سید روح الامین
(برادرم جناب طاہر حسین اور برادرم شاہد اقبال کا شکرگزارہوں جو تین دن قبل میرے
پاس سیالکوٹ سے تشریف لائے اور علمی و ادبی موضوعات پر سیر حاصل گفتگو کی گئی)
قائداعظم کی ذات گرامی کسی بھی ثنا خوانی اور رسمی اظہار عقیدت سے بہت ارفع اور بے نیاز ہے۔ مملکت پاکستان اور قائداعظم محمد جناح ایک ہی تحریک کے دو نام ہیں۔ پاکستان اور پاکستانی قوم کا وجود اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم کے بعد صرف اس ایک مرد مومن کی شبانہ روز محنت‘ خلوص‘ قابلیت اور فراست کا نتیجہ ہے۔ آپ نے جس کامیابی کے ساتھ پاکستان کو حاصل کیا وہ ایک مثال تاریخی کارنامہ ہے۔ جسے کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ قائداعظم کا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فرض شناس اور احساس مند پاکستانیوں کے دلوں کی دھڑکن بنا رہے گا۔ قائداعظم کے قومی زبان اردو کے بارے میں ارشادات روز روشن کی طرح عیاں ہیں اور وہ صرف اور صرف اس وقت پاکستان کے حکمرانوں سے عملاً نفاذ کے متقاضی ہیں۔ آپ کے چند ارشادات درج کئے جاتے ہیں جن سے پاکستان کی قومی زبان اردو کی اہمیت ازبر ہوتی ہے۔
ڈھاکہ میں جب چند نوجوانوں نے بنگلہ کے حق میں مظاہرے کئے یہ ایک ابتدائی چنگاری تھی جس کی تپش کو سب سے زیادہ بانی پاکستان نے محسوس کیا اور اس کی ابتدا ہی میں روکنے کے لئے اپنی علالت کے باوجود ایک پرانے ڈیکوٹہ طیارے میں سوار ہوکر سیدھے ڈھاکہ پہنچے اور وہاں انہوں نے اپنی دو تقریروں میں پاکستان کی قومی زبان کے بارے میں دو ٹوک بات کی اور شر انگیزوں کی فتنہ پردازیوں کو وقتی طور پر ر وک دیا۔
قائداعظم نے ۱۲ مارچ ۸۴۹۱ءکو ڈھاکہ جلسے میں عام تقریر کے دوران فرمایا۔
”میں آپ کو صاف صاف بتادوں کہ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے‘ اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کی زندگی پر کوئی غلط یا پریشان کن اثر پڑنے والا ہے۔ بالآخر اس صوبے کے لوگوں کو ہی حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ اس صوبے کی زبان کیا ہوگی۔ لیکن یہ میں آپ کو واضح طور پر بتادینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی اور صرف اردو اور اردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں۔ جو کوئی آپ کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ پاکستان کا دشمن ہے۔ ایک مشترکہ سرکاری زبان کے بغیر کوئی قوم باہم متحد نہیں ہوسکتی۔ اور نہ کوئی کام کرسکتی ہے۔ دوسرے ملکوں کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجئے پس جہاں تک پاکستان کی سرکاری زبان کا تعلق ہے وہ اردو ہی ہوگی۔ تین رورز بعد ۴۲ مارچ ۸۴۹۱ءکو ڈھاکہ یونیورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد کے موقع پر تقریر کرتے ہوئے قائداعظم نے فرمایا۔
”اس صوبے میں دفتری استعمال کے لئے‘ اس صوبے کے لوگ جو زبان بھی چاہیں منتخب کرسکتے ہیں۔ یہ مسئلہ خالصتاً صرف اس صوبے کے لوگوں کی خواہشات کے مطابق حل ہوگا۔ البتہ پاکستان کی سرکاری زبان جو مملکت کے مختلف صوبوں کے درمیان افہام و تفہیم کا ذریعہ ہو‘ صرف ایک ہی ہوسکتی ہے اور وہ اردو ہے اردو کے سوا اور کوئی زبان نہیں۔“
”اگر پاکستان کے مختلف حصوں کو باہم متحد ہوکر ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہونا ہے تو اس کی سرکاری زبان ایک ہوسکتی ہے اور وہ میری ذاتی رائے میں اردو اور صرف اردو ہے۔“
قائداعظم کے یہ ارشادات کس قدر ٹھوس اور وزنی دلائل کے حامل ہیں مگر افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم نے بانیان پاکستان کے دیگر فرامین کی طرح ان فرامین کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔ آئیے آج سے ہی اپنی ثقافت کی بقا کا عہد کریں احساس کمتری سے نکل کر اپنی قومی زبان اردو کی حفاظت کے سامان پیدا کرلیں۔ اردو بولیں‘ اردو لکھیں‘ اردو زبان کو اپنا ایک محب وطن اور فرض شناس پاکستانی ہونے کا ثبوت دیں۔ آج اردو زبان حال سے پوچھ رہی ہے کہ اقبال اور قائداعظم کے پاکستان میں کب تک اسے پس منظر کی جھلملیوں سے جھانک کر دیکھنا ہوگا۔ کہ وطن عزیز میں ایک غیر ملکی زبان اُس کی مسند پر جلوہ آراءہے اردو کا یہ مطالبہ ہرگز نہیں ہے کہ اس غاصب زبان کو دیس نکالا دیا جائے وہ تو صرف اپنا جائز قومی حق مانگتی ہے۔