نجمہ شاہین کتابی نہیں ایک پیدائشی شاعرہ ہے

سعیدہ افضل
جب میں نجمہ شاہین کھوسہ سے پہلی بار ملی تو معلوم نہ تھا کہ پھول جیسی یہ ناز ک سی شاعرہ اتنی توانا اور بھر پور شخصیت کی مالک ہو گی۔ پہلی ملاقات اسکے کلینک جان سرجیکل ہسپتال میں ہوئی تو سوچا تھا کہ نجمہ ایک معروف ڈاکٹر ہے اور اسکا وقت بہت قیمتی ہے۔ زیاد ہ سے زیادہ دس ،پندرہ منٹ بات ہوسکے گی۔ مگر اس روز ہی جب اس نے مجھے ”میں آنکھیں بند رکھتی ہوں “ کا مسودہ دکھایا تو اسے پڑھ کر میری آنکھیں کھل گئیں۔ 
اس قدر مشکل پیشے سے وابستہ ہونے کے باوجود کتنی یکسوئی کے ساتھ اس نے اپنے جذبو ں کو بہت با وقار طریقے سے مرصع مصرعوں کی صورت میں قلمبند کیا تھا۔ مجھے حیر ت ہوئی کہ خوش رنگ پھول جیسی ہنستی مسکراتی نرم و نازک یہ پری چہرہ کرب و اضطراب سے بھرے کتنے 
رت جگوں کابوجھ اپنی پلکوں پرلئے بیٹھی ہے
یہ تو ثابت ہے تخلیق کے لئے اضطراب کو جھیلنا شرط اولین ہے اور ان اضطراب بھرے رت جگوں کو جھیلنے کا حوصلہ 
اللہ تعالیٰ صرف اپنے ان بندوں کوعطاکرتاہے جن کووہ ہنر کی میراث بخشناچاہتاہے
پھرتوباتیں ہوتیں گئیں اوروقت گزرنے کااحساس بھی نہ ہوا
نجمہ تم اتنی مصروفیت میں کیسے شاعری کا جوکھم سر لیتی ہو؟ میں نے سوال کیا۔۔۔۔ جواب ملا۔۔۔آپا۔۔ بس لکھ لیتی ہوں کوشش نہیں کرتی اشعار خود بخو ذہن میں آتے ہیں اور آپ کو یہ جان کر۔۔۔ شاید حیرت ہو کہ میں عشا ئ کی نماز ختم کر لینے کے بعد بھی مصلے پر بیٹھی رہتی ہوں 
پھر سوچیں آتی جاتی ہیں اور میں انکو اشعار کی صورت لکھتی جاتی ہوں۔ 
کبھی آدھی رات تک۔۔۔کبھی صبح تک۔۔۔۔ تب مجھے لگا جیسے۔۔۔۔ اس کو اپنی ذات کی تلاش کے ساتھ ساتھ اس منعم کی تلا ش ہے۔ جو اسکی بے قرار روح کو سکون اور طمانیت کی دولت بخش دے۔ پھر تو مجاز اک بہانہ ہوا۔۔۔۔ کہ 
بقول علامہ اقبال۔۔۔۔
کبھی اے حقیقت منتظر نظر آََ لباس مجاز میں 
کہ ہزاروں سجدے تڑپ رہے ہیں مری جبین نیاز میں 
اصل بات تو ہے صداقت مطلق کی تلاش
یہ اضطراب یہ درد اور یہ بے چینی۔۔۔۔؟ جلد ہی پھر اسکا شعری مجموعہ۔۔۔۔ ”اور شام ٹہر گئی“۔ منظر عام پر آگیا۔۔۔۔تو اسکی کہی ہوئی بات کا حسن اور بھی نکھر کر سامنے آیا۔مجھ کو اسکی شاعری میں اسکی اپنی خوبصورت شخصیت کی مکمل شبہہ دکھائی دی
۔ اسکے اندر کی چہکتی مہکتی جذبات کی دنیا۔۔۔ اسکی سلگتی سوچوں کا الاﺅ۔۔۔ہجر کے در واور وصال کی مہکاریں۔۔۔یہ خزانے جو اسکے متوازن ذہن کا اثاثہ تھے وہی اسکی شاعری کی اساس بنے۔۔۔ غزلیں۔۔۔۔ نظمیں گیت اور رت جگے بے شک۔۔۔ اس نے اپنی اِ س ریاضت کو عبادت کا درجہ دے دیا ہے۔ 
اس سے بڑھ کر میری وفا کا کوئی نہیں گواہ 
غزلیں نظمیں۔۔ سجدے آنسو اور اکِ شبِ سیاہ 
کسی کے فن کو پرکھنا آسان بات نہیں مگر کسی کی شخصیت کے بارے کچھ کہنا اور زیادہ مشکل امر ہے۔ نجمہ بڑی خوش قسمت ہے کہ اس کو قلم کا ہنر وویعت ہوا۔۔۔وہ کتابی نہیں ایک پیدائشی شاعر ہ ہے اور یہ وصف اسے خالق کی طرف سے عطا ہوا ہے۔
