سکھ رہنما ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال نے بھارت کے لیے بین الاقوامی سطح پر بہت سے مسائل کو جنم دیا ہے۔ پہلے تو بھارت نے اس معاملے کے حوالے سے کینیڈا کو آنکھیں دکھانا شروع کردی تھیں لیکن اب امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے کینیڈا کا ساتھ دینے کے بعد بھارت کو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوگیا ہے کہ اس مسئلے سے اس کی جان آسانی سے چھوٹنے والی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس معاملے پر پوری طرح خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور ان کی طرف سے ابھی تک ایک بھی بیان سامنے نہیں آیا۔ لیکن بھارتی ٹیلیویژن چینلوں پر بیٹھے لوگ کینیڈا کے خلاف مسلسل زہر اگل رہے ہیں اور مختلف نوعیت کی دھمکیاں دے کر ایک طرف تو بھارت کے مسائل میں اضافہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور دوسری جانب بھارتی عوام کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔
اس سلسلے میں بھارت کی پریشانی میں اضافے کا ایک بڑا سبب امریکا، برطانیہ، آسٹریلیا، کینیڈا اور نیوزی لینڈ کے مشترکہ انٹیلی جنس ادارے ’فائیو آئیز‘ کی تحقیقات ہیں جن میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ بھارت ہی ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔ انھی تحقیقات کی بنیاد پر کینیڈا کے وزیراعظم جسٹن ٹروڈو (Justin Trudeau) اپنی پارلیمنٹ کے اندر اور صحافیوں کے سامنے یہ بات ایک سے زائد بار کہہ چکے ہیں کہ ہمارے پاس اس قتل میں بھارت کے ملوث ہونے کے ’قابلِ اعتماد شواہد‘ موجود ہیں۔ پہلے تو بھارت ان شواہد کی موجودگی اور صحت سے بھی انکاری تھا لیکن اب امریکی جریدے نیویارک ٹائمز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکی خفیہ اداروں نے کینیڈا کو سکھ رہنما کے قتل سے متعلق معلومات فراہم کیں اور پھر کینیڈا نے بھارتی سفارت کاروں کی وہ کالز بھی ریکارڈ کر لیں جن میں مذکورہ قتل کے بارے میں بات چیت ہوئی تھی۔
اب اس قتل کی تحقیقات کے حوالے سے امریکا پوری طرح کینیڈا کا ساتھ دے رہا ہے اور اس کے اعلیٰ عہدیداروں کے جو بیانات اب تک منظر عام پر آئے ہیں ان سے واضح طور پر پتا چلتا ہے کہ آنے والے دنوں میں بھارت کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا۔ بھارت میں تعینات امریکی سفیر ایرک گارسیتی (Eric Garcetti) بھی اس معاملے میں صاف انداز میں یہ کہہ چکے ہیں کہ مذکورہ قتل سے متعلق الزامات سنجیدہ نوعیت کے ہیں، لہٰذا اس میں ملوث افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جانا چاہیے۔ ادھر، کینیڈا میں امریکی سفیر ڈیوڈ کوہن (David Cohen) تو کھل کر کہہ رہے ہیں کہ ’فائیو آئیز‘ نے اس قتل کے معاملے میں خفیہ معلومات تک رسائی کے سلسلے میں کینیڈا کی جو اعانت کی ہے اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ بھارتی حکومت ہی ہردیپ سنگھ نجر کے قتل میں ملوث ہے۔
بھارتی حکومت نے اس معاملے میں حقائق چھپاتے ہوئے بار بار یہ کہا کہ کینیڈا نے ہمارے ساتھ اس حوالے سے کوئی بات کی ہی نہیں اور الزام تراشی شروع کردی، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ کینیڈا کے قومی سلامتی کے مشیر جوڈی تھامس (Jody Thomas) پچھلے مہینے دو بار بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں آکر اپنے بھارتی ہم منصب اجیت کمار ڈووال سے ملے اور ان سے اس بارے میں بات چیت کی۔ ظاہر ہے دونوں ملکوں کے اتنے اہم عہدیداروں کے مابین ہونے والی اس گفتگو کے دوران صرف قیاس آرائیاں تو نہیں ہوئی ہوں گی بلکہ کینیڈا کے قومی سلامتی کے مشیر نے کچھ ایسے ٹھوس شواہد اپنے بھارتی ہم منصب کے سامنے ضرور رکھے ہوں گے جن پر بھارت کو توجہ دینے کی ضرورت تھی لیکن ایسا نہیں کیا گیا بلکہ بھارت نے الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق کینیڈا پر الزامات لگانا شروع کردیے کہ وہ اپنے ہاں خالصتان تحریک سے وابستہ علیحدگی پسندوں کی حمایت کررہا ہے۔
رواں مہینے کی 9 اور 10 تاریخ کو نئی دہلی میں گروپ آف ٹونٹی یا جی ٹونٹی کا جو اجلاس ہوا اس میں بھی کچھ رہنماو¿ں نے بھارتی وزیراعظم سے براہِ راست اس بارے میں بات کی ۔ اس سب کے باوجود بھارت کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ یہ معاملہ صرف ایک قتل کا نہیں ہے بلکہ کینیڈا اسے اپنی سالمیت اور خود مختاری پر حملہ مانتا ہے اور اس حوالے سے طاقتور مغربی ممالک اس کے ساتھ کھڑے ہیں کیونکہ کینیڈا صرف امریکا کا ہمسایہ ہی نہیں ہے بلکہ نیٹو اور فائیو آئیز سمیت وہ کئی اہم اتحادوں میں اس کے ساتھ ایسے تعلق میں بندھا ہوا ہے جو امریکا کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ ویسے بھی کینیڈا جو کچھ کہہ رہا ہے وہ محض الزامات تو نہیں ہیں اور اس بات کی تحقیق خود امریکا بھی کرچکا ہے۔ اسی لیے اس کے سفیروں سے لے کر قومی سلامتی کونسل کے کوآرڈینیٹر برائے تزویراتی مواصلات جان کربی (John Kirby)، مشیر برائے قومی سلامتی جیک سلیوان (Jake Sullivan) اور وزیر خارجہ انٹونی بلنکن (Antony Blinken) تک سبھی ایسے بیانات دے چکے ہیں جن میں واضح طور پر کینیڈا کی حمایت دکھائی دیتی ہے۔
بھارت اب تک خطے کے مختلف ملکوں میں دہشت گردی کی وارداتیں کرا کے یہ سمجھتا رہا ہے کہ وہ اتنا طاقتور ہوچکا ہے کہ کوئی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ اسی طاقت کے نشے میں مست ہو کر اس نے کینیڈا کی سرزمین پر بھی دہشت گردی کی لیکن اسے یہ اندازہ نہیں تھا کہ یہ واقعہ اسے کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔ اب کینیڈا اور فائیو آئیز انٹیلی جنس ایجنسی کے رکن دیگر چار ممالک ہردیپ سنگھ نجر کے قتل کے معاملے کو جس سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں وہ بھارت کے لیے پریشانی کا سبب بن رہی ہے۔ بھارت چاہتا تو ہے کہ یہ معاملہ جلد از جلد نمٹ جائے لیکن اس کی طرف سے اب تک اس معاملے میں ایسا کوئی اقدام نہیں کیا گیا جس سے واقعی پتا چلے کہ وہ کینیڈا سے اس قتل کی تحقیقات کے سلسلے میں تعاون کرنا چاہتا ہے۔ بھارت نے اگر جلد اس معاملے کو نہ نمٹایا تو ہر گزرتا دن اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کرے گا۔