خیالات کی بوچھاڑ

والد ٹائپ کے جتنے لوگ دنیا میں جہاں کہیں بھی پائے جاتے ہیں،ان سب کا ایک پسندیدہ مشغلہ ہے،اولاد کو نصیحت کرنا!نصیحت کرتے وقت وہ خود کو ایسی مخلوق سمجھ بیٹھتے ہیں جو اُسی عمر،حلیے اور ماحول میں ’’ریڈی میڈ‘‘(بنی بنائی)اُوپر سے آن ٹپکی ہو۔جیسے ان پر تو زندگی کا وہ دور گزرا ہی نہیں جس سے سامنے بیٹھا ہوا اُن کا بچہ گزررہا ہے یا جیسے ان کا وہ ماضی ہرگز نہیں تھا جو نصیحت’’جھیلنے‘‘والے بچے کا ’’حال‘‘ہے۔گھروں میں یہ منظر عام ہے کہ بچے(اور نوجوان بھی)سرجھکائے والد صاحب کا نصیحتوں سے لبریز خطبہ سن رہے ہیں لیکن وہ دراصل دل ہی دل میں اس کے فوری خاتمے کی دعا کررہے ہوتے ہیں۔بعض شوخ،گستاخ لیکن ذہین بچہ کبھی کبھار جواب کا ’’بائونسر‘‘پھینکتا ہے تو نصیحت کنندہ کے لیے سربچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ایسے ہی ایک نصیحت پسند بزرگوار اپنے دس سالہ بیٹے کو سمجھا رہے تھے’’دیکھو تم لڑائی جھگڑا بہت کرنے لگے ہو۔کل خالد سے کیوں الجھ رہے تھے؟تم کو پتا نہیں کہ دشمن سے بھی محبت کرنی چاہیے؟‘‘  ’’خالد میرا دشمن نہیں ہے‘‘بچے نے تُرت جواب دیا’’وہ میرا بھائی ہے۔‘‘اس خانگی لطیفے کا اطلاق آج کے سیاسی حالات خصوصاً ٹی وی کے ’’ٹاک شوز‘‘پرمِن وعَن ہوتا ہے۔حزبِ اختلاف اور حکومتی نمائندے دونوں ساتھ ساتھ یا ایک دوسرے کے مقابل بیٹھے ہوتے ہیں۔گفتگو کے آغاز میں وہ مخالف کیمپ کے آدمی کو اپنا بھائی کہتے ہیں۔بھائی کہنے کے بعد اس کی پگڑی اُچھالنا ان پر واجب ہوجاتا ہے۔حکومت نے کل وقتی’’چوب داروں‘‘کے علاوہ درجن بھرجز وقتی ’’ڈھنڈورچیوں‘‘کا ایک طائفہ بھی تیار کررکھا ہے جو دن کو جھوٹ بولنے،ہر حکومتی بُرائی،کمزوری،نااہلی اور ناکامی کاناتا ماضی سے جوڑنے اور اعدادوشمار کی گردن مروڑنے کی تربیت لیتے ہیں۔ایسے ہی جغادریوں کی خدمات حزبِ اختلاف کی پارٹیوں نے بھی حاصل کر رکھی ہیںجن کی صلاحیتوں کو بدزبانی،کوتاہ بینی اور جانبداری کی سان پر صیقل کیا جاتا ہے۔اس طرح دونوں جانب کے حاشیہ بردار اپنی اپنی زبانوں کو دودھاری تلواریں بنا کر شام کو مختلف ٹی وی چینلز کا رُخ کرتے ہیں جہاں سیاسی ملاکھڑا شروع ہوجاتا ہے۔دونوں طرف کے کنٹرول رومزمیں اپنے اپنے نمائندوں کی کارکردگی’’مانیٹر‘‘کی جاتی ہے۔