ہفتہ ‘23 ربیع الاول 1446ھ ‘ 28 ستمبر 2024

عمران خان کا 28 ستمبر کو راولپنڈی میں جلسہ نہ کرنے کا فیصلہ۔
عمران خان کا زریں قول ہے کہ یو ٹرن لینے والا ہی بڑا لیڈر ہوتا ہے۔خان صاحب کی طرف سے اتنے یوٹرن لیے گئے ہیں کہ ان کے مطابق تو یہی بڑے لیڈر قرار پاتے ہیں۔ترنول والے جلسے کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ہر صورت جلسہ ہوگا مگر جیل میں اعظم سواتی سے ملاقات کے بعد یہ جلسہ مو¿خر کر دیا گیا۔اس کے بجائے 8 ستمبر کو سنگجانی میں جلسے کا اعلان کیا گیا اور کہا گیا کہ آسمان گرے یا زمین پھٹے جلسہ ہر صورت ہوگا۔یہ جلسہ بھی ہوا۔اس کے بعد لاہور میں جلسے کا اعلان کیا گیا تو بھی ٹون اور تھریٹ وہی کہ ہر صورت جلسہ ہوگا۔وہ بھی ہو گیا۔ اپ پنڈی والے جلسے کے بارے میں بھی یہی کہا گیا تھا کہ جو بھی ہو جائے اجازت ملے یا نہ ملے جلسہ ہو کے رہے گا۔مگر اب خان صاحب کی طرف سے اس پر یو ٹرن لے لیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ لوگ رائٹ دکھا کے لیفٹ مارتے ہیں۔جن لوگوں کے بارے میں خان صاحب کہتے ہیں کہ رائٹ دکھا کے لیفٹ مارتے ہیں انہوں نے ترنول کے بجائے سنگجانی جلسے کے حوالے سے جو دکھائی وہی ماری تھی۔جلسے میں آنے والوں کے لیے ایک راستہ مختص کر دیا گیا جو کھلا اور چلتا رہا۔لاہور کے جلسے کی بھی اجازت مل گئی تھی۔اب موقف اختیار کیا گیا ہے کہ28 تاریخ کو راولپنڈی میں جلسہ نہیں احتجاج کرینگے۔ہم لاہور ہائی کورٹ سے درخواست واپس لے رہے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے انہوں نے جلسے کی اجازت نہیں دینی اور اگر یہ اجازت دے بھی دیتے ہیں تو شہر سے باہر کسی جگہ جلسہ کرنے کی اجازت دیں گے۔بانی پی ٹی آئی کوکیا ان سب کااچانک ادراک ہوا اورپتہ چلا ہے؟
ان کا یہ کہنا کہ یہ لوگ رائٹ دکھا کے لیفٹ مارتے ہیں۔دراصل پنجابی محاورے کا انگریزی میں ترجمہ ہے جس میں خان صاحب نے دانستہ یا نادانستہ تھوڑی سی تبدیلی کی ہے۔”کھبی دکھا کر سجی مارنا“ جس کا اردو میں مطلب بنتا ہے کہ بایاں ہاتھ دکھا کر دایاں مار دینا۔خان صاحب نے دائیں اور بائیں کو آپس میں تبدیل کر دیا ہے۔حالانکہ یہ دائیں ہاتھ سے گیند کراتے رہے ہیں گویا وہ کھبو نہیں ہیں۔بائیں ہاتھ میں چونکہ دائیں کی نسبت کم طاقت ہوتی ہے۔اسی لیے ہلکا دکھا کے بھاری مارنے کا محاورہ بن گیا۔کسی کو مارنے یا کچھ اٹھانے کے لیے دائیں اور بائیں سے فرق تو پڑتا ہے۔ایک ٹنڈے سردار سے کسی نے پوچھ لیا کہ سردار جی آپ کا یہ بازو کیسے کٹ گیا تو سردار صاحب نے کہا کہ چارہ کترنے والی مشین میں ہاتھ آگیا اور بازو تک کٹ گیا۔پوچھنے والے نے کہا، شکر ہے بایاں ہاتھ کٹا‘ دایاں بچ گیا۔ اس پر سردار صاحب ترنت بولے کہ یار مشین میں تو دایاں ہاتھ ہی آیا تھا۔میں نے زور سے کھینچ کے اس کی جگہ بایاں ہاتھ مشین میں دے دیا۔
