تخریب کاری سے آبی دہشت گردی تک: بھیانک بھارتی کردار 

Sep 28, 2024

عباس ملک

عباس نامہ …عباس ملک
bureauofficeisb@gmail.com

 5 ستمبر کو ترجمان پاک فوج نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ واضح کردیا تھا کہ دہشت پسندوں کے نیٹ ورک کے دن گنے جا چ?کے اور آخری دہشت گرد اور ا?ن کے سہولت کار خواہ وہ زمینی کاروائیوں میں شامل ہوں یا پھر سوشل میڈیا کے ذریعے ڈیجیٹل دہشت گردی میں ملوث ہوں پاک فوج ا?ن کو کیفر کرادار پہنچانے تک آرام سے نہیں بیٹھے گی۔ریٹائرڈ میجرساجد مسعود صادق نے کچھ دن قبل درست لکھاکہa س سال بلوچستان کے 750 ارب روپے کے بجٹ میں سے 520 ارب وفاق ( 70 فیصد )نے دیا، 254 ارب روپے سالانہ کی ب?نیاد پر منافع اور رائیلٹی حکومت بلوچستان کو ملی، 1997 میں بلوچستان میں موجود 375 کلو میٹر لمبی سڑک آج 25 ہزار کلومیٹر اور 8 قومی شاہراہوں پر م?شتمل ہے۔ اسی طرح تعلیم کی بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 73 ہزار بلوچی بچے بچوں کا سکالرشپ پر پاکستان اور بیرون ملک تعلیم حاصل کررہے ہیں، کثیر تعداد میں ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹس، 13 کیڈٹ کالجز ، سی پیک، گوادر ایئر پورٹ جیسے بڑے پراجیکٹس، خوشحال بلوچستان ، ڈیم و سولر پینل جیسے منصوبوں، اور بلوچ سیاسی پارٹیوں کی صوبائی اور وفاقی سیاست میں شمولیت، 17 بلوچی وزیر اعلی، وزرائے اعظم، چیف جسٹس، چیئرمین سینٹ، اسپیکر قومی اسمبلی اور عدلیہ، فوج اور بیوروکرسی میں اعلٰی عہدوں کے ہوتے ہوئے احساسِ محرومی کی بات نامعقول لگتی ہے۔ یہ درست ہے کہ ان ساری مذموم سرگرمیوں کے پس پردہ بھارتی حکمران اور دشمن کی خیہ ایجنسی ''را'' ملوث ہے۔ بنگلہ دیش اور پاکستان میں تخریب کاری سے آبی دہشت گردی تک سب میں بھارت کا مرکزی اور بھیانک کردار ہے۔بھارت دانستہ طور پر ان دریاو¿ں میں پانی چھوڑ رہا ہے تاکہ بنگلہ دیش اور پاکستان کی معاشی اور معاشرتی صورتحال میں ابتری پیدا کر سکت دریائے گومتی پر بھارت کے ڈمور ڈیم سے غیر اعلانیہ طور پت پانی کااخراج جاری ہے اور اس غیر اعلانیہ اخراج سے بنگلہ دیش کے مشرقی علاقوں میں سیلابی صورتحال جاری ہے۔مبصرین کے مطابق کسے معلوم نہیں کہ ہمسایہ ممالک میں غیر اعلانیہ پانی چھوڑنا بھارت کا پرانا وطیرہ ہے جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر سیلاب اور تباہی پھیلتی ہے اوراسی ضمن میں قابل ذکر بات یہ ہے کہ اس ساری صورتحال میں بنگلہ دیشی عہدیداروں اور میڈیا نے ڈیم سے غیر اعلانیہ پانی چھوڑنے پر بھارت کو مودر الزام ٹھہرایا ہے۔یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں یہ سیلاب 37 سال میں بدترین قرار دیا گیا ہے جس نے کئی اضلاع میں تباہی مچادی ہے اور تقریباً 30 لاکھ سے زیادہ افراد کو بے گھر کردیا ہے جبکہ بھارت کی وزارت خارجہ (ایم ای اے) نے اس الزام کی ذمہ داری کی تردید کی ہے اور بھارت نے سیلاب کو شدید بارش سے منسوب کیا ہے اور اس ضمن میں بھارت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ڈیم سے پانی کا اخراج معمول کے مطابق ہے اور اس ضمن میں ریئل ٹائم ڈیٹا کو بنگلہ دیش کے ساتھ شیئر کیا گیا تھا۔