پچھلے دنوں ایوان صدر میں ایک ملاقات ہوئی جس کے محرکات اور نتائج پر بہت سے دوستوں کے تبصرے اور کالم آپکی نگاہوں سے گزرے ہونگے۔ راقم ان تبصروں اور کالموں کی صحت بارے ایک لفظ بھی نہیں کہے گا کیونکہ سب دوستوں کی اپنی نگاہ اور اپنے ذرائع ہوتے ہیں لیکن جو باتیں یہ خاکسار کرنے چلا ہے انکی تصدیق اور جامع صحت بارے راقم ان حقائق کا سہارا لے گا جو وہ اپنے سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر گاہے بگاہے پوسٹ کرتا رہا ہے۔ جن دوستوں کی اراء میں یہ ملاقات اسٹیبلشمنٹ کی خواہش یا درخواست پر ہوئی ہے یا اس میں صدر عارف علوی کا کوئی کردار ہے تو اس سے راقم کو اختلاف کرنے کا حق ضرور حاصل ہے۔
بات شروع کرتے ہیں فیس بْک پر 24 اپریل کو لگی اس پوسٹ سے جس میں راقم نے لکھا کہ ‘‘کوئی مانے یا نہ مانے، کنفرم خبر لاہور کی دو معروف کاروباری شخصیات کسی اہم سیاسی شخصیت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کسی ممکنہ تصفیہ کیلیئے تیز ترین رابطوں میں مصروف’’۔ راقم نے اْن رشتہ داریوں کی نشاندہی کیئے بغیر جو ان رابطوں میں زینوں کا کام دے رہی ہیں بین السطور جو بات کہنی تھی وہ کہہ دی لیکن اقتدار کی راہداریوں کے بھی عجب کھیل ہوتے ہیں۔ کھیل کھیلنے والے لمحوں کی تاخیر کیئے بغیر خطروں کی بْو کو سونگھ لیتے ہیں چنانچہ اسی دن اْن رابطوں میں مصروف ایک شخصیت کے بھائی نے کسی ذریعہ سے رابطہ کیا اور ہتھ ہولا رکھنے کا کہا لیکن اپنے چڑے اور موکلات دونوں نے کہا ہم اپنی مہم جوئی سے باز نہیں آئینگے اور معاملہ کی لمحہ بہ لمحہ رپورٹنگ کرتے رہینگے۔ اس کہانی کا اگلا موڑ 25 مئی کی دھرنا کال پر جنم لیتا ہے جب ایک بار پھر انہی دو شخصیتوں نے پس پردہ رابطوں کے فرائض انجام دیے اور دھرنا منسوخی پر اس بات کی ضمانت لیکر دی کہ آنے والے دنوں میں پنجاب کی صورتحال پر نیوٹرل واقع ہی نیوٹرل رہینگے جبکہ اپنا بھرم رکھنے کی خاطر اسکے برعکس اسٹیبلشمنٹ سے تصفیہ کا طلبگار اور مصروف عمل انہی قدموں پر اپنی عادت سے مجبور مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کی باتیں کرتا رہا۔ یہ آپ بھی جانتے ہیں حبس کے موسم میں بنا کارن بادل ایسے نہیں برستے اور عطاؤں کا نزول نہیں ہوتا۔ سیاست کی باریکیاں سمجھنے والے سمجھتے ہیں کہ یہ کس کی عطاء تھی جو پنجاب میں ابر بن کر برسی اور پرویز الٰہی پنجاب کی وزارت اعلی پر براجمان ہوئے۔ ہمارا چڑا جب یہ 25 مئی والے ایپی سوڈ کی رپورٹ دے رہا تھا تو اس نے یکا یک ایک سوال داغ دیا کہ کیا آپکے نزدیک یہ اچنبھے کی بات نہیں کہ انہی دو مہینوں میں جب فرح خان گوگی کے خلاف کرپشن کی آگ کے شعلے بلند ہوئے ، دیکھتے ہی دیکھتے اس میں مزید ارتعاش کی بجائے پہلے سے لگی آگ کو ایسی کونسی چیز بْجھا گئی کہ چراغوں میں روشنی ہی نہ رہی، نہ مریم اورنگ زیب کی فرح گوگی کے خلاف کوئی سْر تال اور نہ مجھ جیسے کسی زندہ ضمیر والے صحافی کی طرف سے کوئی سوال، ایسے لگا جیسے کوئی سیلابی ریلا کرپشن کے تمام قصوں کی سیاہی اپنے ساتھ بہا کر صاف سلیٹ پیچھے چھوڑ گیا ہو۔ بلاشبہ اہل سیاست کے نزدیک یہ کوئی چمتکار نہیں بلکہ سفارتکاری کا کمال ہوتا ہے کہ محکمہ زراعت نہیں انجینئرنگ ڈیپارٹمنٹ ایسی کارپٹ سڑک بچھاتا ہے کہ سواری کو ہلکا سا جھٹکا بھی نہیں لگتا لیکن ہمارا چڑا اور موکلات بضد ہیں کہ یہ بھی انھی دو شخصیات کی دن رات کی ریاضت کا نتیجہ تھا کہ فرح گوگی کو سب بھول چکے۔
جگہ کی بندش کی وجہ سے درمیانی روداد سے صرف نظر کرتے ہوئے اب آتے ہیں راقم کی اس پوسٹ کی طرف جو اس نے 14 ستمبر کو اپنی فیس بْک وال پر لگائی کہ ’’لگتا ہے لاہور کا تاجر گروپ اسٹیبلشمنٹ اور عمران کے درمیان معاملات طے کرانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ تبھی ستمبر دھرنا اور ایکسٹینشن کی باتیں ہو رہی ہیں ۔‘‘ اس خاکسار کو اب اس پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہر آنے والے روز کی ایک نئی کہانی سن لیں۔ پہلے دن ایکسٹینشن کی بات، دوسرے دن چیف جسٹس اگر سائفر کی تحقیقات کی گارنٹی دے تو اسمبلی میں واپسی ہو سکتی ہے، تیسرے دن تحریک کی جو کال ہفتے والے دن دینی تھی وہ اگلے چند روز تک موخر۔ قارئین آپ بھی اہل نظر ہیں یہ سب کیا ہے۔ یہ چوہے بلی کا کھیل ہے۔ یہ سب نظر کے دھوکے کیلئے ہو رہا ہے۔ چڑا اور موکلات بضد ہیں کہ اپریل سے شروع سفارتکاری معاملات اس مقام تک لے آئی ہے کہ اس ملاقات میں اس بات پر اتفاق ہو چکا کہ نیوٹرل اب نیوٹرل ہی رہینگے۔ لیول فیلڈ پلے سب کھلاڑیوں کو ملے گا۔ متوقع گرفتاری جسکے لیئے بقول اسی لیڈر کے میں نے اپنا سوٹ کیس تیار کیا ہوا ہے، منسوخ ہونے کی گارنٹی مل چکی جبکہ اسکے گرفتار چیف آف سٹاف کی ضمانت پر رہائی اور اس معاملہ میں مزید کاروائی سے گریز بھی اسی ڈیل کا حصہ ہیں۔ دوسری طرف لیول فیلڈ پلے کیلئے جب آپ یہ سطور پڑھ رہے ہونگے اسحاق ڈار کی واپسی ہو چکی ہو گی اور مریم نواز کی کلیئرنس بھی ایک دو دن میں متوقع ہو گی جس کے بعد وہ لندن جائینگی اور اپنے والد صاحب کو ساتھ لائینگی اور پھر لاہور میں والہانہ استقبال کے بعد دونوں اطراف سے جلسہ جلسہ کھیلا جائیگا، پھر میدان سجے گا اور پھر جو جیتا وہ سکندر جبکہ اس دوران اکتوبر کے آخری ہفتے کوئی انہونی نہ ہوئی تو معمول کی تقرریاں بھی ہونگی اور بجلی پہلوان کو حسب عادت بڑھکیں لگانے کی اجازت بھی ہو گی۔ یہ تو تھی ایک طرف کی کہانی دوسری طرف سے بھی پچھلے ایک سال میں جو کھیل کھیلا گیا اسکی بھی اپنی ایک داستان ہے اور روٹھے یار کو کیسے منایا اور کس نے منایا وہ بھی ایک راز ہے جو پھر کبھی ۔لیکن اتنا بتاتا چلوں کہ اس میں بھی لاہور کے ایک بندے کا کمال کا کردار تھا۔ باقی رہے نام اللہ کا۔