امیرمحمد خان
سابق وزیر اعظم نواز شریف کا اداروں کے سابق اعلی افسران کے حالیہ بیان اسکے کچھ نہیں کہ پاکستان آنے کے خواہش رکھنے والے سابق وزیر اعظم کو اپنی مسلم لیگ ن میں دوبارہ زندگی کی روح پھونکنے کا ایک ذریعہ تھا ، چونکہ خراب معیشت کی دلدل میں پھنسے اس ملک کے عوام کو معیشت کے حوالے سے کوئی حوصلہ مند اچھی خبر دینے کے وہ قابل نہیں تھے ، چونکہ ملکی یا بیرونی حالات کچھ بھی ہوں IMF کے معاہدے چاہے کچھ بھی ہوں، اتحادی وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے IMFکو راضی کرنے میں چاہے جتنی تگ و دو کی ہو ،مسلم لیگ کے متنازعہ معاشی ماہر وزیر خزانہ نے صحافیوںکے سوالات کے جواب میں انہیں برابھلا کہنے انہیں تھپڑ رسید کرنے کی کوئی بھی سعی کی ہو ، 25 کروڑ عوام جن میں اکثریت کم تعلیم یافتہ ہے وہ بین الاقوامی صورتحال سے ناواقف ہیںانہیں صرف اپنے روزگار اور مہنگائی کی آفات سے فراغت کی فکر ہے ایسے میں کون ایسا حاتم طائی ہے جو پاکستان کے عوام کو خوشی کی خبر دے سکتے ہیں ایسے میں میاںنواز شریف کو نہ جانے کس مہربان نے افواج کے سابقہ افسران، عدلیہ کے سابق سربراہان سے بدلہ لینے کا بیان دلا دیا ۔ گزشتہ چند ماہ میں عوام ان امور سے واقف ہوچکے ہیں مگر عوام کی سربراہی کرنے کے مستقبل کے خواہا ںکی جانب سے ”بدلہ “ لینے کا بیان ایک مرتبہ پھر عوام کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگانے کے متعارف ہے ہمارے لیڈران نہ جانے اس بات سے کیوںناواقف ہیں یا جان بوجھ کر ایسے حوصلہ شکن بیانات دیتے ہیں جس سے ہمارا ازلی دشمن بھارت سر پر اٹھائے گھومتا ہے ، اسے تو چاہے سابق ہو یا موجودہ ہمارے اداروںکے خلاف خاص طور فوجی اداروںکے خلاف کوئی بیان چاہئے ، میاںصاحب کانیا جاری کردہ بیانیہ جعلی شہ سرخیوںکے ساتھ نہ صرف ہندوستان بلکہ دنیا بھر کے میڈیا میں تشہیر ہوا ، نتیجہ کے طور اتحادوزیر اعظم میاںشہباز شریف کی لند ن سے واپسی پر اپنا سوٹ کیس گھر میں رکھنے سے قبل ہی فوری لندن یاترہ پر جانے پڑا یقینا انہوں نے پہنچتے ہی اپنے برادر سے یہ کہاہوگا ©©”بائی جان اے کی کیتا ؟ادھر مسلم لیگ ن کے زعماءبمعہ محترمہ مریم نواز اور دیگر زعماءیہ بیان دے رہے ہیں کہ میاں صاحب 20 اکتوبر کو پاکستان پہنچ کر دودھ کی ندیاں بہا دینگے ، عوام سکون کا سانس لینگے ، روزگار کی فرامانی ہوجائے گی مگر اچانک سابق وزیر اعظم نواز شریف کے نئے بیانیہ جس میں معیشت کی بہتری کرنے کا کوئی پیغام نہ تھا ماسوائے ”بدلہ “لینے کے جس سے پاکستان میں موجود تمام مسلم لیگ ن کی لیڈر شپ میں کھلبلی مچ گئی ۔یہ بات درست ہے کہ عوام کو معلوم ہوچکا ہے کہ کرپشن کا نام لیکر اقامہ نہ ہونے پر میاں صاحب کے نا اہل کیا گیا ، یہ بھی مان لیا کہ جھوٹے مقدمات بنائے گئے ۔ اس ملک میںاداروںکے ساتھ 9 مئی جو کچھ قابل نفرت کھیل کھیلا گیا ، اگر میاں صاحب اپنے خلاف کئے گئے بقول انکے مظالم کو بیانیہ بنانے کے بجائے ، کوئی بہتر معیشت کا فارمولہ بیان کرتے جو انکی لیڈر شپ لوگوں کو پہلے ہی پہنچا رہی تھی اسے ہی اپنے بیانئے کا موضوع بناتے تو عوام تو معصوم ہیں وہ ایک بار نہیں کئی بار دھوکہ کھانے اور اپنے لیڈران کی محبت میں آنکھیں بند کرکے ان کے پیچھے بار بار چل پڑتے ہیںشائد والہانہ استقبال بھی کرتے مگر اب ایسالگتا ہے ، اعلان کردہ ”20اکتوبر ہنوز دور است “ہوچکا ہے نئی تاریخ اور سن کا انتظار فرمائیں ۔ گزشتہ دنوں پارٹی عہدیداروں سے اپنے ریمارکس میں نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ اور سابق جاسوسی چیف فیض حمید نے دو ججوں کے ساتھ مل کر انہیں ہٹانے کی سازش کی۔