برابری پارٹی پاکستان کے چیئرمین جواد احمد کی جانب سے مہنگائی کے حوالے سے جاری ہونے والے ایک ہینڈ آئوٹ سے خبر بنا رہا تھا کہ میرے ایک کولیگ کمرے میں داخل ہوئے اور آتے ہی غربت اور مہنگائی کا رونا رونا شروع کر دیا اور ساتھ ہی غربت کے حوالے سے ایک واقعہ بھی سنا دیا جو چند منٹ پہلے ہی ان کے ساتھ پیش آیا۔ میرے کولیگ کی زبانی واقعہ کچھ یوں ہے۔ سپرا صاحب: میں نے گنگارام کے اشارے پر ایک بھکارن دیکھی ہے جو بہت ہی خوبصورت ہے سرخ و سفید رنگت‘ موٹی آنکھیں‘ تیکھے نقوش‘ دراز قد لگتا ہے کہ کسی اچھے خاندان سے تعلق رکھتی ہے وہ مجھے نہیں بھول رہی میں جب اشارے پر رُکا تو وہ میرے پاس آگئی اس کی گود میں چند ماہ کا ایک بچہ بھی تھا۔ مجھ سے مدد کے لئے اس نے سوال کیا میرے پاس جو توفیق تھی دیدیا اور ساتھ پوچھا کہ آپ شکل سے بھکارن نہیں لگ رہیں یہ کام کیوں کر رہی ہیں‘ اس نے کہا کہ آپ ٹھیک سمجھے ہیں میں کوئی پیشہ ور بھکارن نہیں۔ دراصل میرا خاوند بے روزگار ہوگیا اور وہ بیمار بھی ہے اس لئے مجبوراً یہ کام کر رہی ہوں۔ میں نے اسے اپنا وزٹنگ کارڈ دیتے ہوئے کہا کہ اس کارڈ پر میرا فون نمبر درج ہے۔ میرے لائق کوئی خدمت ہوئی تو بتانا اس نے کہا کہ صاحب جی! میرے پاس تو ٹیلی فون ہی نہیں ہے میں آپ کو فون کیسے کروں گی۔ میں نے اسے کہا کہ ٹیلی فون تو کسی کے سیٹ سے بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ گفتگو کا سلسلہ چل رہا تھا کہ اشارہ کھل گیا اور میں آفس چلا آیا‘ جب میرے کولیگ نے اپنا واقعہ سنالیا تو میں نے اس سے سوال کیا کہ آپ تو ہروقت خود پیسے کی کمی کا رونا روتے رہتے ہیں اور ابھی دو دن پہلے آپ کا بیٹا آپ سے بائی سائیکل کا تقاضا کر رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ لگتا ہے کہ قیامت آجائے گی مگر آپ بائی سائیکل کا وعدہ پورا نہیں کریں گے‘ میں نے اپنے کولیگ سے کہا کہ آپ کے تو اپنے مالی حالات اچھے نہیں تو اگر اس لڑکی نے فون کر دیا اور پیسے مانگ لئے تو اس کی کیا خدمت کریں گے۔ اس کے جواب میں میرے کولیگ نے کہا کہ وہ بہت پریشان تھی ضروری نہیں کہ اس کی مالی مدد ہی کی جائے ایسے لوگوں کی اخلاقی مدد بھی بہت اہمیت رکھتی ہے اس کے جواب پر میں نے انہیں کہا کہ میں آپ کے اخلاق سے اچھی طرح واقف ہوں آپ اس کی اخلاقی مدد بھی نہیں کر سکتے البتہ یہ ممکن ہے کہ آپ اس کی شائد غیر اخلاقی مدد کر سکیں۔ اس کے جواب میں میرے کولیگ نے بڑی ڈھٹائی سے کہا کہ مدد اخلاقی ہویا غیر اخلاقی مدد مدد ہی ہوتی ہے۔
خیر یہ واقعہ تو میں نے ازراہ تفنن رقم کیاہے۔ جہاں تک غربت اور مہنگائی کا تعلق ہے تو واقعی اس میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے۔ نیا پاکستان بنانے کے دعویدار حکمران اقتدار میں آنے سے پہلے مہنگائی کے موضوع پر بہت خوبصورت اور پرکشش تقریریں کرتے تھے مگر اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے عوام کا بھرکس نکال دیا ہے۔ حکمران جماعت کے سرکردہ رہنما اسد عمر صرف سال سوا سال پہلے مختلف ٹی وی چینلزپر اکثر پٹرول کی قیمتوں کے بارے میں بتاتے تھے کہ بیرون ملک سے پٹرول 43روپے لٹر ملتا ہے جو نون لیگ کی حکومت 75روپے میں فروخت کر کے عوام پر ظلم کے پہاڑتوڑ رہی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ پٹرول کی قیمت ایک سال میں ہی 75روپے سے بڑھ کر 118روپے تک پہنچ گئی اب اسد عمر صاحب کی کیلکولیشن کہاں گئی اسی طرح ڈالر کی قیمت نواز دور میں 106روپے کے قریب تھی جو موجودہ دور حکومت میں 150 سے اوپر چلی گئی اسی طرح سونے اور دیگر اشیائے صرف کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔ قصہ مختصر کہ اگر مہنگائی اور غربت میں اضافے کی یہی رفتار رہی تو بہت جلد بہت سے سفید پوش ٹریفک سنگلز پر آپ کو مانگتے دکھائی دیں گے۔ حکمرانوں سے گزارش ہے کہ غربت اور مہنگائی کوہنگامی بنیادوں پر کنٹرول کریں تاکہ کم آمدنی والے سفید پوش اپنی سفید پوشی برقرار رکھ سکیں اور انہیں بھیک مانگنے پر مجبور نہ ہونا پڑے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جس طرح آج برابری پارٹی کے چیئرمین جواد احمد مہنگائی ‘ غربت‘ بیروزگاری اور دیگر اہم مسائل کے بارے میں بڑے پرکشش بیانات دے رہے ہیں اسی طرح کے بیانات اسد عمر اور پی ٹی آئی کے دیگر رہنمااقتدار میں آنے سے قبل دیتے تھے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ جواد احمد اقتدار میں آنے کے بعد (اگر آگئے تو) عوام کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہیں۔