برصغیر پاک و ہند میں ساون کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک دن مہا بلی اکبر نے اپنے نورتن بیربل سے پوچھا سال کا سب سے اچھا اور بُرا مہینہ کونسا ہے؟ بیربل نے بغیر کسی تردد کے کہا ’’ساون‘‘! اچھا! وہ کیسے؟ اکبر کے لہجے میں حیرت تھی۔ اگر ہوا چل رہی ہو تو بھگوان یاد آ تا ہے۔ اس کی قدرت اور فسوں کاریوں کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ بالفرض حبس ہو جائے تو پھر شیطان مردود پر لعنتوں کی بھرمار ہو جاتی ہے۔ مہابلی مسکرائے تو زیرک بنیے نے سوچا۔ ’’ یہ اچھا موقع ہے ایک آدھ پرگنے کی عرضی گزار دی جائے‘‘!
بیربل کی حاضر دماغی ایک طرف، اس نے چند لفظوں میں ایک بہت بڑی حقیقت بیان کر دی تھی۔ صرف ایک بات پیش نظر رکھنی چاہئے۔ ان دنوں کے ساون اور آجکل کے ساون میں بڑا فرق ہے۔ اس وقت فضا میں آلودگی نہ تھی۔ کارخانوں کی چمنیوں سے اس قسم کا دھواں نہیں نکلتا تھا جو فضا میں کالے بادلوں کا روپ دھار لیتا ہے۔ انسان اس قدر مصروف بھی نہیں ہوتا تھا کہ موسموں کے تغیر و تبدل سے لطف اندوز نہ ہو سکتا۔جب کالے بادل گھِر گھِر آتے تو باغوں میں جھولے پڑتے۔ قسم قسم کے پکوان پکتے تھے۔ ہاتھوں پر مہندی لگا کر ملہار گاتی تھیں۔ یوں گمان ہوتا جیسے دور کہیں شہنائی بج رہی ہو یا کانچ کی چوڑیاں ایک ساتھ کھنک رہی ہوں۔ جب بارش کی پہلی بوند پیاسی دھرتی پر پڑتی تو اس سے اس قسم کی باس اُٹھتی جو دنیا کی تمام خوشبوئوں کو شرماتی۔ آم کے باغوں میں کوئل کوکتی اور مور ناچتے۔ یوں محسوس ہوتا جیسے دھرتی نے سبز چادر اوڑھ لی ہو۔ درختوں کے پتے دھل کر ہوا میں اٹکھیلیاں کرتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ مرزا غالب نے اس حسین موسم کو برشکل ہند (ہندوستان کی بہار) کہا تھا۔ مرزا آموں کے رسیا تھے۔ بارش میں دھلے ٹھنڈے آموں کے ساتھ تھوڑا سا شغلِ شب بھی کر لیتے…؎
غالب چھٹی شراب پر اب بھی کبھی کبھی
پیتا ہوں روز ابر و شب مہتاب میں
یہاں مرزا نے تھوڑا سا غلو سے کام لیا ہے جو محض سختی گستری ہے کیونکہ مرزا کی زندگی میں التوائے شراب کا مستند واقعہ صرف ایک ہے۔ یعنی 22 جون 1864ء سے 10 جولائی 1864ء تک جیسا کہ علائی کے نام ایک مکتوب سے واضح ہے۔ گو مرزا برسات کے موسم کے شیدائی تھے، لیکن ایک جگہ تھوڑا سا گلہ شکوہ بھی کیا ہے۔ ’’میں مرنے سے نہیں ڈرتا، فقدان راحت سے گھبرا گیا ہوں۔ ابر اگر دو گھنٹے برسے تو چھت چار گھنٹے ٹپکتی ہے۔‘‘ یہاں بھی زیادہ زور تنگی حالات پر دبا ہے۔ شکستہ درودیوار کہاں تک بارش کے تھپڑے سہہ سکتے ہیں۔
اُگ رہا ہے دردیوارپہ سبزہ غالب
ہم بیاباں میں ہیں اور گھر میں بہار آئی ہے
قریباً ہر شاعر نے برسات کے موسم کو خراج پیش کیا ہے۔ فیض فرماتے ہیں …؎
آئے کچھ ابر کچھ شراب آئے
اس کے بعد آئے جو عذاب آئے
اسی طرح کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
پارسائی کی جواں مرگی نہ پوچھ
توبہ کرنی تھی کہ بدلی چھا گئی
بادلوں کی بھی کئی قسمیں ہیں۔ مہربان، نامہربان، حلیم اور تند خو!
