آئی پی پیز کیا ہے؟

اندر کی بات
شہباز اکمل جندران
پچھلے کئی روز سے پاکستان میں بجلی کے نجی کارخانوں (آئی پی پیز) کو کی جانے والی ادائیگیوں یعنی کپیسٹی پیمنٹ زیر بحث ہے۔ لوگ سوال کر رہے ہیں۔ یہ کارخانے بجلی بناتے ہی نہیں تو ان کو اربوں روپے کی ادائیگیاں کیوں ہو رہی ہیں۔ یہ الزام بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے درحقیقت ملک کی اشرافیہ ہے جن میں کئی کاروباری شخصیات اور کچھ معتبر سیاستدانوں کے بھی نام آتے ہیں۔ جو بجلی کے ان کارخانوں سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کے صاحبزادے سلمان شہباز پر بھی الزام ہے کہ ان کے بجلی گھر کو بھی کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ڈھیر سارا منافع مل رہا ہے۔
چند روز پہلے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر اپنے ایک پیغام میں وزیراعظم پاکستان نے کہا ”بیگاس“ یعنی گنے کے پھوک سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو کپیسٹی پیمنٹ نہیں کی جاتی۔ وزیراعظم کے مطابق گنے کے پھوک سے چلنے والے بجلی کے کارخانوں کو صرف اس بجلی کی قیمت ادا کی جاتی ہے جو گرڈ کو فراہم ہوتی ہے۔ پلانٹ اگر نہیں چل رہا تو اسے ادائیگی نہیں ہوتی۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا واقعی بیگاس یعنی گنے کی پھوک سے چلنے والے بجلی گھروں کو کپیسٹی پیمنٹ نہیں کی جاتی اور یہ کہ باقی کارخانے اس کپیسٹی پیمنٹ کا فائدہ اٹھاتے ہیں؟ یہ سوال بھی بڑا اہم ہے کہ ملک میں موجود آئی پی پیز کے مالکان کون ہیں؟ اور اس بات کو بھی جاننے کی اشد ضرورت ہے کہ کپیسٹی پیمنٹ کا مسئلہ آخر ہے کیا؟
کپیسٹی پیمنٹ کو لے کر اس ساری بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب پاکستان کے سابق نگران وزیر تجارت گوہر اعجاز نے اپنے ایکس اکاﺅنٹ پر پاور پلانٹس کو کی جانے والی ادائیگیوں کی تفصیلات جاری کیں۔
گوہر اعجاز نے دعویٰ کیا کہ گزشتہ مالی سال کے دوران پاور پلانٹس کو کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں 1900ارب کی ادائیگی کی گئی۔ کپیسٹی پیمنٹ سے مراد وہ ادائیگی ہے جو ہر ماہ صارف کی جانب سے بجلی بنانے والی کمپنی کو اس کی بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کو برقرار رکھنے کے لیے کی جاتی ہے۔تاکہ صارف کو اضافی مانگ کی صورت میں بجلی مہیا کی جا سکے۔ پاور پلانٹس کو فعال رکھنے کے لیے یہ کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔
”بیگاس“ بنیادی طور پر شوگر مل میں گنے کی کرشنگ کے بعد بچ جانے والا پھوک ہوتا ہے۔ جسے بجلی پیدا کرنے کے لئے بطور ایندھن استعمال کیا جاتا ہے۔ گنے کے پھوک کو شوگر ملوں کے اندر بجلی پیدا کرنے کے پلانٹس کے علاوہ دیگر پاور پلانٹس میں بھی بجلی پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت آٹھ آئی پی پیز ایسے ہیں جو گنے کی پھوک سے بجلی پیدا کرتے ہیں جن میں سے سات پنجاب اور ایک سندھ میں ہے۔ ان آٹھ پاور پلانٹس کی مجموعی انسٹالڈ کپیسٹی 259میگا واٹ ہے۔ وزارتِ توانائی کے ذیلی ادارے پرائیویٹ پاور اینڈ انفراسٹرکچر بورڈ کی ویب سائٹ پر دئیے گئے اعداد و شمار کے مطابق گنے کی پھوک سے بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس میں سے دو پلانٹ ایسے ہیں جو ایک سینئر سیاستدان کے گروپ کی ملکیت ہیں۔ رحیم یار خاں، لیہ اور چنار میں بھی ایسے پلانٹس لگے ہوئے ہیں جو گنے کی پھوک سے بجلی پیدا کرتے ہیں۔
انرجی امور کے ماہر عمار حبیب کا کہنا ہے کہ گنے کے کرشنگ سیزن میں کرشنگ کے بعد جب بیگاس (پھوک) دستیاب ہوتا ہے تو اس پر پلانٹ چلتا ہے۔ ان کے مطابق اس سیزن میں اُن کی کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔ عمار کا کہنا ہے ضروری نہیں کہ ان کمپنیز کو پورے سال کپیسٹی پیمنٹ ملے کیونکہ یہ پلانٹس پورے سال نہیں چلتے۔ انہوں نے واضح کیا کہ کپسیٹی پیمنٹ صرف اس وقت کی جاتی ہے جب پلانٹ بجلی پیدا کرنے کے قابل ہو۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی کے سابق چیئرمین توصیف فاروقی کا بھی کہنا ہے کہ کرشنگ سیزن میں جب گنے کا پھوک دستیاب ہوتا ہے یہ پلانٹس بجلی پید اکرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ تب ہی انہیں کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے۔ ان کا کہنا ہے نان کرشنگ سیزن میں کیونکہ یہ پلانٹ غیر فعال ہوتے ہیں اس لیے انہیں کسی بھی قسم کی پیمنٹ کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ پاکستان میں کام کرنے والی آئی پی پیز کن کی ملکیت ہیں، اس بارے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر مختلف آراءسامنے آئی ہیں۔ دستیاب معلومات کے مطابق ملک میں اس وقت 100آئی پی پیز کام کر رہے ہیں جن میں فرنس آئل پر چلنے والے کارخانوں کی تعداد 15ہے۔ جبکہ آر ایل این جی پر چلنے والے پاور پلانٹس 19ہیں۔ پانی سے بجلی بنانے والے آئی پی پیز کی تعداد چار، درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد تین جبکہ تھر کے کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی تعداد پانچ اور گنے کی پھوک پر چلنے والے پاور پلانٹس کی تعداد آٹھ ہے۔ سورج کی روشنی سے جو بجلی بنانے والے کارخانے ہیں اُن کی تعداد 10اور ہوا سے بجلی بنانے والے پلانٹس کی تعداد 36ہے۔
پاکستان میں کام کرنے والے ان آئی پی پیز کی ملکیت کے بارے میں جب مختلف ذرائع اور ماہرین سے بات کی گئی تو اُن کا کہنا ہے کہ ان میں سے بیشتر کے متعلق معلومات اس لیے دستیاب نہیں کیونکہ بجلی کی خریدار ی کے معاہدے کے تحت اُن کے متعلق معلومات عام نہیں کی جا سکتیں۔
