(ڈاکٹر حافظ حقانی میاں قادری)
والدین در حقیقت انسان کے دنیا میں آنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ انسان کا وجود والدین کے مرہون منت ہوتا ہے، اسی لیے اللہ تعالٰی نے بھی کئی مقامات پر والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا اور ان کے حقوق کے ادائیگی کی تلقین کی ہے۔ نیز جہاں شرک سے اجتناب کی تعلیم دی تو وہیں ساتھ میں والدین کے ساتھ صحیح روش اپنانے کی ترغیب دی۔ والدین کے تئیں آپؐ کے فرامین بھی حسن سلوک کی تعلیم دے رہے ہیں، جس طرح والدین نے بچپن میں بچے پر رحم کیا، اس کی ضروریات کا لحاظ کیا، اس کے درد کو اپنا درد سمجھا، اس کی ضرورت کو اپنی ضرورت خیال کیا، اس کی تکلیف کے دفعیہ میں حتٰی الامکان سعی کی، اس طرح بڑھاپے میں بچوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ والدین کو نعمت سمجھیں، ان کی خدمت اپنے لئے اعزاز قرار دیں، اپنے گھر ان کا قیام اپنے لیے رحمت تصور کریں آپؐ نے اپنے اقوال وافعال سے اسی کی تعلیم دی۔
والدین کی نافرمانی کبیرہ گناہ:
آپؐ نے والدین کے ساتھ رحیمانہ معاملہ فرماتے ہوئے امت کو اس بات کی تعلیم دی کہ والدین کی اطاعت و فرماں برداری اپنے لئے لازم کرلو۔ بصورت دیگر والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہ شمار کیا، کبیرہ گناہ وہ ہے جو بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتا، ایک موقع پر آپؐ نے صاحبہ کرامؓ سے استفسار کرتے ہوئے فرمایا: کیا میں تم کو کبائر میں سے بڑے کبیرہ گناہ کی خبردوں، صحابہؓ نے عرض کیا، کیوں نہیں، یارسول اللہؐ ضرور ضرور خبر دیں۔ آپؐ نے فرمایا: کبیرہ گناہ شرک اور والدین کی نافرمانی ہے۔’’(بخاری: ۷۵۶۶)۔ آپؐ کی رحمت کا اثر یہی ہے کہ والدین کی نافرمی کو کبیرہ شمار کیا یعنی کسی مسلمان سے کبیرہ گناہ کی توقع نہیں ہو سکتی، اس لیے کوئی بھی مسلمان کبیرہ کے تصور سے والدین کی نافرمانی سے دور رہے گا۔ ایک موقع پر آپؐ نے پانچوں نمازوں کی ادائیگی کے اہتمام کرنے والے اور کبائر سے بچنے والے کو جنت کی بشارت دی اور کبائر سے والدین کی نافرمانی شمار کی۔ جن چیزں کی وجہ سے جنت کا استحقاق ہوتا ہے انہیںمیں سے ایک والدین کی نافرمانی سے احتراز بھی ہے۔ ایک موقع پر آپؐ نے والدین کی اطاعت و فرمانبرداری کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے فرمایا: روز محشر اللہ تعالٰی تین آدمیوں پر نظرالتفات نہ فرمائیں گے، انہیں میں سے ایک والدین کی نافرمانی بھی ہے، نیز فرمایا:
تین لوگ جنت میں داخل نہ ہوں گے، انہیں میں ایک والدین کا نافرمان بھی ہے، (الترغیب والترھیب: ۴۷۷۳)
اس حدیث میں آپ نے جہان نافرمان اولاد کو روز محشر رحمت الہیہ سے محروم قرار دیا، وہیں نافرمان اولاد سے جنت کا استحقاق بھی ختم کر دیا۔ والدین کی نافرمانی ہی کو کبیرہ گناہ نہ شمار کیا، بلکہ وہ اسباب جو والدین کے لیے تکلیف کا ذریعہ بن سکتے ہیں، انہیں بھی کبائر میں شمار کیا، لہذا فرمایا: کبائر میں سے یہ ہے کہ انسان اپنے والدین کو گالی دے، آپؐ سے استفسار کیا گیا: کیا آدمی اپنے والدین کو بھی گالی دے سکتا ہے؟ آپؐ نے جواب دیا: جب وہ کسی آدمی کے والد یا والدہ کوگالی دیتا ہے پھر جواب میں وہ اس کے والدہ یا والد کو گالی دیتا ہے: (الترغیب)
ماں کا مقام:
اولاد کی پیدائش کتنی پریشانیوں کتنی مشقتوں، کتنی تکالیف سے ہوتی ہے اس کا احساس والدہ سے زیادہ کسی اور کو نہیں ہوسکتا، اسی لیے آپؐ نے والدہ کا مقام والد سے زیادہ بیان کیا: چنانچہ ایک صحابیؓ آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر سوال کرنے لگے کہ میرے سب سے زیادہ احسان کے کون مستحق ہیں؟ آپؐ نے تین دفعہ ماں کا تذکرہ کیا، چوتھی دفعہ والد کا ذکر کیا، (بخاری: ۶۲۶۵‘)۔
