بدھ،یکم ربیع الاول    1444ھ، 28 ستمبر 2022ء

عمران خان کی جی سی یونیورسٹی میں سیاسی تقریر کا تنازعہ
سرکاری تعلیمی اداروں میں حکومت مخالف ہوں یا حکومت کے حمایتی کسی کو جلسے کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ خاص طور پر ایسے تعلیمی اداروں میں جن کی اپنی ساکھ ہے اپنا نام ہے۔ وہاں ایسی نوٹنکی رچانے کی تو کوئی بھی وجہ نہیں ہوتی۔ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور ایک اعلیٰ درسگاہ ہے۔ اسے پنجاب یا پاکستان میں ہی نہیں دنیا بھر میں ایک اچھی درسگاہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہاں کے وائس چانسلر نے اگر ’’تعلیم اور ہنر ساتھ ساتھ‘‘ کے نام پر کوئی تقریب رکھی ہی تھی تو اس میں اعلیٰ ماہرین تعلیم و ٹیکنالوجی کو بلا کر ان سے تقریریں کرائی جاتیں تاکہ طلبہ و طالبات کو ا س بارے آگہی ملتی۔ مگر وہاں بلایا گیا عمران خان کو جو ایک سیاسی رہنما ہیں۔ بے شک وہ مقبولیت میں بہت آگے ہیں مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ ا ن کا تعلیم اور ہنر کے حوالے سے کوئی خاص تجربہ نہیں۔ ہاں کھیل اور سیاست پر وہ جی بھر کر بول سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اپنی زبان پر بھی قابو نہیں وہ اپنی تقاریر میں مخالفین کے لیے نہایت عامیانہ زبان استعمال کرتے ہیں۔ اوئے، توئے، چور ڈاکو، چیری بلاسم، ڈیزل ، ڈاکو، پالشیا جیسے الفاظ سے انہیں مخاطب ہوتے ہیں۔ جی سی یونیورسٹی میں بھی دیکھ لیں انہوں نے موضوع سے ہٹ کر سیاسی تقریر کی اور بھول گئے کہ ایسی باتوں کا طلبہ و طالبات پر کیا اثر ہو گا۔ اگر وہ بھی ایسی ہی زبان بولنے لگے تو بھاڑ میں گئی ان کی تعلیم چولہے میں گیا ان کا ہنر۔ اسی لیے بچوں کو برے الفاظ استعمال کرنے سے روکا جاتا ہے کہ بدزبانی پر نہ اتر آئیں۔ اب ان نوجوانوں نے بھی اگر یہی زبان اپنا لی تو کیا ہو گا۔ ان کے گھر والے کیا سوچیں گے۔ 
٭٭٭٭٭
لاہور میں انسداد ڈینگی ورکر سے بدتمیزی اور لیڈی ہیلتھ ورکر پر تشدد 
لاہورجیسے میٹرو پولیٹن شہر میں جہاں قدم قدم پر خفیہ کیمرے لگے ہیں۔ پولیس گشت کرتی ہے۔ ناکے لگے رہتے ہیں۔ لاقانونیت کا عروج سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس کی یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ پولیس اندر خانے ملزموں سے ملی ہوئی ہے۔ اس وقت ملک میں ڈینگی کی وبا جس تیزی سے پھیل رہی ہے اور لوگ متاثر ہو رہے ہیں۔ اس میں ضرورت اس امر کی ہے کہ پورے ملک میں محکمہ صحت کے انسداد ڈینگی سکواڈ سے تعاون کیا جائے مگر افسوس کی بات ہے لاہور جیسے شہر میں بھی انسداد ڈینگی کی خاتون ورکر کو اسلام پورہ کے گنجان آباد علاقے میں بدقماش ملزم نے ہراساں کیا اور اس کا ڈوپٹہ کھینچا۔ اس کے بعد کیا کوئی خاتون ورکر اس کام کے لیے باہر نکلے گی۔ جہاں آوارہ لفنگے انہیں ہراساں کرتے ہوں۔ اسی طرح کوٹ عبدالمالک میں خواتین نے لیڈی ہیلتھ ورکر پر حملہ کر کے اسے زد کوب کیا۔ یہ دونوںسرکاری ملازم ہیں۔ انکی ہی نہیں تمام ہیلتھ ورکروں کی حفاظت حکومت کی ذمہ داری ہے۔ دور دراز پسماندہ علاقوں میں ایسا ہوتا تو الگ بات تھی۔ لاہور جیسے شہر میں ایسا ہونا افسوسناک ہے۔ اب اگر انسداد ڈینگی کا عملہ ناراض ہو کر ہڑتال پر چلا گیا تو سپرے کون کرے گا۔ انسداد ڈینگی کی مہم کون چلائے گا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا اس کا اس گرفتار ملزم سے پوچھا جائے جس نے یہ اوچھی حرکت کی ہے۔ ہو سکے تو اسے ڈینگی مچھروں سے کٹوا کر شکار ڈینگی کیا جائے تاکہ اسے اس تکلیف و اذیت کا اندازہ ہو جس سے ڈینگی کے مریض گزرتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