لمز انرجی انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر فیاض چودھری کا کہنا ہے یہ بحث ہی غلط ہے کہ آئی پی پیز کس کی ملکیت ہیں۔ چاہے کوئی بھی ہو کمپنی کسی غیر ملکی کی ہو یا مقامی فرد کی ملکیت ہو، جو سرمایہ کاری کرتا ہے وہ اپنی سرمایہ کاری کے تحفظ کے لیے ضمانت بھی مانگتا ہے۔ ڈاکٹر فیاض کے مطابق ان آئی پی پیز میں سے 52فیصد کمپنیاں خود حکومت کی ملکیت ہیں۔ جنہیں کپیسٹی پیمنٹ مل رہی ہے۔ اُن کا کہنا ہے جب نجی شعبے نے یہ پلانٹ لگائے تھے تب اُن سے بہتر ڈیل کرنی چاہیے تھی۔ نیپرا کے سابق چیئرمین توصیف فاروقی کے مطابق پاور پلانٹس کو یہ ادائیگیاں تو گزشتہ کئی برسوں سے کی جا رہی ہیں لیکن اس پر کبھی کوئی بحث نہیں ہوئی۔ تاہم جب ڈالر کا ریٹ بڑھا تو ادائیگیوں کی مالیت بڑھنے سے صارفین پر بوجھ پڑا۔ تو یہ بحث چھڑ گئی کہ پاور پلانٹس کی کپیسٹی پیمنت کا بوجھ صارفین پر کیوں ڈالا جا رہا ہے۔ جس حساب سے یہ پاور پلانٹس لگائے گئے اگر پاکستان کی معیشت سات فیصد کی شرح سے ہر سال ترقی کرے تو پھر بجلی کی اتنی زیادہ کھپت ہو سکتی ہے لیکن چونکہ معیشت میں گروتھ نہیں اس لیے یہ مسئلہ سنگین مسئلہ بنا ہو ا ہے۔
جن پاور پلانٹس کو کپیسٹی پیمنٹ کی جاتی ہے اُن کی تفصیل یہ ہے : 1۔ اٹلس پاور لمیٹیڈ2,038کروڑ، 2۔ اٹک گین لمیٹیڈ 942کروڑ، 3۔ چائنا پاورہب 94,753کروڑ، 4۔ اینگرو پاور لمیٹیڈ 2,755کروڑ ،5۔ اینگرو پاور تھر 39,609کروڑ، 6۔ فیوجی کبیر والا1,292کروڑ، 7۔ فاﺅنڈیشن پاور کمپنی 3,097کروڑ، 8۔ حبیب اللہ پاور کمپنی 326کروڑ،9ہلمور پاور کمپنی3,071کروڑ، 10۔ ہوا ننجگ انرجی 55,747کروڑ،11۔ کروٹ پاور کمپنی 34,556کروڑ، 12۔ کوہ نور انرجی 2,009کروڑ، 13۔ لال پیر پاور 3,727کروڑ، 14۔ لاریب انرجی 208کروڑ، 15۔ لبرٹی پاور 2,56کروڑ،16۔ لکی الیکٹرک پاور 28,604کروڑ، 17۔ میرا پاور 10,576کروڑ، 18۔ نارووال انرجی 2,878کروڑ، 19۔ نیلم جہلم ہائیڈرو پاور 34,465کروڑ،20۔ نشاط پاور 1,519کروڑ، 21۔اورینٹ پاور 3,256کروڑ، 22۔ پاک پاور 3,547کروڑ، 23۔ پورٹ قاسم الیکٹرک پاور 63,612کروڑ، 24۔ صبا پاور کمپنی 2,198کروڑ، 25۔ نیذ پاور 2,414کروڑ، 26۔ سٹار ہائیڈرو پاور 14,477کروڑ۔
یہ اور اس کے علاوہ بھی پاور پلانٹس ( آئی پی پیز ) کی ایسی فہرست ہے۔ جنہیں حکومت پاکستان اربوں روپے کی ادائیگیاں کرتی ہے۔ اگر کوئی پاور پلانٹ نہیں بھی چلتا تو معاہدے کے باعث تب بھی اسے کپیسٹی پیمنٹ کی مد میں ادائیگیاں کی جاتی ہیں جو ایک غریب ملک کے بدحال لوگوں کے ساتھ بہت بڑی زیادتی ہے۔ برسہا برس سے ہونے والی اس زیادتی کا سدِ باب کون کرے گا۔ حکومت، کوئی آئینی ادارہ یا کوئی اور___سوال تو بنتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن