افغانستان کے حوالے سے کانگریس کو دی جانے والی بریفنگ سن کر مجھے اس بات پر حیرت ہوئی کہ دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ تک جاری رہنے والی دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی قربانیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا بلکہ اسکے بجائے ہمیں امریکہ کے نقصان کیلئے ذمہ دار ٹھہرایا گیا۔ افغانستان میں جنگ کے نتائج پر پاکستان کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہئے۔ 2001ء کے بعد میں بار بار خبردار کرتا رہا ہوں کہ افغان جنگ نہیں جیتی جا سکتی۔ اگر ہم افغانوں کی تاریخ دیکھیں تو افغانوں نے کبھی بھی طویل غیر ملکی فوجی تسلط کو قبول نہیں کیا اور پاکستان سمیت باہر سے کوئی بھی اس حقیقت کو بدل نہیں سکتا۔ بدقسمتی سے نائن الیون کے واقعہ کے بعد آنے والی پاکستانی حکومتوں نے فوج کے تسلط پر مبنی سوچ والی غلطی کی نشاندہی کرنے کے بجائے امریکہ کو خوش کرنے کی کوشش کی۔ عالمی صورتحال کے مطابق چلنے اور ملکی سطح پر طاقت حاصل کرنے کیلئے بیتاب اس وقت کے فوجی حکمران پرویز مشرف نے نائن الیون کے بعد فوجی سپورٹ کیلئے امریکہ کے ہر مطالبے سے اتفاق کیا جس کی پاکستان اور امریکہ دونوں کو بہت قیمت چکانا پڑی۔ امریکہ نے پاکستان سے کہا کہ ان گروپوں کو نشانہ بنایا جائے جن کی سی آئی اے اور ہماری خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی نے 1980ء کی دہائی میں سوویت یونین کو شکست دینے کے لئے مشترکہ طور پر تربیت کی تھی۔ اس وقت ان افغانوں کو مجاہدین آزادی قرار دیکر سراہا گیا تھا۔ امریکی صدر رونالڈ ریگن نے وائٹ ہاؤس میں ان مجاہدین کی میزبانی بھی کی تھی۔ جب سوویت یونین کو شکست ہوئی تو امریکہ نے افغانستان کو بے یارومددگار چھوڑ دیا اور 40 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین پاکستان میں جبکہ افغانستان میں خانہ جنگی چھوڑی گئی۔ اسی سکیورٹی خلاء کے دوران طالبان وجود میں آئے۔ ان میں سے اکثر پاکستان میں قائم افغان مہاجرین کیمپوں میں پیدا ہوئے اور تعلیم حاصل کی۔ نائن الیون کے بعد امریکہ کو ہماری دوبارہ ضرورت پڑی لیکن اس بار ان لوگوں کیخلاف جن کی ہم نے غیر ملکی قبضے سے لڑنے کیلئے ملکر حمایت کی تھی۔ پرویز مشرف نے امریکہ کو لاجسٹکس اور ہوائی اڈوں کی پیشکش کے علاوہ سی آئی اے کو پاکستان میں قدم جمانے کی اجازت دیدی۔ حتیٰ کہ ہماری سرزمین پر پاکستانیوں پر بمباری کرنے والے امریکی ڈرونز سے بھی چشم پوشی اختیار کر لی گئی۔ پہلی بار ہماری آرمی پاک افغان بارڈر پر نیم خود مختار قبائلی علاقوں میں پھیل گئی۔ یہی علاقہ اس سے پہلے سوویت یونین کیخلاف جہاد میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ ان علاقوں کے آزاد پشتون قبائل کے طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ گہرے نسلی تعلقات تھے۔ ان لوگوں کیلئے افغانستان میں امریکہ بھی سوویت یونین کی طرح ایک قابض ملک تھا اور وہ بھی ایسے ہی سلوک کا مستحق تھا۔ اس وقت چونکہ پاکستان امریکہ کا ساتھی تھا اور ہمیں قصوروار سمجھتے ہوئے ہم پر حملے کئے گئے۔ پاکستان کی سرزمین پر 450 سے زائد امریکی ڈرون حملے کئے گئے جس سے پاکستان تاریخ میں وہ واحد ملک بن گیا جس پر ایک اتحادی نے اتنی زبردست بمباری کی ہو۔ ان حملوں میں شہریوں کی بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں۔ اس کے نتیجہ میں امریکہ مخالف اور پاکستانی فوج کیخلاف جذبات بڑھ گئے۔ پاکستان کے خلاف 2006 اور 2015 کے درمیان 50 عسکریت پسند گروہوں نے جہاد کا اعلان کیا اور ہم پر16 ہزار سے زائد دہشت گرد حملے کئے گئے۔ پاکستان کو80 ہزار سے زائد افراد کا جانی نقصان اٹھانا پڑا اور ملکی معیشت کو 150 ارب ڈالر سے زیادہ کا نقصان ہوا۔ اس تنازعے نے پاکستان کے 35 لاکھ شہریوں کو ان کے گھروں سے بے گھر کردیا۔ دہشت گردوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کی کوششوں کے دوران فرار ہوکر افغانستان میں داخل ہونے والے عسکریت پسندوں نے بھارتی اور افغان انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مدد اور مالی تعاون سے پاکستان کے خلاف مزید حملے شروع کئے۔ پاکستان کو اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑی۔ کابل میں سی آئی اے کے ایک سابق سٹیشن چیف نے 2009 میں لکھا تھا کہ امریکہ کے براہ راست سخت دبائو سے ملک میں دراڑیں پڑنا شروع ہو گئیں اور اس کے باوجود امریکہ ہم سے افغانستان کی جنگ کے لیے ڈو مور کا مطالبہ کرتا رہا۔ میں نے اس سے ایک سال قبل 2008 میں اس وقت کے سینیٹرز جو بائیڈن، جان ایف کیری، ہیری ایم ریڈ اور دیگر لوگوں سے ملاقات کی۔ میں نے اس خطرناک صورتحال کی جانب ان کی توجہ مرکوز کرائی اور افغانستان میں جاری بے کار فوجی مہم کے بارے میں انہیں بتایا۔ نائن الیون کے بعد کے تمام عرصے میں اسلام آباد میں سیاسی مفاد غالب رہا۔ صدر آصف زرداری نے جو بلاشبہ پاکستان کی قیادت کرنے والے سب سے کرپٹ شخص ہیں‘ امریکیوں سے کہا کہ وہ پاکستانیوں کو نشانہ بناتے رہیں کیونکہ ضمنی نقصان امریکیوں کو پریشان کرتا ہے اور اس سے مجھے پریشانی لاحق نہیں۔ ہمارے اگلے وزیراعظم نواز شریف بھی ان سے مختلف نہیں تھے۔ اگرچہ پاکستان نے2016 تک دہشت گردی کو شکست دی لیکن افغانستان میں حالات بدستور خراب ہوتے گئے۔ پاکستان کے پاس ایک ایسی منظم فوج اور انٹیلی جنسی ایجنسی تھی جسے عوامی تائید اور حمایت حاصل تھی جبکہ افغانستان میں طویل بیرونی جنگ کے لیے جواز کے فقدان کو ایک بدعنوان اور نااہل افغان حکومت نے گھمبیر بنا دیا جسے بالخصوص دیہی افغان عوام کی طرف سے ساکھ کے بغیر ایک کٹھ پتلی حکومت کے طور پر دیکھا گیا۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ اس حقیقت کا سامنا کرنے کی بجائے افغانستان کی حکومت اور مغربی حکومتوں نے پاکستان پر الزام لگا کر اسے قربانی کا بکرا بنانے کی کوشش کی۔ ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم نے طالبان کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کیں اور سرحد کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت کی اجازت دی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا امریکہ 450 سے زیادہ ڈرون حملوں میں سے کچھ کا استعمال ان مبینہ پناہ گاہوں کو نشانہ بنانے کے لیے نہیں کرتا؟۔ اس کے باوجود پاکستان نے دیگر اقدامات کے علاوہ افغانستان کو مطمئن کرنے کے لیے جوائنٹ بارڈر ویزبیلٹی میکانزم کی پیشکش، بائیومیٹرک بارڈر کنٹرول کی تجویز اور سرحد پر باڑ لگانے کی تجاویز دیں جو ہم نے بڑی حد تک خود کی ہے لیکن پاکستان کی ہر تجویز کو مسترد کیا گیا۔ افغان حکومت نے اس کی بجائے پاکستان پر الزام تراشی کا سلسلہ تیز کیا جس میں اسے بھارت کے فیک نیوز نیٹ ورکس کی مدد حاصل رہی جو سینکڑوں پروپیگنڈا آئوٹ لیٹس کئی ممالک میں چلا رہا ہے۔ زیادہ حقیقت پسندانہ طریقہ یہ تھا کہ طالبان سے بہت پہلے بات چیت کی جاتی تاکہ افغان فوج اور اشرف غنی کی حکومت خاتمے کی خفت سے بچ جاتی۔ یقیناً اس امر پر پاکستان کو الزام نہیں دینا چاہیے کہ تین لاکھ سے زیادہ تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس افغان سکیورٹی فورسز کم مسلح طالبان سے لڑنے سے کیوں قاصر رہی؟۔ بنیادی مسئلہ افغان حکومت کے ڈھانچے کا تھا جو عام افغان کی نظر وں میں قانونی حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ آج افغانستان ایک اور دوراہے پر کھڑا ہے اور ہمیں ماضی کی الزام تراشی کو جاری رکھنے کی بجائے افغانستان میں تشدد کو روکنے کے لیے مستقبل کی طرف دیکھنا چاہیے۔ مجھے یقین ہے کہ اب دنیا کیلئے یہ درست اقدام ہوگا کہ افغانستان میں امن و استحکام کو یقینی بنانے کیلئے نئی افغان حکومت کے ساتھ رابطہ رکھے۔ عالمی برادری افغانستان کی حکومت میں بڑے نسلی گروہوں کی شمولیت، افغانوں کے حقوق کا احترام اور طالبان کے اس وعدے کو دیکھنا چاہے گی کہ افغانستان کی سرزمین کو دوبارہ کبھی کسی ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کیا جائے گا۔ اگر طالبان رہنمائوں کو یقین دہانی کرائی جائے کہ انہیں حکومت چلانے کے لیے مسلسل انسانی اور ترقیاتی مدد دی جاتی ہے تو ان کے پاس اپنے وعدوں پر قائم رہنے کی بڑی وجہ اور صلاحیت ہوگی۔ ایسی مراعات دینے سے بیرونی دنیا کو یہ فائدہ ہوگا کہ وہ طالبان کو اپنے وعدوں کا احترام کرنے پر آمادہ کرتی رہے گی۔ اگر ہم ایسا درست قدم اٹھاتے ہیں تو ہم وہ حاصل کرسکتے ہیں جو دوحہ امن عمل کا مقصد تھا۔ ایک ایسا افغانستان جو اب دنیا کے لیے خطرہ نہ ہو، جہاں افغان چار دہائیوں کے تنازعہ کے بعد بالآخر امن کا خواب دیکھ سکیں۔ اس کے برعکس افغانستان کو چھوڑ دینا، جو پہلے بھی آزمایا جاچکا ہے، 1990 کی دہائی کی طرح یہ عمل بہت زیادہ نقصان کا باعث بنے گا۔ افراتفری، بڑے پیمانے پر ہجرت اور بین الاقوامی دہشت گردی کا دوبارہ رونما ہونے کا خطرہ فطری نتائج ہوں گے اور اس سے بچنا یقینی طور پر ہماری ایک عالمی ضرورت ہے۔