل خان دہلوی سے ان کی بہت تعریف سنی ہے، لاہور کے ایک دوست بھی ان کی بے حد تعریف کرتے ہیں سارا دن جذب و مستی میں رہتے ہیں مگر رات دو بجے ان کے فیضان کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ (خطوط شاد و اقبال مرتب ڈاکٹر محی الدین زور)
میری والدہ ماجدہ دو برس کی عمر میں شدید بیمار ہوئیں بچنے کی امید نا رہی تو آپ کو نانا جان دعا کرانے کے لئے سرکارکے پاس ناگپور شریف لے گئے اور وہاں پر لے جا کر بجائے کچھ عرض کرنے کے سرکار تاج الدین اولیاء کے قدموں میں ڈال دیا اور آنسوئوں سے فریاد کرنے لگے ، بابا تاج الدین اولیاء نے فرمایا روتا کیوں ہے رے۔ہماری بٹیا ہے مرے گی نا ۔یہ کہہ کر آپ نے اپنی انگشتِ شہادت اماں جان کے منہ میں ڈال دی نیم بے ہوش اماں جان بڑی رغبت سے انگلی کو چوسنے لگیں ، سرکار نے ایک دم ہاتھ کھینچ لیا اور فرمایا۔نیتی سب کھائے گی کیا رے ۔اس کے بعد والدہ کو کبھی کوئی پیچیدہ بیماری نہیں ہوئی اور اماں جان کا وصال 1988میں کراچی میں ہوا ، یہ جو لوگ پوچھتے ہیں کہ ہم سرکار تاج الدین اولیاء ناگپوری کو نانا جان کیوں کہتے ہیں تو یہ سرکار کی نسبت ہے اور آپ کے یہ الفاظ کہ ہماری بٹیا ہے مرے گی نا۔۔ ہمارے لئے سرمایہ افتخار ہیں یہاں یہ بات بھی ضمناً عرض کر دوں کہ انڈین چینل سٹار پلس سے نشر ہونے والی مقبول ترین سیریل ’’ سائیں بابا‘‘ در حقیقت نانا جان تاج الدین اولیاء ناگپوری کی زندگی اور ان کی کرامات پر ہی مبنی ہے، اگر آپ اس کی پہلی تعارفی قسط دیکھیں تو اس میں رامانند ساگر کے آگے وہی کتاب رکھی ہے جو آج بھی اذکارِ تاج الدین اولیاء ناگپوری کے ٹائٹل کے ساتھ چھپتی ہے۔
نانا جان سرکار تاج الدین اولیاء ناگپوری کا فیضان ہے کہ خانقاہ ہاشمیہ تاجیہ قادریہ سے ہزاروں
بیمار ذہنی مریض آسیبی اثرات جنات کے ستائے اولاد کے ترسے اور معاشی بدحال اور بیٹیوں کے رشتوں سے پریشان لوگ فیض یاب ہو رہے ہیں ۔آپ اس دنیائے آب و گل میں محبت ، عقیدت ، نور الٰہی ، سنت رسولؐ کی ایسی شمع روشن کر گئے ہیں جو رہتی دنیا تک قائم رہے گی۔