بھارت اور بنگلہ دیش کے مابین سیلاب کے اعداد و شمار کے اشتراک کے لئے موجودہ پروٹوکول کے بارے میں سوالات اٹھنا شروع ہوگئے ہیں۔دوسری جانب غیر جانبدار حلقوں نے زور دے کر کہا ہے کہ جنوبی افریقہ میں بڑھتی ہوئی ہندو قوم پرستی نے سماجی ہم آہنگی کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور اس تناظر میں وشوا ہندو پریشد ا جنوبی افریقہ میں مذہبی پولرائزیشن کو ہوا دے رہے ہیں۔ڈربن میں بین المذاہب دعائیہ اجتماع میں بڑھتا ہوا تناو¿ تشویشناک ہے اورفینکس اور ڈربن میں بڑھتا احتجاج عالمی برادری کو اپنی جانب متوجہ کررہا ہے۔اس ضمن میں غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ ہندو قوم پرست سوشل میڈیا کو تفرقہ انگیز بیان بازی اور انتشار پھیلانے کے لیے عرصہ دراز سے ا ستعمال کرتے آرہے ہیں اور اسی حوالے سے جنوبی افریقہ میں مقیم ہندو رہنما انتہائ پسند نظریات کو فروغ دینے کیلئے تمام وسائل بروئے کار لا رہے ہیں۔غیر جانبدار حلقوں نے کہا ہے کہ جنوبی افریقہ میں مقیم ہندو قوم پرستی کے اثرات عالمی برادری کے لئے لمحہ فکریہ ہونے چاہیں کیوں کہ بڑھتی ہندوانتہاپسندی سب کیلئے باعث تشویش ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ 2017?2021 کے درمیان متعدد مقدمات میں بھارتی فوج کے افسران کو منشیات کی اسمگلنگ کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اور اس ضمن میں انکشاف سامنے آیا ہے کہ بھارتی آرمی کے اہلکار مبینہ طور پر مقامی منشیات کے سمگرز کے ساتھ باقاعدہ طور پر شامل ہیں اور ایل او سی میں منشیات کی نقل و حمل کے لئے فوجی وسائل کا استعمال کرتے ہیں اور یہ سب کام بڑے منظم طور پر کیا جا تا ہے۔اس ضمن میں یہ بات بھی اہم ہے کہ اس حوالے سے ہندوستانی قانون میں کورٹ مارشل موجود ہے لیکن بدعنوانی اور استثنیٰ کے ساتھ شفافیت اور احتساب کے بارے میں خدشات پائے جا تے ہیں۔ یاد رہے کہ اسی حوالے سے عالمی اداروں کی اس معاملے میں توجہ نارکو اسمگلنگ میں ہندوستانی فوجیوں کی ملوث ہونے کے شواہد کو اجاگر کرتی ہے مگر اس حوالے سے ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی سطح پر ان بھارتی سازشوں کو بے نقاب کیا جائے۔ ما ہرین کی رائے ہے کہ منشیات کی عالمی اسمگلنگ میں بھارتی افواج کے ملوث ہونے کی موجودہ تحقیقات مستقبل کے اقدامات کے تعین کے لئے انہتائی اہم ہیں۔ مبصرین نے اس امر کو انتہائی اہم قرار دیا ہے کہ بھارت انسانی حقوق کی رپورٹ نہ جمع کرنے میں دانستہ طور پر تاخیری حربے استعمال کر رہا ہے اور اس ضمن میں قوام متحدہ نے انسانی حقوق کی رپورٹ نہ جمع کرنے پر بھارت کی سرزنش بھی کی ہے۔یاد رہے کہ یہ رپورٹ 2001 سے التواء میں ہے اور بھارت شرمند گی سے بچنے کے لیے مسلسل تاخیر ی حربے استعمال کرتا آیا ہے اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔ بھارت کو 1997?2022 تک انسانی حقوق کی سفارشات پر عمل درآمد کرنا تھا لیکن اس میں ناکامی پر بھارت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیو ں کہ عالمی اداروں کی جانب سے رپورٹ میں ہندوستانی خواتین کے حقوق کے قوانین کے ناکافی نفاذ پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے

مزیدخبریں