عوام کیلئے یہ کوئی انہونی خبر نہیں تھی نیز میاں صاحب نے اپنی بات چیت اپنے دعوے کے لیے کوئی ثبوت پیش نہیں کیا ۔ عوام تو منتظر ہیں کہ انہیںکوئی مہنگائی ، بے روزگاری سے نکالنے کیلئے کوئی سنہرا ءخواب ایک مرتبہ پھر دکھائے ،میں نے پہلے بھی یہ لکھنے کی جسارت کی کہ نگران ہیں ، نگران وزیر اعظم کے بیانات حوصلہ مند ہیںانہیںکوئی سعی کرنے دیںمگر درمیان میں الیکش کمیشن آجاتا ہے اور نگراںقانون کی پابندی کی باتیں کررہے ہیں اور وزیراعظم کاکڑ کی موجودگی میں لگتا ہے کہ پابندی بھی ہوگی۔ سابقہ چیف جسسٹس جاتے جاتے اپنا کام کرگئے انہوںنے آخری دن اپنے مخالفین کو منہ چڑاتے ہوئے تمام نیب کے وہ قوانین واپس کھول دئے جن سیاست دانوںنے اپنے مقدمات ختم کرالئے تھے اسلئے اب کسی کو الیکشن میں جانے سے قبل تمام ہی حاضر لاٹ کو مقدمات کا پھر سے لامتناہی سلسلہ کا بھگتنا ہوگا ، میاں نواز شریف کی ان فیصلوںکے تحت جیل یاتر اءبھی نظر آتی ہے۔ اسلئے شائد اب بیانیہ کے علاوہ اس بناءپر شائد 20 اکتوبر کو والہانہ استقبال ممکن نہ ہو ، محترمہ مریم نواز نے والہانہ استقبال ہونے کا اعلان کیا تھا جو بعد میں ہیلی کاپٹرسے جانے پر محیط ہوگیا تھا ۔ خان کی معزولی کے بعد سے پاکستان گہرے سیاسی بحران کا شکار ہے۔ مانا کہ مسلم لیگ ن پنجاب میٰں مقبول ترین جماعت رہی ہے مگر اتحادی وزیراعظم دور میںجو حال معیشت کا ہوا اسلئے شائد اب مسلم لیگ ن کو وہ پذیرائی عوام میں نہ ہو ، نیز پی پی پی کے بلاول بھٹو اور پی پی پی کے دیگر رہنماﺅںبیان بازی میں بمقابلہ مسلم لیگ ن لگے ہوئے ہیںجو آج کی صورتحال میں کوئی پذیرائی حاصل نہیںکررہے کہ دونوں جماعتو ں نے عوام کو دیا کیا ہے ؟؟سندھ جہاں پی پی پی ایک عرصہ سے اقتدار پر موجود ہ ہے وہاںکی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ، اب الیکشن کمیشن نے نئی تاریخ انتخابا ت کیلئے دے دی ہے اس پسی ہوئی معیشت میںاربوں روپے انتخابات میں خرچ ہونے کی توقع ہے اور انتخابات قانون کے علاوہ اس لئے بھی ضروری ہیں کہ ایک ارب ڈالر IMF انتخابات میں کامیاب ہونے والی حکومت کو دے گا یہ بھی ”دور است “ کہ حصوں بخروں میں تقسیم سیاسی جماعتوں میںکون اور کیسے حکومت کرے گا ؟ معصوم عوام چلے ہوئے کار توسوں جیسے لوگوں کی اقتدا میں اور یا پھر ذات برادری کی بنیاد پر اور بھیڑ بکریوں کی طرح اس رستے پر چل پڑتے ہیں۔ ہم اپنا بہت نقصان کر بیٹھے ہیں اور اب شاید مزید کی گنجائش نہیں۔ لہٰذا ہمیں پاکستان ہی نہیں،اپنی عزت بھی بحال کرناہے ووٹ کوعزت دو کے نعرے سے نکل کر ووٹر کوعزت دو کے نعرے کو اپنانا ہوگا بڑے میاں صاحب اپنے اوپر ہوئے مظالم کی داستاںاور بدلہ کی سیاست سے ہٹ کر معیشت کی درستگی اور پاکستان اورپاکستان کے عوام کی کھوئی عزت بحال کرنے کا نعرے بلند کریں تو پھر شائد لوگ کہیںکہ ”قدم بڑھاﺅ قوم آپکے ساتھ ہے “اسوقت بہترین نعرہ یہ ہی بنتا ہے کہ ”نگرانوں قدم بڑھاﺅ قوم آپکے ساتھ ہے “ بشرطیکہ اشرافیہ کی لوٹ مار بند کرالیں،حکومتی فضول خرچیاں بند کرادیں،وزیروںکو کہیںکہ قانونی طور پر وہ کچھ عرصے کیلئے آئے ہیں نیز الیکشن کمیشن کے بیان کے مطابق وہ اپنی وزارتوںمیں اپنی من پسند اکھاڑ پچھاڑ نہیں کرسکتے جو کہ جاری ہیں انکے زیر وزارت لوگ ایماندار بھی ہیں اور ملک سے محبت کرنے والے بھی۔ اس میں کوئی دور رائے نہیں کہ نگران وزراءمحب وطن ہیں اور الیکش کمیشن کے قانوں سے بھی واقف ہیں۔