پاکستان ڈیمو کریٹک مومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمنٰ ؟

 آل پارٹیز کانفرنس  کے مشترکہ  اعلامیہ  کے 14ویں  نکتہ  میں کہا  گیا ہے  کہ ’’سلیکٹڈ حکومت نے پارلیمان کو بے توقیر اور بے وقعت کر کے مفلوج کر دیا ہے، عوام کے آئینی، بنیادی، قانونی اور انسانی حقوق کے منافی قانون سازی بلڈوز اور اپوزیشن کی آواز دبائی جا رہی ہے آج کے بعد ربڑ اسٹیمپ پارلیمنٹ سے اپوزیشن کوئی تعاون نہیں کرے گی. اجلاس مطالبہ کرتا ہے کہ غیرآئینی، غیرجمہوری، غیرقانونی اور شہری آزادیوں کے منافی قوانین کو کالعدم قرار دیا جائے‘‘   دراصل اپوزیشن جماعتوں  نے  قانون سازی میں حکومت سے تعاون نہ کرنے کا اعلان کر کے  تمام قوتوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ  اب کھلم کھلا جنگ ہے اور حکومت کے ساتھ کسی صورت نہیں بیٹھیں گی  یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں  کہ   اپوزیشن قومی مفاد میں کی جانے والی آئینی ترامیم اور قانون سازی میں حکومت سے تعاون کرتی  رہی ہے  بعض مواقع  پر  حکومت کی طرف سے اپوزیشن کے تعاون کو سراہا بھی گیا لیکن جہاں  اپوزیشن نے ایف اے ٹی ایف  کی آڑ میں  شہری آزادیوں پر قدغن  لگانے کے لئے قانون سازی کی راہ میں حائل ہوئی تو اسے حکومت کی طرف سے بھارت کا آلہ کار بننے کا طعنہ دیا گیا  پارلیمنٹ کے حالیہ مشترکہ اجلاس میں جس طرح  متنازعہ بل منظور کرائے گئے  اور اپوزیشن کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل  کر دیا  گیا حکومت اور اپوزیشن  کے درمیان فاصلے بڑھ گئے ہیں حیران کن بات  یہ ہے کہ  سپیکر قومی اسمبلی  اسد قیصر جن کے طرز عمل سے پارلیمنٹ  میں بل پیش کرنے کی تحریک پر گنتی کا تنازعہ کھڑا ہوا اپوزیشن کو آن بورڈ لئے بغیر  پارلیمانی جماعتوں  کے قائدین کا اجلاس28ستمبر2020ء کو  طلب کرلیا  یہ جانتے ہوئے بھی کہ پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کے اجلاس میں وزیر اعظم عمران خان سرے سے آتے ہی نہیں اپوزیشن  اس طرز عمل پر شدید احتجاج کر چکی ہے اب  سپیکر کے حالیہ طرز عمل  سے ان کی ’’غیر جانبداری‘‘ پر  بھی انگلیاں اٹھنے لگی ہیں تو انہوں نے پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس طلب کر لیا ہے اگرچہ سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) نے سپیکر کی طلب کردہ کانفرنس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے ،ساتھ ہی  اپوزیشن کی دیگر جماعتوں نے بائیکاٹ  کرنے کے اعلانات کر دئیے  ۔پیپلز پارٹی اور جمعیت علما اسلام نے بھی  اے پی سی کے  اعلامیہ  کے مطابق  حکومت سے  پارلیمنٹ کے اندر تعاون   نہ کرنے کے اعلانات کر دئیے ہیں  سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے   کانفرنس میں  شرکت  کے لئے لکھے خط پر پہلے  مسلم لیگ (ن)  نے اپنے رد عمل کا اظہار کیا  سپیکر  کی طرف سے دعوت نامے جاری پونے پر  میاں شہباز  شریف  نے  مسلم لیگ (ن)  پارلیمانی   ایڈوائزری  بورڈ  کا اجلاس  طلب  کر لیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی قیا دت   نے  اپوزیشن کی دیگر  جماعتوں سے  رابطہ   کر کے اپنے فیصلہ سے آگاہ  کر دیا  سپیکر  اسد قیصر نے حکومت اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی تمام پارلیمانی جماعتوں سے انتخابی اصلاحات  پر تجاویز  کے لئے  شہباز شریف ، شاہ محمود قریشی، بلاول بھٹو زرداری، مولانا اسعد محمود ،شیخ رشید احمد،امیر حیدر ہوتی ،اختر مینگل، شاہ زین بگٹی خالد مقبول صدیقی ، خالد مگسی اور طارق بشیر چیمہ  کو  خطوط  لکھے ہیں   حکومت اور اپوزیشن  کے درمیان  نیب قانون  میں ترامیم پر پہلے ہی ڈیڈ لاک پایا جاتا ہے  اب حکومت انتخابی اصلاحات کے نام پر دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کو انتخاب لڑنے کی اجازت دینے اور اوور سیز پاکستانیوں کو ووٹ دینے کا حق دلوانا چاہتی ہے  لیکن یہ اسی صورت  میں ممکن ہے   آئینی ترمیم  کی منظوری  اور قانون سازی  میں  حکومت کو اپوزیشن کا تعاون حاصل ہو  حکومت  ’’گلگت و بلتستان ‘‘ کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے پر تلی ہوئی ہے  حکومت اور اپوزیشن  کے درمیان اس حد تک فاصلے بڑھ چکے ہیں  وزیر  اعظم عمران