ٹیکنالوجی گورننس اورپاکستان

ڈاکٹر ناصر خان

ٹیکنالوجی گورننس سے مراد وہ اصول، پالیسیاں، اور قوانین ہیں جن کے ذریعے حکومتیں اور ادارے ٹیکنالوجی کے استعمال کو منظم کرتے ہیں تاکہ جدت طرازی کو پائیدار، محفوظ، اور سماجی لحاظ سے قابل قبول بنایا جا سکے۔ اس میں ڈیجیٹل حقوق، ڈیٹا کی حفاظت، سائبر سیکیورٹی، اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے اثرات کو منظم کرنے کے طریقے شامل ہیں۔ ٹیکنالوجی گورننس کا مقصد نہ صرف ٹیکنالوجی کے مثبت فوائد کو فروغ دینا ہوتا ہے بلکہ اس کے منفی اثرات جیسے کہ پرائیویسی کی خلاف ورزی، سائبر حملے اور معاشرتی ناہمواریوں کو کم کرنا بھی ہوتا ہے۔ یہ گورننس فریم ورک مختلف اسٹیک ہولڈرز جیسے حکومتوں، نجی شعبے، اور عام عوام کے مابین توازن پیدا کرتا ہے تاکہ ٹیکنالوجی کا منصفانہ اور موثر استعمال ممکن ہو سکے۔
متعدد ممالک مو¿ثر ٹیکنالوجی گورننس کے نفاذ میں نمایاں کردار ادا کر رہے ہیں، جو کہ ٹیکنالوجی کی جدت کو پائیدار اور مساوی بناتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایسٹونیا کو عالمی سطح پر ای-گورننس کا رہنما سمجھا جاتا ہے، جہاں ڈیجیٹل آئی ڈیز، ای-ووٹنگ اور ای-ریزیڈنسی متعارف کرائے گئے ہیں، جس کی بدولت ایک مکمل ڈیجیٹائزڈ حکومتی فریم ورک کے ذریعے عوامی خدمات کو باآسانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ اس ملک کی محفوظ ترین انفراسٹرکچر 99% عوامی خدمات کو آن لائن رسائی کے قابل بناتی ہے۔ اسی طرح، سنگاپور نے ڈیٹا گورننس، سمارٹ ٹریفک مینجمنٹ، اور ای-گورننس حلوں پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے خود کو ایک سمارٹ سٹی کے طور پر قائم کیا ہے، جس کی بنیاد "سمارٹ نیشن" منصوبے پر رکھی گئی ہے۔ یہ منصوبہ عوامی خدمات، شہری منصوبہ بندی، اور سائبر سیکیورٹی میں ڈیجیٹل ٹولز کے موثر استعمال کو یقینی بناتا ہے۔
ڈنمارک بھی ٹیکنالوجی گورننس میں نمایاں ہے، خاص طور پر ڈیٹا پرائیویسی اور سائبر سیکیورٹی کے میدان میں۔ ڈنمارک کی ڈیجیٹل تعلیم اور انفراسٹرکچر پر زور نے ایک شفاف اور شہری مرکوز گورننس ماڈل تیار کیا ہے، جسے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن (GDPR) جیسے مضبوط ڈیٹا پروٹیکشن فریم ورک کی حمایت حاصل ہے۔ جنوبی کوریا اپنی جدید ترین ٹیکنالوجی انفراسٹرکچر، خاص طور پر 5G کی تعیناتی اور مصنوعی ذہانت کے ضوابط میں، نمایاں حیثیت رکھتا ہے، جو اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ جدت اخلاقی اور قانونی معیارات کے مطابق ہو۔ یہ ممالک اس بات کی مثال ہیں کہ کس طرح اسٹریٹجک گورننس، ٹیکنالوجی کی ترقی کو فروغ دینے کے ساتھ ساتھ شہریوں کے مفادات کو محفوظ اور قابل رسائی نظام کے ذریعے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی گورننس ایک انتہائی اہم موضوع بن چکا ہے، کیونکہ ملک میں ڈیجیٹلائزیشن کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ دنیا کے دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح پاکستان بھی ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی راہ پر گامزن ہے، مگر اس ترقی کو منظم اور موثر بنانے کے لیے بہتر گورننس کی ضرورت ہے۔ 