(i) ابر رحمت جس سے مخلوق کا بھلا ہوتا ہے۔ (ii) ابر سیاہ تاب، کالی گھٹا جو خوف طاری کرتی ہے۔ (iii) ابر غلیظ، گہرا بادل، (iv) ابر قبلہ، وہ بادل جو پچھم سے اٹھے، (v) ابر محیط۔ چاروں طرف چھایا ہوا بادل، (vi) ابر نسیاں۔ شمسی مہینے نسیاں میں (جوکہ ستمبر کے مطابق ہوتا ہے) مشہور ہے کہ اس سے سیپ میں موتی۔ کیلے میں کافور، بانس میں بانسلوچن پیدا ہوتی ہے۔
اب حالات یکسر بدل گئے ہیں۔ شہر بے ہنگم ہو گئے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ناجائز تجاوزات کی بھرمار ہو گئی ہے۔ آبی گزرگاہوں پر لوگوں نے مکان، دکانیں اور پلازے بنا لئے ہیں۔ سراسر ناجائز اور غیرقانونی بلدیاتی اہلکار عملاً چشم پوشی کرتے ہیں۔ ظاہر ہے جب ہتھیلی گرم ہوتی ہے تو آنکھیں بند ہو جاتی ہیں۔ قواعدوضوابط کو سردخانوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ نتیجتاً جب بارش ہوتی ہے تو گلیاں ندی نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں۔ چھتیں محض ٹپکتی نہیں بلکہ گرتی ہیں۔ زندہ انسان درگور ہو جاتے ہیں۔ گھر کا سامان کشتیوں کی طرح تیرتا ہوا نظر آتا ہے۔ ابتلا کا سلسلہ یہاں ختم نہیں ہوتا۔ جب پانی اترتا ہے تو وبائی امراض گھیر لیتے ہیں۔ ہسپتالوں میں تل دھرنے کو جگہ نہیں رہتی۔ مہنگی دوائیں خریدنا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہوتی۔ ڈیم نہ بننے کی وجہ سے برساتی پانی کناروں سے باہر آ جاتا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں کی وجہ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ کھڑی فصلیں یا تو جڑ سے اکھڑ جاتی ہیں یا پانی کی فراوانی سے جل جاتی ہیں۔ گویا برسات سے جتنا فائدہ ہوتا ہے، اتنا ہی نقصان ہو جاتا ہے۔ سیاست کی وجہ سے 73 سال میں ڈیم نہیں بن پائے۔ اگر ہمسایہ ملک کی طرح بروقت بن جاتے تو منہ زور پانی کو لگام ڈالی جا سکتی تھی۔ نہ بستیاں غرق آب ہوتیں، نہ لوگ بے گھر ہوتے اور نہ کھڑی فصلیں تباہ ہوتیں۔ تعزیرات پاکستان میں کوئی دفعہ ایسی نہیں جو اس قسم کے لوگوں کا محاسبہ کر سکے۔ یہ لوگ جو ملک و قوم کے مکرم ہیں، حب الوطنی کی رمق تک نہیں چھوڑ کر نہیں گئے۔
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
یادش بخیر 1993ء میں بدترین سیلاب آیا۔ پہاڑوں میں تیز بارش کی وجہ دریائے جہلم بپھر گیا۔ آبی ماہرین اس کی تندی اور تیزی کا صحیح اندازہ نہ کر سکے۔ منگلا ڈیم کی سلامتی خطرے میں پڑ گئی۔ چنانچہ پیشگی وارننگ کے بغیر ’’سپل وے‘‘ کھول دیئے گئے۔ دریائے جہلم کے کنارے جتنے شہر اور قصبے تھے، سیلاب کی زد میں آگئے۔ غالب نے کہا تھا…؎
کس کے گھرجائے گا سیلاب بلا میرے بعد۔ یہ ایسا سیلاب تھا جو ہر گھر پر دستک دے کر گزرا تھا۔ میں اس وقت ڈپٹی کمشنر ملتان تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ بند بوسن گیارہ لاکھ کیوسک پانی کو روک نہیں پائے گا۔ بند ٹوٹنے کی صورت میں سارا ملتان شہر بارہ فٹ پانی میں ڈوب جائے گا۔ ہم جس قسم کی پریشانی سے دوچار تھے، وہ لفظوں میں بیان نہیں ہو سکتی۔ (اس کا تفصیلی ذکر میں نے اپنی زیرطبع سوانح مری ’’شاہ داستان‘‘ میں کر دیا ہے) دس روز تک ہم دن رات بند کو مستحکم کرنے میں لگے رہے۔ ملحقہ گائوں کے ہزاروں لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت کام پر مامور کیا۔ ملتان ریڈیو سے ہر گھنٹے بعد میرا پیغام نشر ہوتا۔ آپ آرام سے سوئیں۔ انتظامیہ جاگ رہی ہے۔ ملحقہ ضلع مظفر گڑھ کے ڈی سی ریڈی کا فون آیا۔ بولا۔ کیا ڈرامہ بازی کر رہے ہو۔ تم نے سارے شہر کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