ڈالر منہ کے بل آ گرا، پہلے اس پر قابو کیوں نہیں رکھا جاسکا؟

سید شعیب شاہ رم
ڈالر بلند ترین قیمت پہنچنے کے بعد حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے ذخیرہ اندوزوں اور سٹے بازوں کے خلاف سخت آپریشن کا آغاز ہو چکا ہے۔ جس کے بعد ڈالر کی قیمت میں یکدم کمی کا سلسلہ شروع ہوگیا اور 326 روپے کی بلند ترین سطح کو چھونے والا ڈالر تیزی سے 290 روپے پر پہنچ گیا۔ ڈالر کی قدر منہ کے بل گرتے دیکھ یہ خیال آرہا ہے کہ یہ کام پہلے کیوں نہیں ہو سکا۔ اگر یہی اقدام پہلے ہوجاتا تو آج ملک میں مہنگائی اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ خیر دیر آید درست آید کے مصداق غیر قانونی ایکسچینج کمپنیوں اور ڈالر ذخیرہ کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی گئی ہے۔ دیکھنے میں آیا ہے جو لوگ ڈالر جمع کرکے بیٹھے تھے کہ ان کی رقم راتوں رات دگنی، تگنی اور چار گنا سے زیادہ بڑھ جائے، انہیں اس کا خسارہ بھی اٹھانا پڑا ہے۔ ان سماج دشمن عناصر کو منافع کا لالچ اتنا تھا کہ ان لوگوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اس سے ملک کو کتنا نقصان پہنچ رہا ہے۔ کچھ عرصے پہلے تک ڈالر کی بلیک مارکیٹ خوب پھل پھول رہی تھی وہ تو بھلا ہو آرمی چیف کا کہ انہوں نے صورتحال دیکھ کر بلیک مارکیٹ کے خلاف سخت آپریشن کا آغازکیا اور راتوں رات ڈالر کی بڑھتی قیمت کو بریک لگ گئے اور ڈالر اچانک زمین بوس ہوگیا۔ قانون نافذ کرنے والوں نے غیر قانونی ایکسچینج کمپنیوں کے خلاف آپریشن کیا، تو دوسری جانب جن لوگوں نے ڈالر جمع کر رکھے تھے انہوں نے تیزی سے کم ہوتی قیمتوں کو دیکھ کر جلدی جلدی ڈالر فروخت کرنا شروع کردئیے۔ اب عالم یہ تھا کہ جہاں کچھ دن پہلے ڈالر دستیاب نہیں تھا اب وہاں ڈالر بیچنے والوں کی لائن لگ گئی۔ حوالہ ہنڈی کرنے والے بھی دھر لئے گئے اور پھر ایسے ایسے لوگوں کے پاس سے ڈالر نکلے جن کے بارے میں سوچنا بھی مشکل تھا۔ دوسری جانب ایکسچینج کمپنیز نے یومیہ 10 سے 15 ملین ڈالر اسٹیٹ بینک کے پاس جمع کرانا شروع کر دئیے۔ 
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ڈالر کی قیمت میں تیزی کو کمی شروع ہوگئی اور ڈالر پر سٹے باری اور بلیک مارکیٹ کا خاتمہ ہوگیا۔ پھر دوسرے مرحلے میں یہ فیصلہ ہوا کہ غیر قانونی ایکسچینج کمپنیز سے تحقیقات اور ان کے پاس موجود ڈالر خریدنے والوں کے ڈیٹا کی مدد سے اس کریک ڈاو¿ن کو وسیع کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ ڈیٹا سے یہ ان لوگوں کا تعین کیا گیا جنہوں نے گھروں سمیت دیگر جگہوں پر ڈالر جمع کر رکھے تھے۔ 