2024 کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 195 ملین موبائل صارفین اور 124 ملین انٹرنیٹ صارفین ہیں۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا مظہر ہیں کہ ٹیکنالوجی کا استعمال عوامی زندگی اور معیشت میں ایک بنیادی حیثیت اختیار کر چکا ہے، مگر اس کے ساتھ ساتھ اس کے استعمال کے لئے بہتر قانون سازی اور نظم و نسق کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں ڈیجیٹل گورننس کا ایک بڑا مسئلہ پرانے قوانین اور ضوابط ہیں جو تیزی سے بدلتی ہوئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہیں۔ اگرچہ حکومت نے "ڈیجیٹل پاکستان" جیسے منصوبے شروع کیے ہیں تاکہ ملک میں ٹیکنالوجی کے فروغ کو یقینی بنایا جا سکے، مگر ان اقدامات کے باوجود ملک میں ڈیٹا پروٹیکشن اور سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے قوانین میں کافی کمی پائی جاتی ہے۔ 2024 میں سائبر کرائمز میں 30 فیصد اضافہ ہوا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ موثر سائبر سیکیورٹی قوانین کا نہ ہونا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن بل کا تعطل بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے لوگوں کی پرائیویسی اور ڈیٹا چوری کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی گورننس کے حوالے سے ایک اور اہم مسئلہ ڈیجیٹل تقسیم (digital divide) ہے۔ شہروں میں انٹرنیٹ کی دستیابی 74 فیصد ہے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ شرح صرف 39 فیصد ہے۔ یہ فرق نہ صرف سماجی ناہمواریوں کو بڑھاتا ہے بلکہ تعلیم، صحت اور کاروباری مواقعوں میں بھی عدم مساوات پیدا کرتا ہے۔ دیہی علاقوں میں ڈیجیٹل خواندگی کی شرح 28 فیصد ہے، جو کہ شہری علاقوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ ٹیکنالوجی گورننس کا مقصد صرف بڑے شہروں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ اسے ملک کے پسماندہ علاقوں تک بھی لے جانا ضروری ہے تاکہ ہر شہری کو ڈیجیٹل مواقعوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملے۔
آخر میں، پاکستان میں نئی ٹیکنالوجیز جیسے 5G، مصنوعی ذہانت (AI)، اور بلاک چین کے انتظام کے لیے مناسب حکمت عملی کی اشد ضرورت ہے۔ 2024 میں پاکستان 5G ٹیکنالوجی کے آغاز کے قریب ہے، مگر اس کے حوالے سے ضوابط اور انصاف پر مبنی رسائی کے مسائل ابھی تک حل طلب ہیں۔ اسی طرح، مصنوعی ذہانت کے استعمال میں اخلاقیات اور پرائیویسی جیسے مسائل کو حل کرنے کے لیے بھی جامع پالیسیوں کی ضرورت ہے۔ اگر پاکستان ٹیکنالوجی گورننس کے حوالے سے ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہوتا ہے تو ملک کے معاشی اور سماجی شعبے میں انقلابی تبدیلیاں دیکھنے کو ملیں گی۔
پاکستان میں ٹیکنالوجی گورننس کے بہت سے فوائد ہیں جو ملک کی مجموعی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ایک مو¿ثر ٹیکنالوجی گورننس سے معاشی ترقی کی رفتار تیز ہو سکتی ہے کیونکہ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے کاروبار اور مالیاتی نظام زیادہ شفاف اور قابل اعتماد ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ، بہتر سائبر سیکیورٹی قوانین سے شہریوں کا ڈیٹا محفوظ رہتا ہے اور ہیکنگ، فراڈ، اور دیگر سائبر جرائم کی روک تھام ممکن ہوتی ہے۔ مزید برآں، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ٹیکنالوجی کا منظم استعمال شہریوں کو جدید سہولتیں فراہم کر سکتا ہے، جیسے آن لائن تعلیم اور ٹیلی میڈیسن، جو دیہی علاقوں تک بھی رسائی میں مددگار ثابت ہو سکتی ہیں۔ آخر میں، ٹیکنالوجی گورننس عوامی خدمات کو زیادہ مو¿ثر اور تیز تر بنا سکتی ہے، جس سے حکومتی نظام میں شفافیت اور عوام کا اعتماد بڑھتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن