’’تبدیلی‘‘ کا لفظ عمران کے گلے پڑ گیا ہے

Sep 28, 2018

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی

چودھری پرویز الہٰی نے کہا ہے کہ بھارت جان لے اس کا دوست جا چکا ہے۔ اب پاکستان کا وزیراعظم عمران خان ہے۔ اب یہ نعرہ نہیں گونجتا
مودی کا جو یار ہے… غدار ہے، غدار ہے
رانا ثناء اللہ کبھی کبھی دلچسپ بات کرتے ہیں۔ ان سے گزارش ہے کہ وہ غصے میں نہ بولا کریں۔ انہوں نے کہا کہ عمران خان واش روم بھی ہیلی کاپٹر پر جاتے ہیں۔ لگتا ہے کہ عمران خان ابھی کنٹینر سے نہیں اترے۔ یہ بات رانا صاحب کی ہمیں زیادہ اچھی نہیں لگی۔ عمران خان شیڈول پرواز سے سعودی عرب جاتے، ابھی سارک کانفرنس ہو رہی ہے۔ کوئی سربراہ ملک پاکستان کے دورے پر آتا ہے تو کیا عمران خان انہیں تانگے پر بٹھا کے دفتر لائیں۔
ہر بات میں لوگ تنقید کرتے ہوئے ’’تبدیلی‘‘ کا ذکر کرتے ہیں۔ یہ لفظ اب عمران خان کے گلے پڑ گیا ہے۔ جلوس اور ہڑتال کہ تین مہینوں سے تنخواہ نہیں ملی۔ جن کا گزارا ہی تنخواہ پر ہوتا ہے وہ کہاں جائیں۔ کوئی حکومت ٹھنڈے دل سے نہیں سوچتی۔
قصور میں تھانیدار صاحب ایک گھر میں گھس گئے۔ گھر والوں اور گھر والیوں کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ ڈی پی او منتظر مہدی نے تحقیقات کا حکم دے دیا۔ یہ نوٹس اور تحقیقات کیا ہوتی ہیں۔ اس کا نتیجہ کبھی سامنے نہیں آیا۔ ڈاکٹر ذوالفقار نے غیر قانونی طور پر راستہ بند کر رکھا تھا۔ اہلکاروں نے راستہ مانگنے کو بھی بے عزتی سمجھا۔ یہ کسی امیر کبیر اور حیثیت والے آدمی نے کیا ہوتا تو پولیس والوں کی پوں بول جاتی۔ اس کے ساتھ قصور ہی میں ایک گونگی بہری لڑکی کو جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور عارف نامی ملزم فرار ہو گیا۔ تھانیدار صاحب اور ڈی پی او اس کے خلاف کارروائی تو کریں۔
کچھ لوگ نواز شریف، مریم نواز کی ضمانت پر رہائی کو حق و انصاف کی فتح قرار دے رہے ہیں۔ ان کا حق ہے کہ انہیں ضمانت پر رہا کیا جائے۔ مگر شریف فیملی کی طرف سے کوئی بیان نہیں آیا۔ قدسیہ ممتاز کی تحریر کا عنوان ہے
’’ہمیں کیا حاصل ہو گا‘‘ ہمیں کچھ حاصل ہوا ہے؟
ہم تو ایک مدت سے لاحاصلی کا شکار ہیں۔ خورشید شاہ اور دوسرے ارکان اسمبلی نے وزراء کے غیر حاضر ہونے کی بات اسمبلی میں کی۔ وہ یہ بتائیں کہ کسی حکومت میں وزراء کبھی اسمبلی میں آئے تھے۔ چودھری صاحب نے کہا کہ بگڑے ہوئے حالات میں دل لگا کر کام کرنا ہو گا تو ہم انشاء اللہ کامیاب ہونگے۔
ہیلمٹ بیچنے والوں کو فائدہ پہنچانے کے لئے کبھی کبھار پابندی ضروری قرار دی جاتی ہے۔ پھر پابندی ختم ہو جاتی ہے۔ پھر لگا دی جاتی ہے۔ 400 کا ہیلمٹ دو ہزار کا ملتا ہے۔ پتہ لگایا جائے کہ کس کے رشتہ دار یا دوست ہیلمٹ کا کاروبار کرتے ہیں۔ ہیلمٹ سے بچنے کے لئے لوگوں نے میڈیکل سرٹیفکیٹ بنوانا شروع کر دیا ہے۔ ڈاکٹروں کو بھی مبارک ہو۔
بلاول نے کہا ہے کہ عمران خان خود مسئلہ کشمیر کے لئے اقوام متحدہ کیوں نہیں گئے۔ وہ خود وہاں جاتے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی وہاں کیا کریں گے؟ یہ تو قریشی صاحب کی ’’توہین‘‘ ہے۔ اس اعتراض کا جواب عمران خان دیں گے یا شاہ محمود قریشی؟
خواجہ آصف نے خوش کر دیا ہے کہ عمران خان سعودی عرب سے 10 ارب ڈالر لے کے آئے ہیں۔ یہ بتائیں کہ یہ… ع والا عرب ہے یا الف والا ارب ہے…؟ میں نے بہت پہلے اپنے کالم میں بھی بات کی تھی۔ خوشی ہے کہ خواجہ صاحب میرا کالم پڑھتے ہیں۔ وزیر اطلاعات فواد چودھری نے سپیکر قومی اسمبلی کی سرزنش کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا کہ جو ڈاکو اور چور ہیں انہیں ڈاکو اور چور نہ کہوں تو کیا کہوں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے خلاف اور حق میں ہر طرح کا مواد قابل فروخت ہے۔ یہ کتابیں صرف تین دنوں میں لاکھوں کی تعداد میں فروخت ہو جاتی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن نے اپنے تئیں بہت مزیدار بات کی ہوگی مگر قارئین کو اچھا نہیں لگا۔ عمران خان ریاست مدینہ نہیں بنانا چاہتے۔ وہ تل ابیب بنانا چاہتے ہیں؟ خواجہ آصف نے یہ بھی کہا کہ تاریخوں کے حوالے سے عمران نے تین غلطیاں کی ہیں خواجہ صاحب اپنی اردو پر غور کریں وہ جس قدر ’’جوہے‘‘ کا استعمال کرتے ہیں لوگ سن سن کر تھک گئے ہیں۔ پشاور میں جو گورنر ہائوس ہے اسے عجائب گھر بنایا جا رہا ہے۔ عمران خان کے دوستوں کو سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ ان شاندار عمارتوں کا کیا کریں اور جو لاہور کی اہم شاہراہوں پر 300غیر قانونی دکانیں ہیں ان کا کیا کیا جائے گا۔
رکشہ الٹ گیا اس میں دس بچے سوار تھے پہلے یہ بتایا جائے کہ ایک رکشے میں دس بچے کس طرح سوار ہوئے۔
عمران کے دفاع میں کہا جا رہا ہے کہ اس کی ٹیم کمزور ہے۔
’’بجنگ آمد‘‘ ایک بہت زبردست ادبی سالہ ہے۔ نامور شاعر ادیب ڈاکٹر اختر شمار یہ رسالہ باقاعدگی سے شائع کرتے ہیں یہ بڑی ہمت کی بات ہے۔ ایک زمانے میں کشور ناہید کالم نویسی کو ماورائے ادب سمجھتی تھیں۔ مستنصر حسین تارڑ کا بھی یہی خیال تھا۔ اب یہ دونوں کالم لکھ رہے ہیں۔ انہیں مبارک ہو ادب دوست اور کہکشاں۔
کشور ناہید اور مستنصر حسین تارڑ بہت نامور لوگ ہیں۔ اب تو لگتا ہے کہ کالم کو بھی ایک ادبی صنفِ سخن مان لیا جائے گا… اب تو شعر و ادب کم کم لکھا جا رہا ہے۔ ہر ادیب و شاعر نے کالم نویسی شروع کر دی ہے۔ کالم کی نوعیت بدلتی جا رہی ہے ۔ کالم ایک ہلکی پھلکی تحریر ہے اسے آرٹیکل (مضمون) بنا دینا مناسب نہیں ہے۔ پڑھنے والا کالم کا مزا بھی لیتا ہے۔ انفارمیشن اخبار میں مل جاتی ہے۔ ڈس انفارمیشن کو تحریر بنانا کالم نویسی ہے۔ پڑھنے کی عادت کو مضبوط کرنے میں کالم کا بہت حصہ ہے۔

مزیدخبریں