خان اپوزیشن کے ساتھ مل بیٹھنے کے لئے تیار نہیں اور  اپوزیشن بھی ان کی طرف سے ملنے والی کسی دعوت کو قبول  کرنے کی پوزیشن میں نہیں اس صورت حال میں جو کام وزیر اعظم کو کرنا چاہیے وہ آرمی چیف  جنرل قمر جاوید باجوہ کو کرنا پڑا  ان کی دعوت پر  پارلیمانی جماعتوں کے قائدین جن میں میاں شہباز شریف ، خواجہ آصف ، احسن اقبال ، بلاول بھٹو زرداری ، مولانا اسعد محمود ، سراج الحق اور دیگر رہنمائوں کی ان سے طویل ملاقات ہوئی  ابتدا میں تو یہ ملاقات خفیہ رکھی  گئی لیکن  پھر اس ملاقات کی کچھ تفصیلات  وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کی وساطت سے لیک کر دی گئیں ۔ میاں نواز شریف   کے  آل پارٹیز کانفرنس  سے خطاب نے  جہاں ملکی سیاست  میں ہلچل  مچا دی ہے وہاں  مسلم لیگ (ن)  کے حلقوں میں  ان کے خطاب  کے حوالے سے بحث مباحثہ جاری ہے ۔ مسلم  لیگ (ن)  کی اعلی قیادت  نے پارٹی  کے  قائد  میاں نواز شریف  کے تازہ ترین  ’’بیانیہ‘‘سے ہم آہنگ  کرنے کے لئے  پ مسلم لیگ (ن) پارلیمانی ایڈوائزری بورڈ کا اجلاس  منعقد   ہو چکا  ہے  پارٹی کی اعلیٰ  قیادت  نے  آل پارٹیز  کانفرنس   میں کئے جانے والے فیصلوں  کی روشنی میں آگے بڑھنے  کا  لائحہ عمل تیا ر  کر لیا ہے   پاکستان پارلیمانی بورڈ  کے اجلاس میں جو میاں شہباز شریف کی زیر صدارت ہوا  میں پارٹی کے رہنمائوں  نے قبل ازوقت  میاں نواز شریف  کی تقریر  کے اقتباسات سے لاعلمی  کا اظہار کیا  اور کہا  کہ ہمیں اس بارے میں کچھ علم نہیں  کہ میاں نواز شریف کی تقریر کس نے لکھی ہے جب کہ  سیکریٹری  جنرل احسن اقبال نے  بتایا کہ انہوں نے میاں نواز شریف سے ٹیلی فون پر رابطہ کرکے  تقریر نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا ۔   پارلیمانی بورڈ  کے اجلاس میں  نیب   کی طرف  دائر کئے گئے مقدمات میں ملوث  رہنمائوں  نے اس خدشہ کا اظہار کیا  ک ہے ۔آنے والے دنوں  میں ان کا گھیرا تنگ   کیا جا سکتا ہے  پارٹی رہنمائوں   نے میاں نواز شریف  سے رابطوں کو مستحکم کرنے پر اتفاق رائے کیا  اور روزمرہ کی بنیاد پر رہنمائی حاصل کرنے پر زور دیا   ہے اور کہا کہ  میاں نواز  شریف اور پاکستان میں مسلم لیگی رہنمائوں  کی سوچ میں  ہم آہنگی پیدا کرنے  کی ضرورت ہے  پارٹی رہنمائوں  نے   میاں نواز  شریف کی تقریر  کے بعد  پاکستان میں پارٹی  کو کام کرنے میں جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا  اس بات کا بھی جائزہ لیا گیا  سابق وزیر اعظم  نواز شریف نے  بھی سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'ٹوئٹر'  پر اپنا اکائونٹ  کھول لیا  ہے نواز شریف کے ٹوئٹر پر اکاؤنٹ بنانے کا اعلان ان کی صاحبزادی اور مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے کیا۔اپنے ٹوئٹ میں مریم نواز نے کہا کہ 'مجھے یہ اعلان کرتے ہوئے خوشی محسوس ہورہی ہے کہ پاکستانی عوام کے ساتھ رابطے میں رہنے کے لیے نواز شریف نے ٹوئٹر جوائن کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔مریم نواز کی اس ٹوئٹ کے کچھ دیر بعد ہی نواز شریف کے اکاؤنٹ سے پہلی ٹوئٹ کی گئی جس میں انہوں نے 'ووٹ کو عزت دو' لکھا۔ان کے اس ٹوئٹ کو مریم نواز کی جانب سے ری ٹوئٹ بھی کیا گیا۔نواز شریف کے ٹوئٹر پر اکاؤنٹ بنانے کے چند گھنٹے کے اندر ہی ان کے فالوورز کی تعداد 55 ہزار سے زائد ہوگئی تھی جو اب لاکھوں میں ہو گئی ہے ۔جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن   نے آل پارٹیز کانفرنس  میں اس بات کا گلہ کیا ہے  کہ  ’’انتخابات میں دھاندلی سے متعلق کمیٹی بنائی گئی جس کی توثیق  اپوزیشن جماعتوں نے کی لیکن میں نے پہلے دن سے اس قدم کی مخالفت کی تھی۔اگر آپ نے ڈھیلے ڈھالے فیصلے  کئے  تو مارچ میں سینیٹ انتخابات کی صورت میں ان جعلی لوگوں (حکومت) کے ہاتھ میں سینیٹ کا ایک حصہ چلا جائے گا، پھر آپ کہاں کھڑے ہوں گے اور ملک کہاں کھڑا ہوگا میں  بڑی صراحت کے ساتھ کہنا چاہتا  ہوں کہ آج ہی فیصلہ کریں کہ ہم اسمبلیوں سے مستعفی ہوں گے، اگر انہی اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے  رہے تو جہاں کوئی کارکردگی نہیں ہے تو میں نہیں سمجھتا کہ ہم شفاف الیکشن کے مقصد کے لیے کوئی کردار ادا کرسکتے ہیں‘‘ 

ای پیپر دی نیشن