سچ کہنے کا حوصلہ بہت کم لوگوں میں ہوتا ہے اور سچے فنکار کو سچ کا زہر سقراط کی طرح پینا پڑتا ہے۔ نجمہ شاہین کے اشعار پڑھ کر اور اس سے ملکر ایک جیسا احساس ہوتا ہے کہ سچ اسکی شاعری ہے اور سچ ہی اسکی شخصیت کا خاصہ ہے۔ 
وہ شاعر ہ ہونے کے ساتھ ایک کامیاب ڈاکٹر بھی ہے اسکے کلینک میں جو معصوم بچے پہلی سانس لیتے ہیں وہ انکی امانت دار ہوتی ہے۔ اپنے پیشے کے لحاظ سے بھی اسکا ہنر قابل قدرو ستائش ہے کیونکہ جب کوئی معصوم وجود اس دنیا میں آتا ہے تو رب عظیم اپنی تخلیق کردہ کائنات میں خوشیاں بانٹ رہا ہوتا ہے۔ 
جس دم وہ ان ننھے منے معصوموں کو سلامتی کی ساتھ ان کی ما?ں کی گود کے سپرد کرتی ہے تو بقول نجمہ۔۔۔ اس کا دل ،روح اپنے خالق کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور اسکی زندگی میں اکثریت سے ایسے لمحات آتے رہتے ہیں کہ عدم سے وجود میں نئی زندگی جب آتی ہے تو بے اختیار دل کی گہرائیوں سے یہ آواز آتی ہے۔
 ” اے رب العرش عظیم تو بے شک بیکراں عظمت و طاقت والا ہے“
واقعی ، انسان نے خالق کو اسکی بیکراں عظمت و قدرت سے ہی پہچانا ہے۔
وہ کہتی ہے۔۔۔۔ 
        ”ہم ڈاکٹر لوگ دن رات۔۔۔۔۔ زندگی اور موت کے کھیل میں۔۔۔ معجزے ہوتے دیکھتے ہیں۔ کبھی مرنے والا مرتے مرتے جی اٹھتا ہے اور کبھی اچھا بھلا۔۔۔۔ جیتا جاگتا انسان پلک جھپکتے اس دنیا سے معدوم ہو جاتا ہے تب ہمارے دل کی کیا کیفیت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ بتا نہیں سکتی۔۔۔۔ بے شک ایک ڈاکٹر اس وقت خدا سے بہت نزدیک ہو جاتا ہے۔ “
نجمہ شاہین کھوسہ پھول سی خوش رنگ اور تتلیوں جیسی نرم و نازک سہی مگر فولاد جیسی مضبوط "Will Power"بھی رکھتی ہے جو انسان کو اسکی منزل تک لے جاتی ہے۔ اپنی تمام تر نزاکت کے باوجود وہ راہ میں تھک کر بیٹھ جانے والی مسافر نہیں کیونکہ اسکو اپنے سفر سے عشق ہے اور وہ سچ کی تلاش میں سر گرداں ہے۔۔۔۔او رسچ تو یہ ہے کہ اسکی شخصیت میں اسکی شاعری اور اسکی شاعر ی میں اسکی شخصیت کے سب ہی رنگ ملتے جلتے ہیں مگر ان رنگوں میں اسکا اپنا رنگ۔۔۔ سب سے جدا ہے۔۔۔۔ نجمہ شاہین کو سمجھنے کے لئے اسکی شاعری کو سمجھنا ضروری ہے۔۔۔۔تحریر ہی ایک ایسا آئینہ ہے جس میں ادیب کی شخصیت کے بہت سے پوشیدہ پہلو خود بخود سامنے آجاتے ہیں۔ صد شکر کہ وہ جو کہنا چاہتی ہے اسے بر ملا کہنے کی جرات رکھتی ہے۔ میری نظر میں وہ ایک جراتمند لڑکی ہے مگر اسکے اپنے الفاظ میں وہ یوں رقم طراز ہے۔۔۔ 
”کیا شاعری وہ سب کچھ کہہ سکتی ہے۔ جو کہا جانا چاہئے۔۔۔۔؟ ان سنگلاخ درد کے پہاڑوںسے گزرتی اپنی ناتواں جان پر تندو تیز ہوا?ں کے طوفان برداشت کرتی کرب کی ان مسلسل راتوں کی کہانی۔۔۔۔ یہ بے یقینی اور مایوسی کے دھول میں اٹی ہوئی بے خواب راتوں کی کہانی۔۔۔۔یہ رت جگوں کے عذاب،اندھی راتوں کی کہانی۔۔۔۔؟ 
گویا کہ اسکے اندر کے درد وا لم اور کرب و اضطراب قوت اظہار سے بڑھ کر ہیں شاعری کے وسعت داماںبھی تنگ پڑ جاتے ہیں۔تبھی۔۔۔
”وہ اپنی ذات کی تنہائی اور دکھ کے لا محدود صحرا میں اکیلے پن کا سفر طے کرتے ہوئے سوچتی ہے،، اس اجاڑ سفر میں اسکا ساتھ کون دے۔ سوائے اپنے دکھ اور تنہائی کے۔“ 
اسے کسی ہمدرد غمگسار چارہ گر کی تلا ش ہے؟ یا پھر۔۔۔۔ اسکے سلگتے جذبے۔۔۔ تپتے آنسو۔۔۔ہجر و فراق کی ریاضت اور تمنائے و صال کی عبادت ؟ انجانے کتنے رت جگے ابھی اور اسکے منتظر ہیں اور نجانے کتنی ریاضت اور عبادت کی ضرورت ہے کیونکہ یہ سفر ابھی جاری ہے
”گئی رتوں سے یادوں کے چراغ جلا کر جذبوں کی محفلیں سجانے اور محفلوں سے گلاب اگانے کا۔۔۔۔۔ استعارہ۔۔
”اپنے بے ربط و بے ترتیب بہہ جانے والے آنسو?ں سے ان گلابوں کو سراب کرنے اور ان سرابوں کے پیچھے بھاگتے بھاگتے روشنیوںسے سیاہی بنا کر اپنے لفظوں کو شاعری کی صورت صفحہ قرطاس پر بکھیرنے کا جو کھم “
شاعری کے اس سفر میں وہ دھیمے دھیمے لہجہ میں بولنے والی نرم خو ،جس کی شخصیت میں قرینہ۔۔۔ طریقہ۔۔ سلیقہ اور حسن توازن بہ درجہ اتم موجود ہے اور یہی اوصاف اسکی شاعری میں ہنر مندی کے ہیں۔۔۔۔۔ میں اسکی شاعری کو اسکی شخصیت سے جدا نہیں دیکھتی مگر بطور ایک ماں، ایک با وفا بیوی اسکے انداز دلکش مشرقی روایات سے مزین ہیں جہاں وہ با حیا۔۔۔ نرم خو ذمہ دار اور با لحاظ ہے وہاں وہ نرم دل بھی ہے۔ ایک روز اس نے باتوں باتوں میں بتایا”آپا۔۔۔۔ ایک صحافی صاحب جو نامور اخبار سے وابستہ ہیں انہوں نے مجھے فون کر کے انٹر ویو کے لئے ٹائم مانگا اور ساتھ ہی اپنی ایک عزیزہ کی شادی کے لئے امداد بھی مانگ لی۔کسی کی بچی کی رخصتی میں مدد کرنا نیکی ہے یہ سوچ کر میں نے ان کو دس ہزار روپے بھجوا دیئے۔ مگر انٹرویو کا عندیہ نہیں دیا۔۔۔ آج پھر ان صاحب کا فون آیا ہے اورانٹرویو کے ساتھ ساتھ مزید رقم کا مطالبہ کیا ہے۔۔۔ ان حضرات سے کیسے جان چھڑا?ں ؟ میں نے کہانجمہ۔۔۔ اگرکہو تو میں ان کے باس کو بتا?ں اسکی نوکری چلی جائے گی۔کسی کی نوکری جاتی ہے تو نہ کہئے گا۔۔ آپامیں کسی کو بیروز گار نہیں کر نا چاہتی شاید بال بچے دار ہو۔۔۔ اچھا چھوڑ یئے۔۔۔ میں اب ا س کا فون ہی نہ اٹھا?ں گی۔ 
ڈاکٹر نجمہ شاہین کی شخصیت کا یہ پہلو بہت سوں کی نظروں سے اوجھل ہو گا مگر مجھے معلوم ہے وہ وسیع دل رکھتی ہے سخی ہے اور معاف کرنا بھی جانتی ہے۔ وہ چپکے چپکے ضرورت مندوں کی مدد کرنے کی قائل ہے لہذا بہت سوں کی دعائیں اسکے ساتھ ہیں۔ نیکی کا اجر دونوں جہانوں میں ملتا ہے یقینا اسکو اس دنیا میں بھی کامیابیاں اور پذیرائی ملے گے کیونکہ خلق خدا جس سے محبت کرتی ہے؛ خالق کی اس بندے پر خاص نظر ہوتی ہے۔ 
مجھے خوشی ہے کہ نجمہ شاہین کی چوتھی تخلیق ”پھول خوشبو اورتارہ“ کتابی صورت میں آگئی ہے۔ اس نے بہت کم وقت میں شہرت کی منزلیں طے کر لی ہیں جبکہ اس سفر میں ایک عمر لگ جاتی ہے۔ مجھ کو اس بات کی بھی خوشی ہے کہ وہ اب بھی اپنی کامیابیوں سے مطمئن نہیں ہے۔ ارتقا کے سفر میں اطمینان جمود کو جنم دیتا ہے اور مطمئن نہ ہونا ہی زیادہ کامیاب ہونے کی نشانی ہے۔ 
نجمہ !اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔ کہ اس حبس زدہ موسم میں عکس نو بہار ہو تم

ای پیپر دی نیشن