ہمارا ملک، حکومت، عوام، عسکری طاقتیں، قیمتی اثاثے، وسائل، آئین، صوبے اور ہمارا منشور یہ ہماری زندگی کا وہ حصہ ہیں جن میں سے ہم کسی ایک کو بھی غیر اہم قرارنہیں دے سکتے۔لیکن ایسا ضرور ہے کہ یہ عناصر ایسے ہیں جن کے لیے تدریجی جدول بناکران کی اہمیت کوجاننا ضروری ہے۔ہمارا ملک اور اسکے حصول کا بنیادی نظریہ سب سے اہم ہے اگر ہم اس نظریے کی اساس پہ جائیں تو بہت سی چیزیں ہمیں واضح ہو جائیں۔ جیسا کہ ہمارا آئین اسلامی مملکت ہونے کے حوالے سے واضح ہے کہ کیا ہو گا اور کس بنیاد پر ہو گا جس میں جلد مہیا کیے گئے انصاف کی شرط اولین حیثیت رکھتی ہے۔ منشور اور حکومتی نظام بھی اہمیت کا حامل ہے اور ذرا بھر کا جھول بھی بہت سے مسائل کا پیش خیمہ بن سکتا ہے۔ اس کے لیے حکومتی ڈھانچے کے ممبران اور حکمرانوں کا آپس میں ملک چلانے کے منشور اور آئین پر اتفاقِ رائے ہونا بہت ضروری ہے۔ اسکے لیے پالیسیز بنانے والے اور اْس پر عملدرآمد کرانے والے شعبے کے حضرات کا ذاتی دلچسپی اور ایماندارانہ رویہ ہی مثبت نتائج کا حامل ہو سکتا ہے وگرنہ کہیں بھی بگاڑ کی صورت پیدا ہو سکتی ہے۔اس پر سب سے اہم ہماری عسکری قوتیں ہیں۔ کوئی بھی ملک اپنی حکومت کو اپنی افواج کے بنا مضبوط اور محفوظ نہیں بنا سکتی۔ ہماری افواج اس لیے الحمد للہ دشمنوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ کیونکہ ہماری افواج موت سے نہیں ڈرتی اور زندگی سے پیار نہیں کرتی مگر ہماری افواج اور اْن کے سربراہوں کا منشور حکومت کو مد نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔ افواج کا اہم ترین کام سرحدوں کی حفاظت،اندرونی انتشار کے سبب خانہ جنگی میں سر گرم ہونا اور انتہائی ناگہانی آفات میں اپنی خدمات انجام دینا ہے مگر حکومت کا ایسی پالیسی بنانا ضروری ہے جس میں بے وجہ افواج کو استعمال کر کے اْن کی طاقت، سرمایہ اور خدمات کو ضائع نہ کیا جائے۔ماضی بعید کی طرف نگاہ اْٹھا کر دیکھیں تو ہماری افواج بے شمار مقامات اور موقعوں پر اس لیے خدمات انجام دینے کو پہنچ گئی کہ وہاں لوگ بے یارو مددگار اپنی حکومت کی طرف سے امداد کے منتظر تھے اور اْن تک کوئی بھی نہیں پہنچ پایا تھا۔ ایک مرتبہ ایک سول سرونٹ نے اپنے والد کو تہجد کے بعد روزانہ اللہ کے حضور رو رو کر افواجِ پاکستان کی حفاظت اور زندگی کی دْعا مانگتے ہوئے دیکھا تو پوچھا آخر آپ اس طرح رو کر دْعا کیوں کرتے ہیں تو اْنہوں نے کہا بیٹا اس لیے کہ تم جو رات بھر سکون کی نیند سوتے ہو تو میری یہ فوج کے سپاہی تمھاری حفاظت کے لیے جاگتے ہیں اگر میں ان کی حفاظت اور زندگی کی دْعا نہ مانگوں تو عوام کیسے پْرسکون نیند سوئے گی۔ہماری افواج کا یہ کردار ہمیشہ سے ہی ایسا رہا ہے اس لیے اس کو کسی بھی ایسی سرگرمی میں ملوث کرنا نہیں چاہیے جس سے ان کی عزت اور وقار اْن کے مقصد اور عزم پہ گزند لگے۔ فضائی سرحدوں، میدانی سرحدوں اور بحری سرحدوں کی حفاظت ہم سب کا بھی فرض ہے لیکن اْس میں ہمارا کردار مختلف ہے۔ اْس کے لیے ہمارے عوام کی باری آتی ہے کہ وہ اندرونی انتشار اور خانہ جنگی سے ملک کو اس طرح محفوظ رکھے جیسے ایک ماں اپنے بچے کو زندگی کے خطرات سے محفوظ رکھتی ہے۔ اس میں قبیلوں، جرگوں،خاندانوں،مذہبی جماعتوں کے رفقائے کاراور عوام پہ ایک بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اگر عوام یہ کہیں کہ ہم توخود مسائل میں گرے ہیں تو بے شک یہ دنیا اللہ کی رحمتوں کے ساتھ ساتھ آزمائشوں کی آماجگاہ بھی ہے اور اس سے تو کوئی بھی زمانہ کوئی بھی فرد مبرا نہیں۔جب حکومت،افواج ، عوام، آئین اور منشور میں ہم آہنگی،اتفاق رائے اور باہمی صلہ رحمی کا رویہ پنپنے لگے گا تو بہت سے ایسے مسائل ہیں جو کہ وسائل کی کمی کے باوجود بھی گرفت میں آسکتے ہیں اور ان کے ساتھ یا اْن سے درگزر کر کے اچھی زندگی اور اچھی حکومت چلائی جا سکتی ہے۔اب بات کرتے ہیں صوبوں کی تو ہر صوبہ حکومت اور ملک کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی سی اہمیت رکھتا ہے اور ہر صوبے کی موسم،معدنیات،زراعت اور وسائل و مسائل کی اپنی ایک الگ حیثیت اور کیفیت ہے۔ ہمارا ہر صوبہ کسی نہ کسی وجہ سے خود کفیل ہونے کی حیثیت بھی رکھتا ہے اور خود کفیل ہے بھی۔ ان صوبوں کے معدنی، زرعی، آبی ذخائر سے فائدہ اْٹھانا اور اْسے ملک و قوم کی ترقی و ترویج اور عزت و وقار میں اضافے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے تمام لائحہ عمل بنانا،اختیار کرنا اور اس پر عملدرآمد کرانا مدبرین و اکابرین اور حکومتی صوبوں کے عہدوں پہ فائز متعلقہ لوگوں کی ذمہ داری ہے لیکن یہاں ایک اور چیز بھی اہم ہے کہ عوام کا کردار ہر پل ہر جگہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور ان کی مدد اور معاونت کے بنا ملک میں کسی بھی مقام پہ کسی بھی مرحلے میں کچھ بھی مثبت نتائج کے ساتھ منظرعام پرنہیں آسکتا۔ ہمارے قیمتی اثاثے جو ہماری حفاظت کا اہم ذریعہ ہیں وہ صیہونی طاقتوں اور دشمنانِ اسلام کے لیے بہت بڑا خطرہ ہیں۔ ان اثاثوں کی طرف شاطرانہ ذہنوں کی چالوں کا توڑ فقط، حکومت،عوام، افواجِ پاکستان،صوبوں اور سیاستدانوں کی ہم آہنگی، باہمی محبت،اتفاقِ رائے، مضبوط آئین اور پالیسیز کا اطلاق ہے۔یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ اندرونی خانہ جنگی و انتشار اور مختلف مسائل ہر ملک میں جاری و ساری رہتے ہیں لیکن ان کو منصفانہ طریقے اور دانشمندی کے ساتھ حل کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ یہ معاملات جب میڈیا کے ہاتھ لگتے ہیں تو عالمی سطح پر بحث و مباحثہ میں شامل ہونے لگتے ہیں اور ہماری کمزوریاں اور ناکامیاں بن کے دنیا میں پھیل جاتے ہیں۔