کوشش اس بار بھی یہی کی ہے کہ وطن عزیز کے حوالے سے معیشت کی بحالی‘ سیاسی بے یقینی کے خاتمہ‘ مہنگائی میں فوری ریلیف اور سفید پوش شہریوں کے چینی اور بجلی‘ گیس کے بھرم کو قائم رکھنے کے بارے میں کوئی اچھی اور مثبت خبر تلاش کر پا?ں جس سے کم از کم غریب دیہاڑی دار کو قدرے سکون نصیب ہو سکے مگر افسوس! کامیابی اس مرتبہ بھی نہیں حاصل ہو سکی۔ تاہم قومی سیاست کے حوالے سے ایک قدرے اچھی خبر ضرور ملی ہے جس کا ذکر آگے چل کر۔
بجلی بلوں سے متاثرہ صارفین کو نگران حکومت سے یہ بھرپور توقع تھی کہ بھاری بلوں پر انہیں بھرپور ریلیف دیا جائیگا تاکہ اپنے بال بچوں کا وہ پیٹ پال سکیں مگر افسوس! تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آئی ایم ایف پاکستان کو مبینہ طور پر کوئی بھی رعایت دینے کیلئے اس وقت تک تیار نہیں جب تک حکومت اور آئی ایم ایف کے مابین طے شدہ پلان عملی طور پر سامنے نہیں لایا جاتا۔ آئی ایم ایف کا موقف ہے کہ بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے منصوبے کے پیکیج کی لاگت حکومت پاکستان کے دیئے اعداد و شمار سے چونکہ کہیں زیادہ ہے‘ اس لئے اس بارے میں حکومت کو اپنا ”سالڈ پلان“ پیش کرنا ضروری ہے۔ اس فیصلے پر حکومت پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کو مبینہ طور پر بجلی بلوں کی گنجائش پوری کرنے کیلئے پندرہ ارب روپے کا منصوبہ پیش کیا گیا جس کے بارے میں آئی ایم ایف نے اب مزید وضاحت مانگ لی ہے۔ انتہائی آسان اور سادہ ترین الفاظ میں نتیجہ یہ نکلا کہ آئی ایم ایف نے حکومت کے بتائے اعداد و شمار اور منصوبہ پر اتفاق نہیں کیا جس سے یہ بات اب عیاں ہے کہ بجلی بلوں کی ادائیگی کا معاملہ مزید گھمبیر صورت اختیار کرنے جا رہا ہے۔انہی سطور میں متعدد بار پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جب تک پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد نہیں ہوتا‘ ڈوبتی معیشت اور عوام کی خوشحالی میں اس وقت تک استحکام پیدا ہونا ممکن نہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین ہونی چاہیے کہ آئی ایم ایف سے ترقی پذیر ممالک ہی صرف قرضے حاصل نہیں کرتے بلکہ ترقی یافتہ ممالک جن میں امریکہ سرفہرست ہے‘ بھاری قرضوں کی بدولت اپنے معاشی‘ اقتصادی اور جدید ترقیاتی منصوبوں میں بھی خودکفیل ہوتے ہیں جبکہ دوسری جانب بیشتر ترقی پذیر ممالک حاصل کئے قرضوں کے ”چیک اینڈ بیلنس“ تک کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ اسے ہم اپنی قومی بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کا شمار بھی آج ان قرض نادہندگان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں قرض کی واپس ادائیگی کے نا م پر اپنی قومی عزت و وقار تک کو داﺅپر لگانا پڑ رہا ہے۔
اسی تناظر میں شاید ہمارے آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب نے اگلے روز ملک کے تاجروں کے ایک وفد سے خصوصی ملاقات کے دوران انہیں یقین دہانی کرائی کہ پاکستان کی معاشی بدحالی کے خاتمہ اور غیریقینی حالات سے دوچار کمزور معیشت کو سہارا دینے کیلئے برادر ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے بہت جلد سو ملین ڈالرز کی سرمایہ کاری اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہونے جا رہی ہے۔ آرمی چیف کا یہ اقدام بلاشبہ ملک و قوم کیلئے خوش آئند ہے۔ ملک میں سرمایہ کاری بلاشبہ قوم کی اب اولین ضرورت ہے تاہم آرمی چیف جنرل عاصم منیر صاحب نے ملکی سرمایہ کاری کیلئے جس درد دل سے قدم اٹھایا اور کرپشن کے خاتمہ کیلئے وہ جو مثبت اقدامات اٹھا رہے ہیں‘ منی لانڈرز اور ملکی دولت بیرون ممالک لے جانے والوں کیخلاف بھی سخت اقدامات اٹھاتے ہوئے وہ اسی طرز پر لائحہ عمل تیار کرتے ہوئے قومی سرمائے کو واپس لانے کے عمل کو یقینی بنائیں تاکہ اس خداداد مملکت کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے چنگل سے ہمیشہ کیلئے آزاد کروایا جا سکے۔ یہاں مجھے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی کرپشن انڈکس رپورٹ کا حوالہ اس لئے بھی دینا ہے تاکہ موجودہ نگران حکومت اس سلسلہ میں ملک کی ترقی میں حائل کرپشن کے فوری خاتمے کیلئے اقدامات کر سکے۔ ”کرپشن پریپیشن انڈکس برائے 2022ئ “ میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں 140ویں نمبر پر ہے اور معاملہ یہاں ہی محدود نہیں بلکہ 25 فیصد تعداد ان لوگوں کی ہے جو پبلک سروس ملازمتوں کے حصول کیلئے آج بھی بھاری رشوت دے رہے ہیں۔
اب آخر میں ذکر قدرے اچھی خبر کا۔ جی ہاں! لفظ ”قدرے“ کا استعمال اس لئے کرنے جا رہا ہوں کہ ہماری ویسٹ منسٹر طرز پر قائم رول ماڈل جمہوریت میں کسی وقت کیا سے کیا ہو جائے۔ ”رات جمہوری“ اور اگلا دن ”غیرجمہوری“ ہو جائے۔ قوم کے 76 برس گزرنے کے باوجود تاہنوز نہیں جان پائی اور یہی وہ سیاسی المیہ ہے‘ قوم آج جس سے دوچار ہے۔
پاکستان کے تین مرتبہ کے وزیراعظم اور مسلم لیگ (نون) کے قائد میاں محمد نوازشریف جو بعض سنگین مقدمات کے سلسلے میں سزا کاٹ رہے تھے‘ دوران قید مبینہ طور پر انہیں پلیٹلیٹس مرض کی شدید تکلیف ہوئی جس پر پی ٹی آئی حکومت کی رضامندی کے ساتھ عدالت عظمیٰ نے انہیں بغرض علاج مشروط طور پر لندن جانے کی اجازت دے دی۔ یوں وہ لندن میں چار برس قیام کرنے کے بعد 21 اکتوبر بروز ہفتہ واپس وطن عزیز روانہ ہو رہے ہیں۔ انکی صحت الحمدللہ اب قابل رشک ہے۔ چند ماہ قبل مجھے انکے ہمراہ انکے بیٹے کے دفتر میں نماز جمعہ ادا کرنے کا موقع ملا۔ جہاں میاں صاحب نے کرسی پر بیٹھ کر نماز جمعہ ادا کی۔ اس خوشخبری کے بعد اپنے قائد کے استقبال کیلئے کارکنان بے تابی سے منتظر ہیں۔