ستمبر کا مہینہ پانچ چھ مہینے کی شدید گرمی کے بعد ٹھنڈی ہواں کے ساتھ جاڑے کی نوید لے کر آتا ہے ۔ موسم کی اس خوشگوار تبدیلی کو پورے ملک اور خاص طور پر اسلام آباد اور گرد و نواح میں واضح طور پر محسوس کیا جاتا ہے مگر اس ستمبر درجہ حرارت کی زیادتی نے ملک کے طول و عرض میں سب کو مضطرب رکھا موسم کی یہ حالیہ تبدیلی غیر معمولی ضرور ہے مگر غیر متوقع نہیں ہے ۔پاکستان کا شمار ماحولیاتی تبدیلیوں سے سب زیادہ متاثرہ دس مما لک میں ہوتا ہے ۔پچھلے چند سالوں سے یہ بدلا متواتر اور زیادہ شدت سے سامنے آرہا ہے ۔ پاکستان میں اس تبدیلی کے اثرات ہر شعبے پر دیکھے جا سکتے ہیں مگر زراعت وہ شعبہ جس میں یہ تبدیلیاں بہت خطرناک اثرات مرتب کر رہی ہیں اور اس کے نتیجے میں انسانی زندگی کے بہت سے دوسرے شعبے براہ راست یا بالواسطہ طور پر متاثر ہو رہے ہیں ۔ ابھی 2022کے سیلاب کے اثرات اور نقصات کا ازالہ نہیں ہو پایا جس میں 1500 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے اور تقریبا تیس لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے کہ حالیہ دریائے ستلج کے سیلاب نے پنجاب کے آٹھ اضلاع کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے اور سینکڑوں ایکڑ اراضی زیر آب ہے انڈیا کی آبی جارحیت تو اپنی جگہ ہے ستلج کے سیلاب سے اپنی ناکامی پر کسی حد تک پردہ ڈالنے کی کوشش کر لی جاتی ہے مگر کپاس کی فصل کا کیا جس کے لیے بظاہر ہر سطح پر کسانوں کو کھاد بجلی اور دیگر معاملات میں رعائت کے دعوے کیے جارہے تھے اور کسانوں کو کپاس کاشت کرنے کی طرف راغب کیا گیا کیونکہ پچھلے دس سالوں میں کپاس کی کاشت میں بے تحاشا کمی آئی جس کی بہت سی وجوہات میں سے مہنگا بیج ، کھاد ، نہری پانی کی عدم دستیابی اور اس کے نتیجے میں مہنگی بجلی اور پٹرول سے آبپاشی کا عمل اور جعلی کیڑے مار ادویات ہیں ۔ کپاس کی کاشت کے بیشتر علاقے پر سیلاب اور سفید مکھی کے حملے نے کھڑی شاندار فصلوں کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے جس سے نہ صرف چھوٹے کاشتکاربلکہ زراعت پر انحصار
کرنے والے تمام کاروبار بری طرح متاثر ہوں گے ۔ غذائی ضروریات کے لیے ہمیں پہلے ہی گندم اور دیگر اجناس درآمد کرنا پڑتی ہیں روس یوکرائن کی جنگ کی وجہ سے عالمی منڈی میں اناج خاص طور پر گندم کی قیمتوں میں اضافہ ہوچکا ہے جس کا بوجھ عوام کو ہی اٹھانا پڑے گا زیادہ عرصہ نہیں گزرا کہ پاکستان کپاس کی پیداوار کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک تھا گندم چاول اور دیگر غذائی اجناس کی ٹھیک ٹھاک پیداوار تھی مگر اب ہر فصل کی تباہی اور پیداوار میں کمی نے کاشتکاروں پر مایوسی اور نا امیدی کی فضا قائم کر رکھی ہے حالیہ جی 20 کانفرنس ہو کامن ویلتھ یوتھ منسٹرز کانفرنس یا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا سالانہ اجلاس سب کا مرکزی نقطہ ماحولیات کی تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کا سد باب کرنا اور آئندہ ان حالات سے نبر دآزما ہونے کے لیے پیشگی تیاری کرنا تھا ۔اس بات کو عالمی سطح پر تسلیم کیا جا چکا ہے کہ کرہ ارض کو آئندہ سالوں میں بہت سے خطرات لاحق ہیں جن کی جڑ ماحولیاتی تبدیلی میں پنہاں ہے مگر ماحولیاتی انصاف کی طرف توجہ نہیں دی جارہی یعنی ماحول کو تباہی کے اس موڑ تک لانے میں کن ممالک کا زیادہ کر دار ہے یعنی کچھ ممالک آلودگی کی بنیادی وجہ بننے والی گیسوں کے اخراج زریعے زمین کو نقصان پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کر رہے ہیں جس کا خمیازہ ترقی پزیر ممالک کے پسماندہ طبقات کو بھگتنا پڑتا ہے ۔ کم وسائل رکھنے والے ترقی پزیر ممالک اس خرابی کے سب سے کم زمہ دار ہیں مگر متاثرین میں سر فہرست ہیں ۔اب اس کا جائزہ لیں کہ ان تبدیلیوں سے خطے کے دوسرے ممالک بھی متاثر ہو رہے ہیں مگر انہوں نے بر وقت اقدامات کے زریعے کم از کم خوارک کے معاملے میں تقریبا خود کفیل ہیں ۔ سب سے بڑی مثال باسکٹ کیس کہلانے والے ملک بنگلہ دیش کی ہے جس نے روائتی فصلوں چاول، گندم مکئی کے علاوہ دیگر کئی فصلوں کو موسم کی مناسبت اور موافقت کے اعتبار سے متعارف کروایا جس کے زریعے کسان کے معاشی حالات میں بہتری آئی اور ستر کی دھائی میں قحط کا شکار بنگلہ دیش آج خوارک کے معاملے میں خود کفیل ہے ۔یعنی یہ بات تو طے ہے کہ پانی کی کمی اور روز بروز بگڑتی موسمیاتی کیفیات کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا اور موافقت کے نئے طریقے در یافت کر کے عملی
میدان میں ان کا اطلاق کرنا بے حد ضروری ہے اگر غور کریں تو گزشتہ چند برسوں سے بحیرہ عرب اور بحر الہند میں سائیکلون بننے اور طوفان آنے میں بے حد تیزی آگئی ہے یعنی اتنی تیزی کہ اکثر طوفانوں کے نام بھی یاد رہتے ہیں ملک کے درجہ حرارت میں بے پناہ اضافہ اور موسم گرما کا دورانیہ طویل تر ہوتا جارہا ہے ۔ زمین کے نظام تنفس کو برقرار رکھنے اور سیلاب زلزلوں خشک سالی اور دیگر موسمیاتی اور ماحولیاتی مسائل کے تدارک کے لیے جنگلات کا ہونا بے حد ضروری ہے اور پاکستان میں جنگلات پانچ فیصد سے بھی کم ہیں ۔ ماہرین ماحولیات اس بات پر متفق ہیں کہ زمین کو درپیش تمام مسائل کا حل متفقہ مربوط لائحہ عمل میں ہے مگر کیا ہم ان مسائل پر قابو پانے کے لیے سنجیدہ ہیں خوراک اور توانائی کے حصول کے لیے بے ضرر اور ماحول دوست متبادل تلاش کرنا بےحد اہم ہے ۔ توانائی کے لیے ہوا ، پانی اور شمسی توانائی کا بھر پور استعمال کیا جا سکتا ہے اور خوراک اور کسانوں کے معاشی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ نئے اور بدلتے تقاضوں اور موسم کی مناسبت سے نئے بیج متعارف کروائے جائیں اور اس کے لیے حکومتی سر پرستی میں ماڈل فارمز بنائے جائیں ۔ معلومات نہ ہونے اور نقصان کے ڈر سے چھوٹا کاشتکار نئے تجربات سے گھبراتا ہے یہ سب اسی وقت ممکن ہے کہ ماحولیات کے لیے بنائے گئے درجن کے قریب ادارے منظم اور مربوط ہو کر اس سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ دیں ۔ان مسائل پر تحقیق کی جائے اور پھر تحقیق کو عملی میدان میں لانے کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے تاکہ فصلوں کی پیداوار بڑھائی جائے۔ زرعی سائنس دنیا میں ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکی ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور چھوٹے کاشتکار کی معاشی ترقی سے ہی پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے معلومات نہ ہونے اور نقصان کے ڈر سے چھوٹا کاشتکار نئے تجربات سے گھبراتا ہے یہ سب اسی وقت ممکن ہے کہ ماحولیات کے لیے بنائے گئے درجن کے قریب ادارے منظم اور مربوط ہو کر اس سنجیدہ مسئلے کی طرف توجہ دیں ۔ان مسائل پر تحقیق کی جائے اور پھر تحقیق کو عملی میدان میں لانے کا خاطر خواہ انتظام کیا جائے تاکہ فصلوں کی پیداوار بڑھائی جائے۔ زرعی سائنس دنیا میں ایک انڈسٹری کی صورت اختیار کر چکی ہے پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور چھوٹے کاشتکار کی معاشی ترقی سے ہی پاکستان کی اقتصادی ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