آپؐ اکثرو بیشتر دونوں کے ساتھ حسن سلوک کا تذکرہ فرماتے کبھی ایک کی ہی تخصیص فرماتے، ایک دفعہ دیہاتی آکر آپؐ سے سوال کرنے لگے کہ کس کے ساتھ حسن سلوک کریں۔ آپؐ نے دو دفعہ والدہ کا تذکرہ کیا تیسری دفعہ والد کا ذکر فرمایا (بخاری: ۱۷۹۵)۔
ایک موقعہ پر آپؐ نے والدہ کی اہمیت بیان کی کہ : جنت کی تلاش کا آسان راستہ والدہ کی خدمت سے طے ہوتا ہے جو شخص جنت کا متلاشی ہو وہ فرائض واجبات کی ادائیگی کے ساتھ والدہ کی خدمت کو لازم پکڑے۔
ایک موقع پر آپؐ سے ایک صحابیؓ نے استفسار کیا کہ میں نے والدہ کی فلاں فلاں خدمت کی کیا، والدہ کاحق ادا ہوگیا؟
آپؐ نے جواب دیا تمہاری پیدائش کے وقت والدہ نے تکلیف سے جو آواز نکالی تھی اس کا بھی حق ادا نہ ہوا۔
باپ کا مقام:
ایک باپ جو صبح سے شام تک اولاد کی پرورش اور ان کی تربیت کے سلسلہ میں بے چین رہتا ہے وہ اس خیال میں محو رہتا ہے کہ اخراجات کی تکمیل کیسے ہو؟ اس کا مقام بیان کرتے ہوئے آپؐ نے فرمایا: باپ جنت کے دروازوں میں بیچ کا دروازہ ہے اگر تو چاہے تو اس دروازے کی حفاظت کر یا اس کو ضائع کردے: (ترمذی: ۰۰۹۱) یعنی آپؐ نے والد کا مقام و مرتبہ بیان کرتے ہوئے اولاد کے مال میں والد کا استحقاق قرار دیا۔
والدین کی خوشنودی اللہ کی خوشنودی: انسان کی پیدائش کا مقصد ہی یہ ہے کہ اللہ کو راضی کرے، اس کو حاصل کرنے کا آسان طریقہ آپؐ نے بیان فرمایا: بندے سے اللہ کا راضی ہونا بندے سے اللہ کا ناراض ہونا والدین کی رضا مندی ناراضگی کے ساتھ معلق ہے۔(الحدیث)
ایک اور حدیث میں آپؐ نے فرمایا: رب کی رضامندی والد کی رضامندی میں ہے، رب کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے۔ والدین کی رضامندی کو آپؐ نے کتنا اہم قرار دیا کہ ان کی رضامندی پر اپنی رضامندی موقوف کردی، والدین کو ناراض رکھ کر اللہ کو راضی کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
جنگ ہجرت پر خدمت کو ترجیح:
جنگ کا موقع ہو یا ہجرت کا موقع ایسے مواقع پر آپؐ اپنے صحابہ کرامؓ کو اس بات کی تلقین کرتے تھے کہ والدین کو راضی کیے بغیر ہجرت نہ کرو، نہ ہی والدین کو راضی کئے بغیر جنگ میں جاؤ، چنانچہ ایک صحابیؓ رسول نے آپؐ کی خدمت میں حاضر ہو کر جہاد میں شرکت کے عزم کا اظہار کیا، اس سلسلے میں آپؐ سے مشورہ طلب کیا۔
آپؐ نے سوال کیا کہ کیا تمہاری والدہ ہے؟
انہوں نے اثبات میں جواب دیا، آپؐ نے فرمایا: انہیں لازم پکڑے رہو۔
آپؐ نے استفسار کیا کہ کیا تمہارے والدین ہیں؟
انہوں نے مثبت جواب دیا، آپؐ نے فرمایا: ان میں جہاد کرو۔(الحدیث)
ایک صحابی جذبہ جہاد سے سرشار ہو کر یمن سے تشریف لائے، آپؐ نے ان سے دریافت کیا کہ کیا یمن میں تمہارے کوئی رشتہ دار حیات ہیں انہوں نے جواب دیا کہ والدین زندہ ہیں۔ آپؐ نے ان سے اجازت کے بارے میں سوال کیا۔
صحابیؓ نے نفی میں جواب دیا، تو آپؐ نے فرمایا:
جاؤ ان سے اجازت لو۔ اگر اجازت نہ ملے تو ایسی صورت میں ان کے ساتھ ہی حسن سلوک کرو۔(ابوداؤ: ۰۳۵۲)
ایک صحابیؓ حاضر ہو کر آپؐ کے دست اقدس پر ہجرت پر بیعت کرنا چاہ رہے تھے آپؐ نے ان سے والدین کی بابت دریافت کیا‘ انہوں نے جواب دیا کہ جب میں ہجرت کے ارادے سے نکل رہا تھا تو وہ رو رہے تھے۔
آپؐ نے انہیں یہ کہہ کر لوٹا دیا کہ جاؤ جیسے والدین کو رولا کر آئے ہو ویسے ہی انہیں خوش کر کے آؤ، (الترغیب والترھیب)