پچھلی حکومتوں کے اقتدار کا دورانیہ کسی کا 10سال اور کسی کا 30سال سے کم نہیں۔موجودہ حکومت کا وقت دنوں پر محیط ہے۔سابقہ حکومتوں کے بوئے بیج اور کٹتی فصل نتائج کے طور پر عوام پر قرضوں کا بوجھ مزید ہر قسم کا انتظامی ،ادارہ جاتی، تجارتی و معاشی یعنی خسارہ ہی خسارہ ہے۔ ماضی کی حکومتوں کی کارکردگی جہاں عوام کے لئے مہنگائی اور بیروزگاری کا سبب بنی ہے، وہاں حکومت کے لئے بھی چیلنجز ہیں۔ تنقید برائے تنقید نہیں، معاشرے اور ملک کے اندر پھیلے ناسور، کرپشن ہو یا مفاداتی دھندے، بالا دست طبقات کے لئے یہ کوئی گناہ نہیں۔جس میں ہماری عدلیہ ہو، فوج ہو ،سیاستدان، بیوروکریسی، یا کوئی بھی مافیا،سب سے حکومت کا بیک وقت نبٹنا کوئی آسان کام نہیں ہوگا،شدید ردِ عمل ہوگا۔پی ٹی آئی حکومت اور اس کی قیادت کو بھی اپنے اردگرد کا خیال رکھنا ہوگا۔ ڈیمز کی تعمیر، بجلی گیس کے علاوہ معاشی و تجارتی اُمور، ملکی و غیر ملکی سرمایہ کاری کا حصول، مزید ہر قسم کا خسارہ جس میں فسیکل، کرنٹ اور تجارتی خسارے کے علاوہ گردشی قرضے، ملکی معیشت اور عوام پر مہنگائی کا بم نہ گرانے کا وعدہ اور توازن رکھنا،ملکی معیشت کا دفاع کرنا، چھوٹی بڑی صنعتوں اور گھریلو صنعت کیلئے مواقع فراہم کرنا ، گیس بجلی کی سستی فراہمی، ایکسپورٹ کا بڑھانا، امپورٹ میں کمی کرنا، حکومتی امتحان ہے۔آبادی کا بڑھنا، بڑے شہروں کے ساتھ بنتی نئی ہاؤسنگ سکیموں پر کنٹرول ورنہ نتائج میں شہروں کے قریب سے سبزی فروٹ وغیرہ کی ترسیل، ٹریفک معاملات، صحت تعلیم جیسے مسائل کا حل جس کا حکومتی سطح پر فقدان پیدا ہوتا نظر آتا ہے۔ صرف تعمیراتی صنعت کا فروغ نہیں، ہر قسم کی صنعت کو ملک میں فروغ دینے کی ضرورت ہے۔ پیداواری ذرائع پر توجہ ،غیر پیداواری ذرائع پر عدم توجہ کی ضرورت ہے۔نئے شہر اور بستیاں بنانے کی جہاں ضرورت ہے وہاں ساتھ زراعت، صنعت، علاج معالجہ، تعلیم کا حکومتی سطح پر بندوبست بھی ہونا چاہیے۔اس طرح شہروں میں نقل مکانی رُک پائے گی اور آمدنی کا ذریعہ بھی مقامی سطح پر حل ہو سکے گا۔حکومت وقت کا سوچ بچار ضروری ہے۔ملک میں ہر شعبہ زندگی میں تعلیم یافتہ نوجوان ،ڈاکٹر انجینئر وغیرہ لاکھوں کی تعداد میں بے روزگار بیٹھے ہیں۔ پچھلی حکومت نے میرٹ کے بغیر سفارش اور کرپشن کی بنیاد پر نوکریاں یا روزگار مہیا کیا اور ہر ادارے میں اپنے وفادار پیدا کئے جس سے آج کاپڑھا لکھا نوجوان طبقہ مایوس ہے۔ ملک میں سی ایس ایس کے امتحان کو ہی لیں، کسی کو بھی نہیں بخشا گیا۔اب تو ان نوجوانوں کے لئے بیرونِ ملک بھی مشکلات بنتی جا رہی ہیں،اندرونِ ملک پہلے ہی برا حال تھا۔ پبلک پرائیویٹ سیکٹر دونوں میں روزگار کے مواقع کا فقدان ہے، استحصال جاری ہے، بس قوم کو صارف بنا دیا گیا ہے۔نتیجہ سب سامنے ہے۔ امریکہ ہو یورپ یا مڈل ایسٹ، سعودی عرب یا ایران،خطے میں چین روس تعلقات ،قوموں کے درمیان باہمی تعلقات کو برابری کی سطح پر تشکیل دینا ہوگا۔خارجہ امور میں ایک پیج کے نعرے پر حکومتی پالیسی باہر کی دنیا کے ساتھ بہتر نظر آنا شروع ہوئی ہے۔اپنی خود انحصاری اور خود مختاری کسی حد تک قوموں کو بامِ عروج پر پہنچاتی ہے۔ ایران، افغانستان، ہندوستان اور امریکہ کے درمیان ہر ایک کے اپنے معاشی اور سیاسی مفادات وابستہ ہیں۔