اس طرح ہم نے دیکھا کہ پشاور میں ایک بلڈنگ کی بیسمنٹ سے 7 ارب مالیت کی غیر ملکی کرنسی برآمد کی گئی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ مزید وسیع کیا گیا اور گزشتہ روز کراچی میں گاڑیوں کے ڈیلر کے گھر چھاپے میں بڑی رقم برآمد کرلی گئی، نوٹوں کی گڈیاں تکیوں کے غلافوں میں چھپائی گئی تھیں۔ حساس اداروں کی ٹیم نے شہر قائد کے رہائشی علاقہ پی ای سی ایچ سوسائٹی میں مشترکہ آپریشن کرتے ہوئے گاڑیوں کے امپورٹر کے گھر سے بڑی مالیت میں پاکستانی اور غیر ملکی کرنسی برآمد کرلی، 26 ستمبر کی رات عمل میں لائی گئی کارروائی کے دوران گھر سے 23 ہزار ڈالر، 2 کروڑ 60 لاکھ روپے سے زائد پاکستانی کرنسی، 5 لاکھ 49 ہزار روپے مالیت کے پرائز بانڈ اور 2 قیمتی موبائل فون بھی برا?مد ہوئے۔ امپورٹڈ گاڑیوں کا کاروبار کرنے والے عزیز سیکھا کے گھر کی نگرانی کے بعد کارروائی کی گئی، جہاں نوٹوں کی گڈیاں تکیوں کے غلافوں میں چھپاکر رکھی گئی تھیں، سکیورٹی اداروں نے تمام برآمد شدہ رقم اور موبائل فون ایف آئی اے کرائم سرکل منتقل کردیا اور ملزمان کے خلاف ایف آئی اے تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا۔چند روز قبل وفاقی تحقیقاتی ادارے ایف آئی اے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے کرنسی اسمگلنگ اور ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کریک ڈاو¿ن کے دوران راولپنڈی میں غیر ملکی کرنسی کے گودام کا انکشاف ہوا، ملزمان کی نشاندہی پر ایف آئی اے سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں نے چھاپہ مارا، جہاں ایک ایکسچینج کمپنی سے لاکھوں ڈالرز، پاو¿نڈ، ریال اور کروڑوں پاکستانی روپے برآمد ہوئے، موقع سے 8 افراد کو گرفتار کرلیا گیا۔معلوم ہوا کہ ایف آئی اے کی جانب سے عمل میں لائی گئی کارروائی کے دوران ابتدائی طور پر ڈیجیٹل لاکر سے 40 کروڑ روپے سے زائد کی ملکی و غیر ملکی کرنسی برآمد ہوئی، تاہم پلازے میں اربوں روپے ملکی و غیر ملکی کرنسی چھپائے جانے کا انکشاف ہوا جہاں دیواروں اور زمینوں پر ڈیجیٹل سیف بناکر ان میں رقم چھپائی گئی، مزید ڈیجیٹل لاکرز کھلنے کے بعد برآمد ہونے والی مجوعی رقم کا تخمینہ سامنے آئے گا۔بتایا جاتا ہے کہ پلازے اور رقم کے مالک نے قانونی دستاویزات دکھاکر چھاپہ مار ٹیم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی، جس کے بعد ڈیجیٹل لاکرز کاٹنے کے لئے منگوائے کٹرز واپس بجھوا دیئے گئے، اس دوران نجی مال پلازہ میں نکلنے والی رقم پر ایف آئی اے اور پلازہ کے مالک کے مابین تلخ کلامی ہوئی تو ایف آئی اے نے معاونت کے لئے پولیس کو طلب کر لیا۔ان تمام کارروائیوں کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ ملک میں ڈالر کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی تھی جبکہ حقیقت میں ڈالر کی کوئی قلت نہیں تھی۔ سب ذخیرہ اندوزوں نے ڈالر جمع کررکھے تھے۔ اب امید ہوچلی ہے کہ ڈالر کی قیمت نیچے آئے گی تو عوام کو بھی کچھ ریلیف مل سکے گا اور مہنگائی میں کمی ہوگی۔آنے والے دن شاید عوام کیلئے کچھ راحت لائیں۔ عوام کی یہی خواہش ہے کہ اس طرح کے کریک ڈاو¿ن مزید شعبوں میں بھی کئے جائیں۔

ای پیپر دی نیشن