آئین :عوامی بہبود کا سماجی معاہدے

سردار نامہ … وزیر احمد جو گیزئی
wazeerjogazi@gmail.com 
سابق ڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی

کسی بھی ملک کا آئین اہم اورتاریخی دستاویز کہلاتی ہے ،یہ ایسی دستاویز ہوتی ہے جو کہ قومی وحدت کے لیے انتہائی اہم ہو تی ہے اور عوام کے درمیان ایک سماجی معاہدے ہو تا ہے ،جو کہ عوام کی نگہبانی کرتا ہے اور عوام الناس کی شکایتیں کم کرنے کے لیے ایک اہم ٹول ہو تا ہے۔اس آئین کے بارے میں جو بھی کہیں اور تنقید بھی ہو تی ہے لیکن یہ بات تو ایک حقیقت ہے کہ اس آئین کو بنانے والے آجکل کے سیاست دانوں سے بہت بڑے لوگ تھے اور ان کی نگاہیں اور ان کی پیش بندی بہت دور تک ہوتی تھی۔لیکن اس کے بعد اس دستاویز کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ہے اور اب بھی ہو رہا ہے اس پر یہی کہا جاسکتا ہے کہ الامان الحفیظ ،آئین بنانے والوں نے ہی پہلے ایک دوسالوں میں آئین میں ترامیم کیں ،اور ان ابتدائی ترامیم میں بھی عدلیہ کے معاملے کو ہی دیکھا گیا۔ایک چیف جسٹس کو نکالنے کی خاظر 7ویں ترمیم کی گئی تھی اور اس کے بعد بھی تبدیلیاں ہو تی رہیں اور معاملات آگے بڑھتے رہے۔لیکن اس کے بعد پھر مارشل لاء لگا ضیا الحق آگئے اور پھر اسلامی جہاد کا بہانہ بنا کر پورے 13سال اسی میں لگ گئے۔گوکہ 8ویں آئینی ترمیم ان ہی 13سالوں میں ہوئی لیکن 8ویں ترمیم نے آئین کی ہیت کو ہی تبدیل کر دیا۔اس کے کئی سالوں کے بعد بہت ساری ترامیم ہو ئیں ،اور پھر اس کے بعد 18ویں ترمیم لائی گئی جو کہ ایک سنجیدہ عمل تھا۔اور اس ترمیم کا عمل بخوبی اس وقت کے چیرمین سینیٹ رضا ربانی کی شیئرمین شپ اور دور کی مجموعی سیاسی قیادت نے پایہ تکمیل تک پہنچایا اور اس ترمیم کے عمل میں اس وقت کی ہر سیاسی سوچ شامل تھی ہر سیاسی جماعت کو اعتماد میں لیا گیا تھا اور ہر سیاسی جماعت اس عمل میں شامل ہو ئی۔اس کے علاوہ ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اور ماہرین کو بھی اس ترمیمی عمل میں شامل کیا گیا ،لیکن اس کے بعد اس ترمیم میں بھی مین میخ نکالی گئی اور مزید تبدیلیاں کی گئیں اور آئین کو مزید تبدیل کیا گیا اور اب کئی سالوں کے بعد جو ترمیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ،وہ بھی عدلیہ سے ہی متعلق ہے۔عدلیہ ہمارے سیاست دانوں کی توجہ کا ہمیشہ ہی مرکز رہی ہے ،18ویں ترمیم میں یہ طے ہو گیا تھا کہ ججز کو سینارٹی کی بنیاد پر تعینات کیا جائے گا اور جونیر ججز کو اوپر نہیں لایا جائے گا۔لیکن محسوس ہو رہا ہے کہ اس عمل کو ریورس گیئر لگا دیا گیا ہے اور جونیئر ججز کو اوپر لانے کی تیاری کی جارہی ہے تاکہ لگایا جانے والا جونیئر جج تا بعدار رہے۔ہم بد قسمتی سے ماضی کی اس سوچ سے نکل ہی نہیں سکے ہیں جس نے کہ ریاست کو کمزور بنایا ہے۔ہمارے سیاست دانوں کے اندر کہیں نہ کہیںیہ سوچ موجود ہے کہ اہم اداروں کے اوپر ہمارے اپنے لو گ ہو نے چاہیے اور یہ ہی سوچ ماضی میں ہماری تباہی کا باعث بھی بنی ہے۔