پاکستان میں آئینی بریک ڈاون اس وقت شروع ہوگیا تھا جب پی ڈی ایم کی پہلی حکومت نے آئین اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے مطابق پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات کرانے سے انکار کر دیا تھا اور نگران حکومتوں کو لمبے عرصے تک چلایا تھا - پاکستان کی مقبول سیاسی جماعت تحریک انصاف سے اس کا انتخابی نشان چھیننے کے بعد 8 فروری 2024ءکو پاکستان کے عوام نے ایک نیا انتخابی ریکارڈ قائم کر دیا- تحریک انصاف کے آزاد امیدواروں کے انتخابی نشانات اور پولنگ سٹیشنوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ان کے حق میں ووٹ ڈالے اور سیاسی مخالفین کو حیران کر دیا جو یہ سمجھے بیٹھے تھے کہ تحریک انصاف کا ووٹر گھروں سے باہر نہیں نکلے گا-انتخابی پولنگ مکمل ہونے کے بعد دھاندلی دھن اور دھونس کے پرانے حربے استعمال کرتے ہوئے عوامی مینڈیٹ پر کھلا ڈاکہ ڈالا گیا اور ان سیاسی جماعتوں کو اقتدار میں لانے کے لیے انتخابی نتائج تبدیل کیے گئے جن کو پاکستان کے عوام نے پولنگ ڈے پر مسترد کر دیا تھا- پاکستان کی انتخابی تاریخ شاہد ہے کہ انتخابات کے بعد ہر سیاسی جماعت کو اس کے حاصل کیے ہوئے ووٹوں کے مطابق خواتین اور اقلیتوں کی نشستیں دی جاتی ہیں-انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ حکومت بنانے والی سیاسی جماعتوں نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ساتھ سازباز کر کے تحریک انصاف کے حصے میں آنے والی خصوصی نشستیں بھی آپس میں تقسیم کر لیں تاکہ ایوان کے اندر ان کی اکثریت ہو سکے-تحریک انصاف کے لیڈراگر بہتر انتخابی حکمت عملی تیار کرتے اور ان کے آزاد امیدوار انتخابات جیتنے کے بعد سنی اتحاد کونسل کی بجائے رجسٹرڈ پارٹی تحریک انصاف میں شامل ہو جاتے تو ان کی خصوصی نشستوں پر ڈاکہ نہ ڈالا جاتا- پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کے اس مبینہ غیر آئینی اور غیر قانونی اقدام کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا-سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس اہم نوعیت کے مقدمے کی سماعت کے لیے سپریم کورٹ کا فل بینچ قائم کر دیا- اس فل بینچ نے طویل سماعت کے بعد آٹھ پانچ کے تناسب سے فیصلہ سنایا-سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے فیصلہ دیا کہ خصوصی نشستیں تحریک انصاف کا قانونی حق ہے جو اسے ملنا چاہیے-الیکشن کمیشن آف پاکستان نے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل درامد کی بجائے مختلف حیلے بہانوں سے تاخیری حربے استعمال کرکے حکومت کو موقع فراہم کیا کہ وہ پارلیمنٹ میں نئی قانون سازی کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو روک دے-پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں شاید پہلی بار پارلیمان نے قانون سازی کر کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیا اور خصوصی نشستیں بدستور تحریک انصاف کی مخالف سیاسی جماعتوں کے پاس ہی رہنے دیں-سپریم کورٹ کے آٹھ ججوں نے خصوصی نشستوں کے سلسلے میں تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان نہ دینا اس کے انتخاب لڑنے کے قانونی اور آئینی حق کو متاثر نہیں کرتا-یہ حیران کن امر ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام میں اتنے زیادہ آزاد امیدوار کیسے منتخب ہوگئے- تحریک انصاف مخصوص نشستوں کی حقدار ہے۔ عوام کا ووٹ جمہوری طرز حکمرانی کا اہم جزو ہے- تحریک انصاف کو مجبور کیا گیا کہ اس کے ارکان سنی اتحاد کونسل میں شامل ہو جائیں- سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن کے کردار پر اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے- سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان آئین اور قانون کےمطابق صاف اور شفاف انتخابات کرانے سے قاصر رہا ہے- اگر عدلیہ کے فیصلے پر عمل درامد نہ کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج برامد ہو سکتے ہیں- حکومت نے آرڈیننس جاری کر کے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ میں ترمیم کر دی ہے اور قانون سازی کی ہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان کو کمیٹی تشکیل دینے کے لیے ایک ممبر نامزد کرنے کا اختیار ہوگا - اس آرڈیننس کی ابھی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ چیف جسٹس پاکستان نے سپریم کورٹ کے تیسرے سینیئر جج منیب اختر کو کمیٹی سے نکال دیا اور ایک اور جج کو اپنی کمیٹی میں شامل کر لیا-سپریم کورٹ کے سینیئر ترین جج منصور علی شاہ نے احتجاج کے طور پر اس کمیٹی میں بیٹھنے سے انکار کر دیا اور چیف جسٹس پاکستان کے نام ایک سخت خط لکھ ڈالا- ججوں کے درمیان پبلک خط وکتابت سے سپریم کورٹ اور پاکستان کا وقار مجروح ہو رہا ہے-