جوں ہی کوئی ایجنٹ کہیں ڈھیلا پڑا،یاتواس کی سرزنش(ایس ایم ایس کے ذریعے )اسی وقت ہوجاتی ہے (آج کل یہ کوئی مشکل کام نہیں)یا اگلے روزجماعت کے بڑوں کے سامنے اس کی کلاس لی جاتی ہے۔ٹاک شو کے دوران جب کسی کو فریقِ ثانی کے خلاف کوئی بہت سخت بات کہنی ہوتی ہے توپہلے وہ اس کا نام لے کر کہتا ہے’’یہ تومیرابھائی ہے۔‘‘جب وہ یہ کہے تو سمجھ لیجیے کہ اب ادب آدب اورتہذیب وتمدن کا جنازہ نکلے والا ہے۔اس حکمتِ عملی کے تحت مخاطَب کوبھائی قراردے کر پہلے اُسے دفاعی پوزیشن میں لایا جاتا ہے اور پھراس پرکِذب بیانی کا ’’برسٹ‘‘ماردیا جاتا ہے۔اس کی پارٹی کا سرغنہ(چلیے سربراہ کہہ لیجیے)اصل نشانہ ہوتا ہے۔یہاں ہمیں اپنے ایک سابق باس یاد آگئے۔وہ زبان کے جتنے میٹھے تھے،دل کے اتنے ہی تلخ تھے۔ان کے بارے میںمشہور تھا(اوریہ عام مشاہدہ بھی تھا)کہ جب وہ اپنی سیٹ پر بیٹھے بیٹھے کسی ماتحت افسر سے’’انٹر کام‘‘پر بات کرتے اور’’میرے بھائی‘‘جیسے محبت بھرے الفاظ سے گفتگو کا آغاز کرتے تواس کا مطلب یہ ہوتا کہ’’اونااہل آدمی‘‘۔متعلقہ افسر’’میرے بھائی کا انٹرو‘‘سن کرہی لرز جاتا تھا کہ اب میری 
شامت آنے والی ہے(اور واقعی آجاتی تھی)۔جب باس کسی افسر کو (فون پر)’’پیارے بھائی‘‘کہہ کر مخاطب کرتا تو اس سے مراد ہوتی’’او دو ٹکے کے انسان۔‘‘چنانچہ متاثرہ افسر کی آواز حلق میں اٹک جاتی اور اسے ٹھنڈے پسینے چھوٹ جاتے۔تھوڑی دیر بعد اسے ’’شوکاز نوٹس‘‘کا محبت نامہ مل جاتا۔کچھ عرصے قبل حکومت کے ایک خاصے مہنگے کُل وقتی ،بے لگام صداکار نے حزبِ اختلاف کے ایک بزرگ رہنما کو اُن کی سال گرہ پر اِن دل خراش الفاظ میں مبارک باد دی’’مبارک ہو،آج کرپشن پینسٹھ سال کا ہوگیا ہے۔‘‘(صحیح یاد نہیں آرہا ہے کہ انھوں نے’’پینسٹھ‘‘کہا تھایا’’پینٹھ‘‘؟)اب ذرا غور فرمائیے،ایسا کڑوا کسیلا بلکہ زہریلا جملہ کتنے بدبودارذہنوں کی مشترکہ کاوشوں کی تخلیق ہوگا۔پاکستان کی تاریخ میںیہ پہلی بار ہوا ہے کہ مستقل وزیرِ اطلاعات اور مشیر اطلاعات جیسے قصیدہ خوانوں کی موجودگی کے باوجود متعدد’’قوال‘‘کرائے پر حاصل کیے گئے ہیں۔وزارت اطلاعات کا بنیادی اور اصل کام حکومت کی’’فلاحی سرگرمیوں‘‘کی تشہیر ہوتا ہے لیکن عملًا یہ شب وروز حزبِ اختلاف کی تحقیر اور تسخیر میں مصروف رہتی ہے۔وزیروں کے یہ’’فرائضِ غیر منصبی‘‘1960ئ؁ کے عشرے کے دوران سامنے آئے۔شیخ مسعود صادق اُس وقت مغربی پاکستان کے وزیرِداخلہ تھے۔