ہمیں اس سوچ میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔ہمارا بطور قوم یہ بہت بڑا مسئلہ رہا ہے کہ ہم ماضی کی غلطیوں سے نہیں سیکھتے ہیں اور ہمیشہ ہی پرانی غلطیوں کو دو ہراتے رہتے ہیں جس کا ہمیں پہلے سے بھی زیادہ شدید نقصان ہو تا ہے ،بار بار کے تجربات کیے جاتے ہیں اور ان تجربات میں نیک نیتی شامل نہیں ہو تی ہے۔اگر کوئی جج تا بعدار ہو تو اس کو جج بننے کا حق ہی نہیں ہے وہ اس پوزیشن کا مستحق نہیں ہو تا ہے ،جج کسی کی نہیں بلکہ صرف اور صرف قانون کی زبان بولتے ہیں۔اور ان کو ہمیشہ قانون کی ہی زبان ہی بولنی چاہیے۔اس کے علاوہ جج کی کو ئی ڈومین نہیں ہونی چاہیے جج کو ہمیشہ قانون کے دائرے میں ہی رہنا ہو تا ہے جو کہ اس کی طاقت کا ذریعہ ہو تا ہے۔جج کی سیاسی سمیت کسی قسم کی اور کوئی ڈومین ہو نہیں سکتی ہے۔فیصلے ہمیشہ ئ قانون کے دائرہ اختیار میں رہتے ہوئے ہونے چاہیے۔بہر حال ہمارے ملک کی موجودہ لیڈر شپ نے بلکہ کہنا چاہیے کہ اندھی لیدر شپ نے جو ترمیم کے حوالے سے اعلان کیا ہے وہ سمجھ میں آنے والا نہیں ہے۔لیکن میں یہاں پر کہنا چاہوں گا کہ ہمارے ملک میں جو نظر نہ آنے والی حکومت ہے وہ اس موجودہ سیاسی قیادت کو تقویت دے رہی ہے جس کے نتیجے میں یہ لوگ درست فیصلے نہیں کررہے ہیں اور ایسے اقدامات لے رہے ہیں جو کہ شاید قوم کے لیے بہتر نہ ہوں۔ایسی صورتحال میں نہایت احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ،انتہائی تتدبر کے ساتھ آگے بڑھنے کی ضرورت ہے اور وقتی نتایج کے نظر انداز کرتے ہوئے ،مستقبل کے حوالے سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ اقدامات مستقبل میں کتنے کا ر کگر ثابت ہوں ؟ ہمیں بطو ر ملک اپنے فیصلوں اور پالیسیوں پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے ،ہمارے جو تعلقات ہندوستان کے ساتھ ہیں وہ ترقی میں رکاوٹ نہ ایران کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں اور افغانستان کے ساتھ بھی لو اینڈ ہیٹ (Love and hate) کا تعلق ہے کبھی بھی اس حوالے سے صورتحال واضح نہیں رہی ہے جس نے کہ ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔ اور سارے معاملات استحکام کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔آج کی دنیا میں امن اور سکون سے رہنے کے لیے پہلے اندرونی استحکام اور پھر خطے میں استحکام نہایت ہی اہم ہو تا ہے اور یہ دونوں چیزیں ہی ہمارے پاس نہیں ہیں۔امریکہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ کس طرح امریکہ اپنے خطے میں کوئی عدم استحکام کی چنگاری بڑھکنے نہیں دیتا ہے اور اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات بہترین ہیں ہم بھی خطے میں استحکام اور بہتر تعلقات کے بغیر عالمی سطح پر کو ئی بھی کردار ادا نہیں کر سکیں گے اور رو بازوال ہی رہیں گے۔

ای پیپر دی نیشن