یہ آپ کا اسوئہ حسنہ ہی ہے جس کی وجہ سے ہمیں آپ سے فیض یاب ہونے والوں میں عربی بھی ملتے ہیں اور عجمی بھی ، کریم اور شجاع بھی ملتے ہیں اور بوڑھے بھی ، بادشاہ بھی ملتے ہیں اور فقیر بھی۔ ہمیں زندگی کے کسی شعبہ میں بھی رہنمائی چاہیے ہو وہ رسول اللہ کے اسوئہ حسنہ سے مل جاتی ہے۔ آپ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین کو جو بھی حکم دیا اس پر خود بھی قول و فعل سے عمل کر کے دکھایا۔میدان جنگ ہو یا پھر مسجد کی تعمیر ، بوڑھوں، بے سہاروں کی مدد کرنی ہو یا پھر دوران سفر پڑاﺅ ڈالنے کے لیے خیمے نصب کرنے ہوں۔ حضور نبی کریم ہر وقت اور ہر کام میں اپنے صحابہ کے ساتھ پیش پیش ہوتے تھے۔نبی اکرم ایک مرتبہ سفر سے واپس آ رہے تھے کہ راستے میں ایک جگہ پڑاﺅ ڈالا تو سب صحابہ کرام کی ڈیوٹی لگائی۔ کوئی خیمے نصب کر رہا ہے تو کوئی پانی بھر کر لا رہا ہے اور کوئی کھانا بنانے میں مصروف ہے۔ حضور نبی کریم چپکے سے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ تھوڑ ی دیر بعد صحابہ کرم حضور کو اپنے درمیان نہ دیکھ بے چین ہو جاتے ہیں اور تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد صحابہ کرام کو نبی اکرم واپس آتے ہوئے نظر آتے ہیں جب آپ قریب ہوتے ہیں تو صحابہ کرام دیکھتے ہیں کہ حضور نبی کریم جنگل سے لکڑیاں اکٹھی کر کے لا رہے ہیں۔ صحابہ نے عرض کی حضور آپ نے اتنی مشقت کیوں اٹھائی ہم آپ کے غلام اس خدمت کے لیے کافی نہ تھے ؟ نبی اکرم نے فرمایا تم سب کام کر رہے تھے میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ میں معتبر بن کر بیٹھا رہوں۔ یہ جواب سن کر صحابہ کرام کا ایمان اور یقین اور پختہ ہو گیا۔میدان خندق میں صحابہ کرام خندق کھودنے میں مصروف تھے تو نبی اکرم بھی ہاتھ میں کدال لیے کبھی پتھریلی زمین کھود رہے ہیں تو کبھی مٹی سے بھری ہوئی ٹوکری اٹھا کر باہر پھینک رہے ہیں۔ حضور نبی کریم کی عملی زندگی کی یہ ہی ادائیں تھیں جنہوں نے عرب کے بدوﺅ ں کو اسلا م کا گرو دیدہ بنا دیا تھا۔ آج بھی اگر ہم چاہتے ہیں کہ اسلام کی دعوت تیزی سے پھیلے اور دعوت حق کا پیغام دنیا میں ہر سو پھیل جائے تو ہمیں چاہیے کہ اپنی عملی زندگی کو رسول اللہ کے اسوئہ حسنہ کے مطابق ڈھال لیں۔ جب تک ہم اپنی زندگیوں کو سیرت طیبہ کے مطابق نہیں ڈھالیں گے تب تک ہم فریضہ تبلیغ اچھی طرح ادا نہیں کر سکتے اور نہ ہی اپنی بات کو لوگوں کے دلوں میں ڈال سکتے ہیں۔