حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو بہت سمجھایا کہ اپنے ہاتھوں سے تراشیدہ بتوں کی پرستش کرنا چھوڑدو اور صرف اسی کی عبادت کرو جو ہمارا حقیقی معبود ہے،لیکن وہ اپنی ضدِ اورہٹ دھرمی پر اڑے رہے ۔ آپ نے انکے بتوں کی بے بسی کو آشکارا کرنے کیلئے ایک ایسا طریقہ اختیار کیا جس نے اِنکی ساری دلیلوں کو بوداثابت کردیا ۔ایک دفعہ ان کا قومی تہوار تھا انہوںنے اپنے بڑے صنم کدے کو بڑی شان وشوکت سے سجایااورچھوٹے بڑے تمام بتوں کے سامنے لذیذ اور تازہ مٹھائیوں کے تھال بھر کر رکھ دیے،پھر ساری قوم اپنے رواج کے مطابق شہر سے باہر کسی کھلے میدان میں جمع ہوگئی اوربت کدہ ،پجاریوں اورپروہتوں سے خالی ہوگیا۔حضرت ابراہیم انکے ساتھ نہ گئے بلکہ آپ بت خانے میں آئے ، اللہ کی تائید اورنصرت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنے دل کو ہر قسم کے خوف وہراس سے بے نیاز کرکے بتوں کی جانب بڑھے ،ایک وزنی اورتیز کلہاڑا آپکے ہاتھ میں تھا ان جھوٹے خدائوں پر آپ حقارت بھری نظر ڈالتے ہیں کسی کا کان ،کسی کی ناک ، کسی کابازئو،کسی کی ٹانگ کاٹتے چلے جاتے ہیں آخر میں انکے سامنے رکھی ہوئی مٹھائیوں کی تھال اٹھا کر بڑے بت کے سامنے رکھ دیتے ہیں اورکلہاڑااسکے کاندھے پر سجادیتے ہیں ۔اپنا کام مکمل کرنے کے بعد واپس تشریف لاتے ہیں اورکفر کی طاغوتی قوتوں کے ردِ عمل کا سامنا کرنے کیلئے قوم کی واپسی کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔شام کو جب بت کدے کے پجاری اور خدمت گار واپس آتے ہیں تواپنے بتوں کی یہ حالتِ زار دیکھ کر اُن پر سکتہ طاری ہوجاتا ہے۔یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح چشمِ زدن میں سارے شہر میں پھیل جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم اورانکے نظریات سے یہ تمام لوگ واقف تھے،ذہن فوراً انکی طرف منتقل ہوئے ، کہنے لگے یہ ضرور اُسی جوان کا کام ہے جس کانام ابراہیم ہے۔یہ بات عمائدین سلطنت تک بھی پہنچتی ہے وہ فرمان جاری کرتے ہیں کہ اُسے پکڑکرسب لوگوں کے روبرو لائو ،شاید وہ اسکے متعلق کوئی شہادت دیں ۔آپکو پکڑکر لایا گیااوراستفسارکیاگیا کیا ہمارے خدائوں کے ساتھ یہ حرکت آپ نے کی ہے۔آپ نے فرمایا: اے عقل کے اندھو!مجھ سے کیا پوچھتے ہوکیا تم دیکھتے نہیں سارے مٹھائی کے تھال بڑے بت نے اپنے سامنے رکھ لیے ہیں اورکلہاڑا بھی اسی کے کاندھے پر موجود ہے،اسی نے انکی یہ درگت بنائی ہوگی ،مجھ سے کیا پوچھتے ہو،اس سے پوچھو،اگر وہ حقیقت سے پردہ اٹھا سکتا ہے تو اٹھا دے۔یہ سن کروہ دم بخود ہوگئے ،کہنے لگے اے ابراہیم!آپ جانتے ہیں کہ یہ بول نہیں سکتے۔ آپ نے اُن سے پوچھا کیا تم اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر اُن بتوں کی عبادت کرتے ہوجو نہ تمہیں کچھ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اورنہ نقصان،تف ہے تم پر نیز ان بتوں پر جن کو تم پوجتے ہواللہ کے سوائ۔(الانبیاء :۶۷،۶۶)