ہم اشرف المخلوقات ہیں

گدھوں کے بعد مینڈکوں کی خبر ساتھ آئی تو عوام نے مینڈکوں سے زیادہ خود ٹر ٹر شروع کر دی۔ یہ ہمارا قومی وطیرہ اور روایت ہی بن چکی ہے۔ ہر بات پر صرف ٹرٹرانا اور خبریں تلاش کرتے رہنا جو موضوع بحث بنی رہیں۔ہمیں وقت پاس کرنے کو شاید بہانہ چاہئے۔ معاف کیجئے ایسا فارغ وقت اور فارغ مشاغل صرف فارغ البال اور بے کار قوموں کے ہوا کرتے ہیں۔ ترقی یافتہ ممالک ہوں یا اْن کے عوام ، نہ اس طرح کے بے کار بحث مباحثوں میں پڑتے ہیں اور نہ ہی ان پر اپنا وقت ضائع کرتے ہیں۔ زندگی کی دوڑ میں بہت پیچھے رہ جانے کی ایک بنیادی وجہ اور رویہ بھی یہی ہے۔ اس بیمار روّیے کی ایک وجہ ہماری صحافت اور ہمارا میڈیا بھی ہے۔ ساتھ سوشل میڈیا نے مزید جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ ادھر ٹی وی پر خبر آئی نہیں اْدھر سوشل میڈیاپر لطائف کی بھرمار شروع ہوجاتی ہے۔ طرح طرح کے جملے اور تصاویر ہر جگہ شیئر بھی ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ کچھ خدا کا خوف کریں۔ یہ کام محض ایک طبقہ کرتا ہے اور باقی خوف کا مارا ہوا مزید خوفزدہ ہوکر ڈپریشن کا شکار ہونے لگتا ہے۔ ہمیں دوسروں کی اذّیت اور تکلیف سے زیادہ اپنے مذاق اور دوسروں کی تضحیک سے غرض ہے۔ سوشل میڈیا پر صرف اس بات سے غرض رہ گئی ہے کہ اْن کا پیج کتنے لوگ لائق کرتے ہیں۔ اس کیلئے سنسنی خیز اور جھوٹی سچی خبریں پھیلانا اور عوام کو گمراہ کرنا پیشہ بھی بن چکا ہے۔ ظاہر ہے اس کے بعد اْن کی ریٹنگ میں اضافہ ہوتا ہے اور کمپنیاں اْن کو اشتہار دینے لگتی ہیں۔ ٹائم پاس کا ٹائم پاس اور پیسے کا پیسہ اور اس کام میں صرف عام آدمی ہی نہیں بڑے بڑے نام بھی شامل ہیں۔ اب ان دنوں سرگرم مینڈکوں کی کہانی صرف اتنی سی ہے کہ گاڑی میں سوار موقع پر اپنے کاغذات پیش نہ کرسکے۔ دراصل یہ تمام مینڈک میٹرک اور انٹر کے بائیولاجی پڑھنے والے طلباء کیلئے جارہے تھے۔ جن پر وہ اپنے تجربات کرسکیں۔ پولیس نے ضروری کارروائی کے بعد مینڈکوں کو دریا برد کردیا۔ کیا یہ سب ایک پلان کے تحت ہورہا ہے کہ ہمارے ذہنوں میں خوف، وسوسے، شکوک اور الہام پیدا کردیئے جائیں۔سیاسی عناد اور عدم برداشت کے وائرس تو پہلے ہی ہمارے خون میں شامل کئے جا چکے ہیں۔ہرروز قتل، دہشت گردی، ہوس ناکی، مہنگائی وبربادی اور دیگر تباہ کن خبریں ہماری زندگی کا لازمی جزو بن چکی ہیں۔ خدائی آفات نے ہمیں مزید خوفزدہ کررکھا ہے۔ خدا کا خوف بھی اس قوم میںنہیں جس کے لیڈران اس خدائی آفت کو بھی ہنس ہنس کر تبدیلی کا نام دے رہے ہیں یہ تو ہمارا اصل چہرہ اور مزاج ہے۔ میں کچھ دن پہلے ایک رپورٹ پڑھ رہی تھی کہ1998ء میں کوڈک کمپنی میں1لاکھ 70ہزار ملازمین کام کر رہے تھے۔ وہ دنیا میں80فیصدپیپر فروخت کرتے تھے کچھ ہی سالوں بعد ڈیجیٹل فوٹو گرافی نے انہیں مارکیٹ سے نکال دیا اور کوڈک دیوالیہ ہوگیا۔ اس کے تمام ملازمین سڑک پر آگئے۔ اسی طرح اور بھی کئی کمپنیوں کو اس صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ وجہ کیا تھی؟ صرف یہ کہ وہ وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں ہوئے۔ آنے والے دس سالوں میں دْنیا پوری طرح تبدیل ہوجائے گی۔ جو صنعتیں آج چل رہی ہیں ان میں سے زیادہ تر بند ہوچکی ہوں گی۔آپ غور کیجئے UBERصرف ایک سافٹ وئیر ہے جن کی اپنی ذاتی ایک کار بھی نہیں ہے۔ اس کے باوجود وہ دْنیا کی سب سے بڑی ٹیکسی کمپنی ہے۔ اس طرح کئی ہوٹلز اور دیگر کمپنیاں بھی اس طرز پر کام کر رہی ہیں۔ امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں وکلاء کیلئے کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ وجہ صرف آئی بی ایم واسٹن سافٹ وئیر ہے۔ جو گھر بیٹھے لوگوں کو ہر مسئلے پر بہترین مشورے دے سکتا ہے۔ اگلے دس سالوں میں90فیصد وکلاء شاید بیکار ہوچکے ہوں گے۔ اس سافٹ وئیر کی بڑی خوبی یہ ہے کہ انسانوں کے مقابلے میں زیادہ بہتر طریقے سے کام کرسکتی ہے اور زیادہ مفید اور بہتر مشورے اور حل بتا سکتی ہے۔ گاڑیاں تو دستیاب ہوں گی لیکن ڈرائیورز کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ کیونکہ آنے والا دور الیکٹرک یا ہائبرڈ ڈگاڑیوں کا ہوگا۔ زیادہ گاڑیاں سڑکوں سے غائب ہوچکی ہوں گی۔ سڑکیں خالی اور پٹرول کی کھپت میں بہت کمی واقع ہوچکی ہوگی۔ تیل سے منسلک کاروبار کرنے والوں کیلئے شاید خطرناک ترین صورت حال پیدا ہوچکی ہوگی۔ کیونکہ آج جیسے باآسانی آپ کو سوفٹ وئیر سے کار مل جاتی ہے۔ تب ڈرائیور،کارآپ کے دروازے پر ایک ٹچ کے فاصلے پر مل جایا کرے گی۔ یہ سب حیرت کدہ لگتا ہے ناں آپ کو۔ بہت سی چیزیں آج سے کچھ سال قبل ہمیں اسی طرح حیران کن لگا کرتی تھیں۔ لیکن آج ہمیں اْن کو دیکھ کر حیرت نہیں ہوتی۔ چند سال قبل جگہ جگہ پی سی او ہواکرتے تھے۔ موبائل جیب میں آتے ہیں پی سی او گدھے کے سرسے سینگ کی طرح غائب ہوگئے۔ اسی طرح موجودہ بے شمار اشیاء اور سہولتیں آئندہ سالوں میں بے کار ہوچکی ہوں گی اور ان کی جگہ مزید مفید اشیاء لے لیں گی۔ کیش آج اے ٹی ایم سے دستیاب ہے۔ ٹکٹیں موبائل پر گھر بیٹھے بک ہوجاتی ہیں۔ اس ساری بحث اور معلومات دینے کا مقصد صرف آپ کے جنرل نالج میں اضافہ کرنا نہیں تھا۔ خدارا اپنے مزاجوں اور اپنے روّیوں کو بدلئے۔غیر سنجیدگی کبھی ترقی کے امکان پیدا نہیں کرسکتی۔ نہ ہی دنیا میں غیر سنجیدہ قوموں کو کسی نے ترقی کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ شعور سنجیدگی اور سمجھ بوجھ کا نام ہے۔ اپنے آج کو دیکھتے ہوئے اپنے کل کی فکر کیجئے اور محض مینڈکوں کی طرح ٹرٹرانا چھوڑ دیجئے۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...