وہ حکمرانوںکے حق میں ’’برانڈنیو‘‘نعرے اورحزبِ اختلاف کے خلاف نِت نئے دشنام تراشنے میں مہارتِ تامہ رکھتے تھے۔ہمیں یاد ہے(ذرا ،ذرا)،ایک مرتبہ انھوں نے فرمایا’’آنے والی نسلیں صدیوں صدر ایوب کے کارناموں پر فخر کریں گی۔‘‘صحافتی اورسیاسی حلقوں میں ان کی اس’’گل افشانی‘‘ پر بڑی لے دے ہوئی لیکن آپ جو چاہیں کہیں،آج بھی سپرہائی وے پر سفر کرتے ہوئے کبھی کبھار کوئی ٹرک نظر آتا ہے جس کے پچھلے حصے پر فیلڈ مارشل ایوب خان کی بڑی سی تصویر بنی ہوتی ہے اور اس کے نیچے جلی حروف میں لکھا ہوتا ہے’’تیری یادآئی تیرے جانے کے بعد۔‘‘آج کل ایسا لگتا ہے کہ شیخ مسعود صادق کی روح پنجاب کے وزیرِ اطلاعات فیاض الحسن چوہان میں حلو ل کرآئی ہے۔ان کی طرف سے وقتاًفوقتاً ایسا لطیفہ آجاتا ہے کہ بڑے سے بڑا کا میڈین بھی اسے سنے تو اپنا سامنہ اور ان کی سی ڈھٹائی لے کر رہ جائے۔گذشتہ ہفتے انھوں نے یہ پھلجھڑی چھوڑی کہ میاں شہباز شریف کو سردار عثمان بزدار سےGood Governance(اچھی حکمرانی)کے گر سیکھ لینے چاہئیں۔اب ذرا دل پر ہاتھ رکھ کربتائیے،ایسا مزاحیہ جملہ عمر شریف کے ذہن میں آسکتا تھا؟یہ موصوف(مبیّنہ طور پر) طلبہ کے اُس گروہ میں پیش پیش تھے جس نے2007ئ؁ میں عمران خان کو اُس وقت زدوکوب کیا تھا جب وہ پنجاب یونیورسٹی کے دورے پر گئے تھے۔طلبہ نے انھیں کافی دیر تک محبوس بھی رکھا ۔ایک عوامی رہنما کے ساتھ اس ’’حسنِ سلوک‘‘کی پاداش میں مسٹر چوہان کو تنظیم سے نکال دیاگیا تھا اور شاید اسی کی ستائش میں تبدیلی سرکارنے انھیں وزارت سے نوازدیا۔ایک نکتہ چیں کا خیال ہے کہ وزیرِ موصوف قصیدہ خوانی کا اضافی فریضہ ادا کرکے اپنی سیٹ پکی کررہے ہیں کیونکہ ایک مرتبہ وہ ہل کر انھیں گرا چکی ہے۔’’اضافی‘‘پر ہم اپنے ایک صاحب طرز اورسدا بہار شاعرمحبوب خزاںؔ(مرحوم) کا یہ شعر نقل کیے بغیر نہیں رہ سکتے   ؎
ایک محبت کافی ہے
باقی عمر اضافی ہے
تاہم اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل محبوب خزاںؔ صاحب نے اپنے اس غیر شرعی نظریے سے رجوع کرتے ہوئے کہا تھا   ؎
خزاںؔ زمانہ  ہے  اب دوسری  محبت کا
کہاں تک ایک محبت کا گیت گائے کوئی
 احمد فراز بھی’’نظریۂ اضافت‘‘کے قائل تھے۔یہ شعر دیکھ لیجیے    ؎
زیست ایک آدھ محبت سے بسر ہوکیسے
رات لمبی ہوتو  پھر ایک کہانی  کم ہے

ای پیپر دی نیشن