تیرے اندر نوبت وجے

Sep 28, 2022

ایک جا مع تحقیق کے مطابق دنیا میںکل سات ہزار چار سو ستاون ( 7457 ) زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں 90 فیصد زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد ایک لاکھ سے کم ہے ،کل تعداد میں سے 537 زبانوں کے بولنے والوں کی تعداد پچاس سے بھی کم ہے ، دنیا میں کچھ ایسی بھی زبانیں ہیں جو کہ آنے والے برسوں میں معدوم ہو جائیں گی کیونکہ ان کے بولنے والے ایک ایک کی تعداد میں ہیں ،ان تمام زبانوں میں سے کم از کم 43 فیصد زبانیں معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار ہیں یونیسکو کے مطابق ہر دو ہفتے کے بعد دنیا میں ایک زبان کا خاتمہ صرف اس وجہ سے ہو جاتا ہے کہ اسے بولنا معیوب سمجھ کر دوسری زبان کو اختیار کر لیا جاتا ہے ۔
 ماہر لسانیات ڈاکٹر طارق عبدالرحمن کے مطابق پاکستان میں74 زبانیں بولی جاتی ہیںجب کہ ڈاکٹر آتش درانی اس تعداد سے اختلاف کرتے ہوئے ان کی تعداد 76 خیال کرتے ہیں ، لسانی تحقیق کی ایک ویب سائٹ’’ ایتھنا لوگ ‘‘ اپنی رپورٹ میں پاکستان میں بولی جانے والی زبانوں کی تعداد 73 بتاتے ہیں ، خیر جتنی بھی تعداد میں زبانیں ہیں ان میں پنجابی زبان جسے کہ آج کی نوجوان نسل نے وقتی اور نمائشی جذبے کی نذر کر دیا ہے اور اپنی مادری زبان بولنے میں ہتک محسوس کرتے ہیں یا یوں کہہ لیں کہ اپنی مادری زبان سے لا تعلق اور نا آشنا ہو گئے ہیں خدشہ ہے کہ آنے والی نسل اسے بالکل فراموش کردے گی اور یہ میٹھی چاشنی سے بھر پور صوفیا کرام کی زبان بھی معدوم ہو جائیگی۔
زبانوں کے معدوم ہونے اور نہ بولنے والوں کے درمیان ایسے بھی پنجابی زبان میں لکھنے والے ہیں جو کہ اپنی مادری زبان سے عشق کی حد تک پیار کرتے اور لکھتے ہیں جن میں دورِ حاضر کے پنجابی زبان کے لکھاری ڈاکٹر صغریٰ صدف،مدثر اقبال بٹ ،سعید آسی ، تنویر ظہوراور نئے لکھاری حسیم جاوید جن کا خاندان پاکستان بننے کے بعد امرتسر سے ہجرت کر کے اندروں لاہور مقیم ہوا ، ان کی پنجابی شاعری کی پہلی کتا ب ’’ تیرے اندر نوبت وجے ‘‘ حال ہی میں ’’ کتاب ترنجن ‘‘ پبلیشرکے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے ، جو کہ پنجابی شاعری کا ایک انوکھا رخ دکھلاتی ہے ۔
انتساب میں انتہائی جذباتی اور ٹھیٹھ پنجابی میں لکھتے ہیں کہ ’’ ماں ہوراں دے ناں جیہناں میرے اندر ماں بولی دی جاگ لائی تے اپنے پُتراں رویل سویل لئی جیہناں ماں تے ماں بولی نال میرے موہ نوں منوں قبولیا ‘‘لکھاری حسیم جاوید 1962ء لاہور میں پیدا ہوئے انگلش میں ماسٹر کیا لیکن اپنی ماں بولی کو کوئی دوسرا رنگ نہیں دیا اور نہ ہی اپنی مادری زبان کو آج کی نوجوان نسل کی طرح اپنے ہی گھر سے رخصت کیا ، پنجابی کے پرانے شعراء وارث شاہ ، شاہ حسین ، بھلے شاہ سے بے حد متاثر ہوتے ہوئے پنجابی شاعری کی اپنی پہلی کتاب میں دور حاضر اور عہدِ رفتہ کے حالات کا موازنہ کرتے ہوتے ہوئے لکھتے ہیں کہ 
سائیاں ! پیلو پکیاں پاپ دی جھولی 
رُڑیان نیک کمایاں 
سائیاں ! سیدھے سنگ سلیٹی راضی 
چاک نیں مُندراں پائیاں 
سائیاں ! آپو ماریاں گلو کڑیاں 
 گلھ دیاں بنیاں پھائیاں 
سائیاں ! سیج دے سفنے ویکھدیاں دیاں 
ٹُٹ گیاں کُڑمائیاں 
پنجابی زبان کے لکھاری زبیر احمد کو ان کی تصانیف پر کینیڈا میں ’’ ڈاھاں انٹرنیشنل ‘‘ نے ایوارڈ سے نوازا تو حسیم جاوید لکھتے ہیں کہ 
پگیاں نوں نہیں ویہل پگائی دیون دی 
ہریان کول نہیں حق اجیہی وڈیائی دا
ہریاں دی تے ہر گئی ہرکھ نہیں بندا 
ان پگیاں دی آس رچاوے راہس نویں 
پگیا کوئی پگن پُگائی دیوے کھاں
ملک کے ناگفتہ بہ حالات خاص کر سندھ اور کوئٹہ میں بم دھماکوں پر اپنی شاعری میں ذکر کرتے ہوئے لواحقین کو معاوضہ دینے پر ’’ اک خبر اک خیال ‘‘کے عنوان سے تنقیدیہ شاعری ان کے احساس کی ترجمانی کرتی ہے ، اسی طرح ’’ اُچے بُرج لاہور دے ‘‘کے عنوان سے جمہوریت میں پروٹوکول کی وجہ سے سڑکوں پر عوام کی تکالیف کو اجاگر کر کے ارباب اختیار کو اپنے قلم کی نوک پر رکھا ۔
کتاب کے عنوان کی مناسبت سے ’’ چوک چوبرجی ، ڈھولاں والیاں دے نال ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ …؎
جنج پرائی دُھگ دُھگ نچیں 
گھم گھم ہوویں سودائی 
واری جائیں لال بگانیوں 
کُلے دی کر وڈیائی 
رب کرے اوئے ڈھولیا 
تیرے اندر نوبت وجے 
 ٭…٭…٭

مزیدخبریں