اڈیالہ جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی معطلی کے احکامات واپس 
اڈیالہ جیل حکومت پنجاب کی زیر نگرانی ہے اس لیے شہباز گل کو یہاں کا مہمان بنانے کے لیے حکومت پنجاب نے اپنے وکلا کی مدد سے پورا زور لگایا اور شہباز گل کے تحفظ کے نام پر اسے زیادہ وقت اپنے ہی پاس مہمان بنائے رکھا۔ بہرحال گزشتہ دنوں ایک عدالتی وفد نے یہاں کا دورہ کیا تو یہاں کی صورت حال انتہائی ناگفتہ پائی۔ قیدیوں کی حالت زار دیکھ کر اور ان پر تشدد و ظلم کی داستانوں نے اس عدالتی وفد کو پریشان کر دیا جس پر انہوں نے جیل کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور دیگر عملے کو معطل کرنے کے احکامات جاری کئے جس پر فوری عمل بھی ہو گیا۔ اب حکومت پنجاب بھلا اپنے چہیتے جیل ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کی معطلی ٹھنڈے پیٹوں بھلا کیسے برداشت کرتی۔ چند دن بعد ہی انہیں دوبارہ بحال کر کے معطلی کے احکامات واپس لے لیے گئے۔ یوں ثابت ہوا کہ بندہ من پسند ہو تو اس کے تمام عیبوں سے چشم پوشی کی جا سکتی ہے۔ اب بات رہ گئی باقی معطل شدہ عملے کی تو انہوں نے کونسا علیحدہ جرم کیا تھا کہ وہ ابھی تک معطل ہیں۔ انہیں بھی بحال کر کے انصاف کے ترازو کو برابر کیا جائے ورنہ ایک پلڑا اوپر اور دوسرا نیچے رہے گا جس سے انصاف نہ سہی تحریک انصاف کے نام پر حرف آ سکتا ہے۔ گرچہ عوام ایسی چھوٹی موٹی باتوں پر زیادہ توجہ نہیں دیتے مگر اچھا ہو کہ معزز جج صاحبان ہر ہفتے کسی نہ کسی جیل کا اچانک دورہ کر کے وہاں کے حالات کا مشاہدہ کریں تو انہیں اڈیالہ سے بھی ابتر صورتحال دیکھنے کو ملے گی۔ بھیڑ بکریوں کی طرح مرغے کے ڈربے جتنے کمروں میں درجنوں قیدی ٹھونسے گئے ہوتے ہیں جہاں جانور بھی رہنا پسند نہ کریں۔ کھانا بھی شاید عام لوگ کھانا پسند نہ کریں۔ ہاں البتہ مال لگانے والے یا سفارشی قیدیوں کو مکمل گھروں جیسی تمام سہولتیں دستیاب ہوتی ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
بھارت میں وزن کم کرنے والے ملازمین کے لیے 10 لاکھ روپے انعام 
جی ہاں یہ فیصلہ دہلی میں ایک نجی کمپنی نے اپنے ان ملازمین کے لیے کیا ہے جو موٹاپے کا شکار ہیں۔ اس طرح وہ زیادہ دلجمعی سے محنت کر کے حرکت میں برکت کے اصولوں پر چلنے کی کوشش کریں گے تاکہ ان کا وزن کم ہو اور وہ انعام کے حقدار قرار پائیں۔ ایسا فیصلہ اگرہمارے ہاں بھی سرکاری سطح پر ہو جائے تو اس کے کئی گنا زیادہ فوائد سامنے آئیں گے۔ انعام کے لالچ میں بدنما اور بھدے نظر آنے والے ملازمین بھی واک کر کے ورزش کر کے، خوراک میں کمی لا کر اپنا وزن کم کریں گے۔ پنجاب میں کئی بار سرکاری طور پر بڑی بڑی توند والے پولیس اہلکاروں کو وزن کم کرنے اور توند گھٹانے کے لیے حکمنامے جاری ہوئے مگر افسوس ایک بھی بڑھی ہوئی توند کم نہ ہوئی۔ آج بھی پنجاب پولیس میں بڑے بڑے صحت مند سپاہی سے لے کر اعلیٰ افسران تک بڑے فخر سے اپنی توند پر ہاتھ پھیر کر شکر خدا بجا لاتے ہیں۔ اب اگرہم بھی نجی و سرکاری ملازمین کو بھاری انعام کا لالچ دے کر وزن اور توند کم کرنے کی طرف راغب کریں تو امید ہے اس کا اچھا اثر ہو گا اور ہمارے ہاں بھی سمارٹ ملازمین دفاتر میں نظر آئیں گے جس کا دیکھنے والوں پر اچھا اثر پڑے گا۔ کام تو پھر بھی انہوں نے وہی کرنے ہیں جیسا اب تک کرتے آئے ہیں۔ بس ذرا دفاتر میں ذہن پر بوجھ کم پڑے گا۔ 
٭٭٭٭٭

ای پیپر دی نیشن