پاکستان کو بھی اپنے علاقائی، سیاسی اور معاشی مفادات کو سامنے رکھ کر پالیسی ترتیب دینی ہے جو نظر آنا شروع ہوئی ہے۔سعودی تعلقات کیسے اور کیوں نہ ہوں،ہمیں جس طرح امریکی مفاداتی دور سے نکلنا ہے،اسی طرح یمن ہو یا ایران یا خلیجی ممالک، توازن کے ساتھ اپنے مفادات کو ترجیح دینا ہو گی۔سی پیک منصوبے میں سرمایہ کاری سعودی عرب کے علاوہ کوئی یورپی ملک ہو یا پھر خطے کا ملک ایران، چہار باغ یا گوادر کی بندرگاہیں،بہت کچھ سیکھنے کے بعد معاشی، سیاسی، سفارتی کامیابی ضروری ہے۔ اپنے مفادات پر کوئی سودا بازی یا ترجیح نہیں۔ سی پیک منصوبہ سب سے بالا تر ہے۔ محفوظ ہاتھوں میں ہے،سیاسی واویلا کی ضرورت نہیں۔ پوائنٹ سکورنگ نہیں، منصوبے پر جتنی غیر ملکی سرمایہ کاری ہوتی ہے، ہونے دیں۔
ملک میں توانائی یعنی بجلی کا حصول مہنگے منصوبوں کی نظر ہے جو ہائیڈرو کی بجائے فرنس آئل، کوئلے اور گیس پر منحصر ہے جو بہت مہنگا سودا ہے۔ پچھلی حکومتیں ڈیمز کے متعلق سول ہوں یا فوجی، صرف فائل ورک اور میڈیا تک ہی محدود رہیں۔ان منصوبوں میں بھی اپنے کاروباری چہیتے اور جن کامنافع بخش کاروبار کا حصول رہا حکومت کی مختلف دروازوں سے تعلقات بنا ،سابقہ حکومتی چہیتوں سے اجتناب ضروری ہے۔ کارکردگی اور میرٹ کا حصول مد نظر رکھنا چاہیے۔توانائی منصوبوں کا بڑا سٹیک ہولڈر جن کا نمائندہ بابر ندیم ہے،پرنظر رکھنا ضروری ہے۔ اوپر سے گرنے والے پیرا شوٹر زسے اجتناب کرنا ہوگا۔ نوزائیدہ حکومت پر پرانوں کی تنقید ناتجربہ کاری جیسا طعنہ، جواباً آپ کی چار دہائیوں پر مشتمل ماضی کی حکومتیں، کارگزاری سامنے ہے۔ کوئی بھی تجربہ لے کر ماں کے پیٹ سے نہیں آتا۔ماضی میں عوام کو کیا ڈیلیور ہوا، بڑے کارٹیل، بڑی تجارت، منافع خوری، تعلیم صحت کو بیچاگیا، ملکی ادارے پی آئی اے، سٹیل ملز، ریلوے ،گیس ، بجلی یعنی سب ادارے خسارے میں دے کر گئے۔ موٹر وے، میٹروجیسی کوئی بھی شکل پہلی ترجیح نہیں۔ یہ پراجیکٹ بھی ٹول ٹیکس اور سبسڈی ،یقینا عوام پر ایک قرض کی صورت ہے۔ملک میں بنیادی ضروریات پانی، صفائی ، انصاف، روزگار کچھ نہیں،عوام محروم رہے۔ماضی میں حکمرانوں بشمول فوج، بیوروکریسی بالا دست طبقات اور مراعات یافتہ کو ہی جَلا بخشی گئی۔موجودہ میڈیا کے کردار کو ہی لیں،ذرا سی اُڑتی پھرتی خبر بغیر تصدیق کے پھیلاناآجکل میڈیا میں عام ہے۔ٹی وی سکرین پر بیٹھا کوئی اینکر ہو یا مہمان ،بے پر کی اُڑانے، بحث و مباحثے میں ایک ہی بات کو پیستے رہتے ہیں۔ لگتا ایسا ہی ہے، ہر آنے والا مہمان اور اینکر ہر شعبے میں ماہر ہے اور عبور رکھتا ہے،جو ملک کے ساتھ بڑاالمیہ ہے۔ لیکن سارا میڈیا ایسا نہیں۔وقت کی پیش گوئی کی جا رہی ہے کہ الیکٹرانک میڈیا کی عمر دس سال اور پرنٹ میڈیا پانچ سال مزید چل سکتا ہے،ایک قیاس آرائی کہی جا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت نے مائنڈ سیٹ یا نظام کو اگر تبدیل کرنا ہے تو پھر ہرشعبے ، ادارے میں بیٹھے بہتات سے ٹھگوں اور چوروںکے لئے کوئی قانون یا فارمولا طے کرنا ہوگا،جو مشکل کام ہے۔ پاکستان کے عوام وقت حکومت کو ضرور دیں گے لیکن جلد از جلد ریلیف کی تمنا بھی رکھتے ہیں۔
گُڈگورننس اورعوامی ریلیف کا مسئلہ
Sep 28, 2018