ہائی ویز اور موٹرویز کے ٹول ٹیکس میں 30 فیصد تک اضافہ۔
ٹول پلازوں پر نئے ٹیکسوں کا اطلاق یکم اکتوبر 2024 سے ہو گا۔جس طرح بجلی کی قیمتوں میں فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر ماہ بہ ماہ اضافہ ہوتا رہتا ہے۔اگر کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں چند پیسے کمی ہوتی ہے تو اس مہینے بجلی کی قیمتوں میں روپوں کے حساب سے اضافہ کر دیا جاتا ہے۔اس پر صارفین اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔اسی طرح سے ٹول پلازوں پر بھی وقفے وقفے ٹیکس بڑھا دیا جاتا۔یہ وقفے بڑی تیزی سے چلتے ہیں۔حکومت کے لیے ہائی ویز اور موٹر ویز کے ٹول پلازے سونے کا انڈا دینے والی مرغی بن چکے ہیں۔ڈیڑھ دو ماہ بعد سفر کرنے والے کو پہلے سے زیادہ ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے تو وہ سر تو نہیں پیٹتا سر جھکا کے اضافی ٹیکس ادا کر دیتا ہے۔ڈرائیور حضرات نوٹ کرلیں یایاد کرلیں کہ اسلام آباد پشاور موٹر وے، کار کا ٹیکس 350 سے بڑھا کر 460 روپے مقرر کر دیا گیا۔ ویگن کا ٹیکس 550 سے 720 روپے کر دیا گیا۔اسلام آباد سے پشاور موٹر وے بس کا ٹول ٹیکس ایک ہزار سے بڑھا کر ایک ہزار 300 روپے کیا گیاہے۔ اسلام آباد تا پشاور موٹر وے ٹرک کا ٹیکس ایک ہزار 500 سے بڑھا کر ایک ہزار 950 روپے مقرر کر دیا گیا۔لاہور عبدالحکیم ایم 3، پنڈی بھٹیاں، فیصل آباد، ملتان ایم 4 پر بھی ٹول ٹیکس میں اضافہ کیا گیا۔ ملتان سکھر ایم 5، ڈی آئی خان ہکلہ ایم 14، مانسہرہ ایکسپریس وے پر بھی ٹیکس میں اضافہ کیا گیا۔نیشنل ہائی ویز پر کار کا ٹیکس 40 سے بڑھا کر 50 روپے کر دیا گیا۔ ویگن کا 90، بس کا 170 روپے مقرر کیاگیا ہے۔ نیشنل ہائی ویز پر 2 اور 3 ایکسل ٹرک کا ٹیکس 210 روپے مقرر کر دیا گیا۔
ہمارے ملک میں مہنگائی بڑھتی رہتی ہے۔ اس کی کچھ نہ کچھ وجہ ضرور ہوتی ہے جیسا کہ پیٹرولیم کی قیمتوں میں اضافہ یا بجلی کے نرخ بڑھ جائیں تو اس کا براہ راست اثر ہر چیز کے نرخوں پر پڑتا ہے۔ آج کل بجلی کے بلوں میں حکومت کی طرف سے ریلیف دیا گیا ہے جبکہ پیٹرولریم کی قیمتیں گزشتہ ڈیڑھ دو ماہ سے کافی کم ہوئی ہیں۔جس سے مہنگائی اور کرایوں میں کمی ہوئی ہے۔ادھر یہ اطمینان بخش صورتحال ہے ادھر ٹول ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔ یہ اضافہ اس لیے شاید کیا گیا ہے کہ ان کی وقفے وقفے سے ٹیکس میں اضافے کی روٹین خراب نہ ہو۔
پولیس یونیفارم پر کیمرے لگا رہے ہیں، وزیر اعلیٰ مریم نواز۔
قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لوگ ہی قانون توڑنے لگیں تو قانون کی کیا حالت اور معاشرے میں انارکی کا کیا لیول ہوگا۔ باڑ ہی فصل کو کھانے لگے تو کھیت کے پلے کچھ نہیں رہتا۔ پاکستان کے اداروں کے کچھ شعبوں کے ملازمین کی وردیوں پر کیمرے لگائے گئے ہیں جو ان اداروں کے ہسپتالوں کے عملے کی یونیفارم پر دیکھے جا سکتے ہیں۔خیبر پختونخواہ اور سندھ کی ٹریفک پولیس کی یونیفارم پر کیمرے لگے ہیں۔ اسکے بعد سے پولیس کی کارکردگی میں بہتری آئی ہے۔ پولیس پر رشوت خوری کے زیادہ ہی الزامات ہیں۔ کیمرے کی نگرانی میں آنے سے رشوت تو چلے گی مگر سر عام نہیں۔ جس سے قانون کی کار فرمائی کچھ نہ کچھ بہتری ضرور آئے گی۔ بہت زیادہ بہتری پولیس کے افسروں کی نیک نیتی سے آ سکتی ہے۔حکومت ان کے لیے نیک نیتی کسی ترقی یافتہ اور مہذب ملک سے درآمد کرے۔ پولیس والے کو کیمرہ لگا ہے اس جیسے پولیس والے نے مانیٹر کرنا ہے جو گھر سے کھانا کھانے کو حرام سمجھتا ہے تو کیمرہ لگا یا نہ لگا ایک برابر ہے۔پولیس کی کارکردگی بہترین اس طرح ہو سکتی ہے کہ کیمرے معیاری ہوں۔ سی سی ٹی وی کیمروں کی طرح اس کی براہ راست مانیٹرنگ ہو۔ مانیٹرنگ سنٹر وزیر اعلیٰ ہاو¿س میں ہو تو توند یئے تھانیدار اور ڈائریکٹ حوالدار چاک و چوبند نظر آنے کی کوشش کریں گے۔کچھ ہیرا پھیری سے نہ جانے والے رشوت سامنے سے پکڑنے کے بجائے مرتشی کی طرف اپنی پتلون کی جیب کر دیا کریں گے مگر یہ واردات ڈالنے والے بہت کم ہونگے۔

٭گدھوں کا معاملہ پارلیمنٹ تک پہنچ گیا۔
اچھا ہوا کہ گدھوں کا معاملہ ہی پارلیمنٹ پہنچا ہے۔ کہیں گدھے پارلیمنٹ نہیں پہنچ گئے۔ گدھے پارلیمنٹ پہنچ جاتے تو ڈھنچو ں ڈھنچوں کی آوازیں آتیں۔ اگر چوہے وہاں پہنچ کر اودھم اور دھینگا مشتی مچا سکتے ہیں تو گدھے کیوں نہیں پہنچ کر ڈھنچوں ڈھنچوں کر کے ہنہنا سکتے۔ قائمہ کمیٹی میں گدھوں کی کھالوں اور گوشت کی بر آمد کا جائزہ لیاگیا ہے۔ پاکستان گدھوں کی پیدائش اور افزائش کے حوالے سے دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس کی کھال مہنگے داموں فروخت ہوتی ہے۔ کچھ لوگوں کو فرکے کورٹ پسند ہیں ‘کئی کو خر(گدھے کی ایک نسل) کے کوٹ اچھے لگتے ہیں۔ پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا۔ گوشت کون کھاتا ہوگا۔ چائنیز کھاتے ہیں۔ چین ہی کو گدھے برآمد کئے جاتے ہیں۔ ویسے ہمارے ہاں کے قصاب بھی بیف اور مٹن کے نام پر نہ جانے کس کس آوارہ حرام اور جنگلی جانور کا گوشت فروخت کر دیتے ہیں۔ہمارے ہاں گدھے ایک تو آوارگی کرتے نظر آتے ہیں‘ دوسرے ان کو احمق کم عقل اور بے وقوف بھی گردانا جاتا ہے۔ کسی کو نالائق احمق بےوقوف کہنا ہوتو اسے گدھا کہہ دیا جاتا ہے۔ امریکہ کی ڈیموکر یٹک پارٹی کا انتخابی نشان یہی ہمارے کھوتا کہلانے والا ڈونکی ہے۔گدھوں کے بس میں ہو تو سارے امریکہ چلے جائیں۔

ای پیپر دی نیشن