حکومت کی پوری کوشش ہے کہ وہ 26 ویں آئینی ترمیم کر کے سپریم کورٹ کے ججوں کی عمر میں اضافہ کر دے تاکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ مزید تین سال کے لیے اپنے منصب پر فائز رہ سکیں- حکومت ایک آئینی کورٹ تشکیل دینے کے لیے بھی آئین میں ترمیم کرنے کا ارادہ ظاہر کر چکی ہے-جس کا مقصد یہ بتایا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ میں عوام کے مقدمات طویل عرصے سے زیر التوا ہیں جو آئینی مقدمات کی وجہ سے لٹکے ہوئے ہیں لہذا ایک الگ آئینی کورٹ تشکیل دی جانی چاہیے جو آئینی امور کا فیصلہ کرے-کئی سینیئر وکلاءنے اس رائے کا اظہار کیا ہے کہ حکومت بدنیتی کی بنیاد پر آئینی کورٹ بنانا چاہتی ہے تاکہ آئینی کورٹ کے پانچ جج ان کے اپنے نامزد کردہ ہوں اور اگر قاضی فائز عیسیٰ چیف جسٹس پاکستان کے عہدے پر فائز نہ رہ سکیں تو ان کو آئینی کورٹ کا چیف جسٹس نامزد کر دیا جائے- وفاقی وزیر قانون نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ چونکہ پارلیمان ایک نیا قانون بنا چکی ہے لہذا سپریم کورٹ کا تفصیلی فیصلہ اس قانون کے سے مطابقت نہیں رکھتا چنانچہ اس پر عمل درامد کرنا ممکن نہیں ہے-پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک آئینی بریک ڈاون ہو گیا ہے-ریاستی ادارے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درامد کرنے پر آمادہ نہیں ہیں-پارلیمانی جمہوریت بنیادی حقوق اور عدلیہ کی آزادی آئین کے بنیادی ستون ہیں- بنیادی حقوق اور آزاد عدلیہ لازم و ملزوم ہیں-1973ءکا آئین عوام کے دلوں اور ذہنوں میں اس قدر رچ بس چکا ہے کہ جنرل ضیاءالحق اور جنرل پرویز مشرف بھی اس آئین کو ہمیشہ کے لیے ختم نہ کر سکے جب بھی مارشل لا ختم ہوا تو یہ آئین خود بخود بحال ہوتا رہا -اگر سپریم کورٹ کے جج تقسیم نہ ہوتے تو حکومت کبھی یہ جرات نہ کرتی کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درامد کرنے کی بجائے ایک نئی قانون سازی کر کے اس فیصلے کو روک دیتی- الیکشن کمیشن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرکے رہنمائی مانگی ہے کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور ترمیمی الیکشن ایکٹ میں سے کس پر عملدرآمد کرے - حالیہ آئینی بریک ڈاون کے تمام ریاستی ادارے ذمہ دار ہیں جو آئین کی روح کے مطابق اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے سے گریز کر رہے ہیں-اگر پارلیمنٹ کے اراکین آزاد باشعور اور محب وطن ہوتے اور قومی مفاد کو اپنے ذاتی سیاسی اور گروہی مفادات پر ترجیح دیتے تو یہ صورتحال کبھی پیدا نہیں ہو سکتی تھی- مگر افسوس آئینی ترمیم کے لیے اراکین پارلیمنٹ کو یرغمال بنالیا گیا اور وہ بننے پر تیار ہو گئے-پاکستان کے موجودہ افسوسناک اور تشویشناک حالات گرینڈ قومی ڈائیلاگ کا تقاضا کرتے ہیں-قومی ڈائیلاگ کے سلسلے میں نیشنل سیکیورٹی کونسل کا اجلاس طلب کیا جا سکتا ہے جس میں تمام پارلیمانی پارٹیوں کے رہنماوں کو شرکت کی دعوت دی جائے اور صحافیوں اور وکلاءکے اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے نمائندوں کو بھی اس میں شرکت کی دعوت دی جائے تاکہ موجودہ سنگین و حساس آئینی اخلاقی اور سیاسی بحران سے باہر نکلنے کے لیے ٹھوس تجاویز پر اتفاق رائے کیا جا سکے-پاک فوج بیرونی جارحیت کا مقابلہ کرنے اور اندرونی استحکام کو یقینی بنانے کی آئینی اور قانونی طور پر ذمہ دار ہے-اگر پاک فوج پاکستان کے آئین کا دفاع اور تحفظ کرنے پر آمادہ ہو جائے تو چند دنوں کے اندر حالات نارمل ہو سکتے ہیں اور آئینی بریک ڈاون ختم کیا جا سکتا ہے-
آئینی بریک ڈاون
Sep 28, 2024