تاریخ کا خطرناک موڑ

آج سیاسی اور معاشی حوالے سے پاکستان کے جوحالات ہیں کیا مصور پاکستان حضرت علامہ اقبال نے ایسے ہی پاکستان کا خواب دیکھا تھا؟ کیا قائداعظم محمد علی جناح نے ایسے ہی پاکستان کے لیے جدوجہد کی تھی؟ کیا ہمارے آبا و اجداد نے اسی لیے قربانیاں دی تھیں کہ ان کی آنے والی نسلوں کا مستقبل غیر محفوظ ہوجائے؟ یہ ایسا سوال ہے جسکا جواب ہے قطعی نہیں۔ 
حضرت علامہ اقبال اور ہمارے آبا و اجداد نے تو جنت نظیر پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناح نے تو پاکستان کی شکل میں اسلام کا قلعہ تعمیر کیا تھا مگر ہمارے حکمرانوں کی ناعاقبت اندیشوں کے سبب قائداعظم کی جدوجہد اور ہمارے آبا و اجداد کی قربانیوں سے حاصل کیا ہوا ملک دولخت ہوگیا۔ باقی آدھا پاکستان بھی سیاسی و معاشی اعتبار سے نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ معاشی غلامی کے سبب ہماری حقیقی آزادی دور سے دور ہوتی چلی جارہی ہے۔ہر دور میں یہی کہا جاتا رہا ہے کہ ہم نازک موڑ پر کھڑے ہیں۔حالات کی نزاکت ہے کہ ختم ہونے کو نہیں آرہی۔اب حالات ہمیں نازک نہیں خطرناک موڑ پر لے آئے ہیں۔ اب یہ کہا جارہا ہے کہ پاکستان ڈیفالٹ کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ہم سرکاری طور پر اس بات کا اعتراف نہیں کر رہے کہ اس وقت پاکستان کے پاس ملک کا معاشی نظام چلانے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی پیسے نہیں ہیں۔ آئی ایم ایف بھی پاکستان سے زیادہ خوش نہیں ہے۔ اسی لیے اس کی طرف سے شرائط اور پالیسی پر نظر ثانی کے لیے بھی کہا جارہا ہے۔ ابھی ہم نے اپنے قرضوں کی ادائیگی بھی نہیں کی ہے اور مزید قرضے مانگ رہے ہیں اسی لیے کہا جارہا ہے کہ ہم ڈیفالٹ کے قریب نہیں بلکہ ڈیفالٹ کر چکے ہیں مگر سیاسی وجوہات کی بنیاد پر اس کا اعتراف نہیں کیا جا رہا۔ ایک میڈیا رپورٹ کے مطابق صورتحال یہ ہے کہ ہم نے تین دوست ممالک کے 16 بلین ڈالرز فوری ادا کرنے تھے جو ادا نہیں کر پارہے۔ ان دوست ممالک نے یہ رقم پاکستان کے خزانے میں اس لیے جمع کرا رکھی تھی کہ پاکستان کا کیش فلو چلتا رہے۔ اس میں چین کے 8 ارب ڈالرز ہیں۔ 4 ارب ڈالرز اکاو¿نٹ میں رکھے ہوئے ہیں اور چار ارب ڈالرز کے قرضے دیے ہوئے ہیں پھر سعودی عرب کے 15 ارب ڈالرز ہیں۔ اسی طرح 3 ارب ڈالرز یو اے ای کے سٹیٹ بینک کے اکاو¿نٹ میں رکھے ہوے ہیں تاکہ بینک سٹیٹمنٹ کے حوالے سے ہمارا کیش فلو چلتا رہے۔ یہ16 ارب ڈالر ہم نے گزشتہ جون اور جولائی میں ادا کرنے تھے مگر ہم ادا نہیں کر پارہے۔ اب ہم ان ممالک سے درخواست کر رہے ہیں کہ ان قرضوں کو رول اوور کر دیا جائے مگر تینوں ممالک رول اوور کے لیے تیار نہیں ہیں۔ صرف یو اے ای نے ایک ارب ڈالر رول اوور کرنے کا عندیہ دیا ہے مگر چین اور سعودی عرب کی طرف سے مکمل طور پر خاموشی ہے۔ہمارے وزیر خزانہ گزشتہ دنوں چین گئے تھے اور درخواست کی تھی کہ اس سلسلے میں ہمیں تین سال اور دے دیں فی الحال ادائیگی ممکن نہیں۔اس پر چینی حکومت نے سوال کیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ پلان شیئر کریں کہ تین سال کے بعد کیا ہوگا۔ تین سال کے بعد بھی اگر ادائیگی کے قابل نہیں ہوتے تو پھر کیسے ادائیگی ہوگی۔ اب سوال ہے کہ اس سلسلے میں مہلت کیسے ملے گی؟ اس کے لیے یہی راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے کہ ان ممالک کو پھر درخواست ارسال کی جائے جس میں پرانی دوستی کا حوالہ دے کر کہا جائے کہ پرانی دوستی کی لاج رکھتے ہوئے ہمیں مزید مہلت دے دیں تاکہ اس دوران ہم حالات کی بہتری کے لیے کام کر سکیں۔ ممکن ہے اسطرح سے کچھ مہلت مل جائے۔ سوال یہ ہے کہ مہلت ملنے کے باوجود حالات میں بہتری نہ آسکی تو کیا ہوگا؟ کیونکہ ہمارے اکاو¿نٹ میں تو پیسے نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ حالات خراب سے خراب تر ہوتے جارہے ہیں۔ قرضہ ہے کہ سود در سود بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ ایسے میں ہمارے پاس کوئی پلان بھی نہیں ہے جس سے ہم اپنی اکانومی کو اپنے پاو¿ں پر کھڑا کر سکیں۔ آئی ایم ایف اس صورتحال سے فائدہ اٹھا رہا ہے۔ اب 28 اور 29 ستمبر کو آئی ایم ایف کا اجلاس ہے اگر اس میں پاکستان کو ایجنڈے میں شامل نہیں کیا جاتا تو پھر پاکستان یقینی طور پر ڈیفالٹ کی طرف چلا جائے گا۔ آئی ایم ایف اسی بات کا انتظار کررہا ہے کہ ہم کسی نہ کسی طرح رول اوور کرائیں۔کہیں سے پیسے پکڑیں اور پھر وہ ہمیں قرضہ دے۔ ہمیں اگر آئی ایم ایف سے دو ملین ڈالر کا قرضہ مل جاتا ہے تو پھر ہم کچھ عرصے کے لیے مشکل سے نکل جائیں گے مگر اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم معاشی استحکام کے لیے کوئی پلان بنائیں۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے حکمران معاشی استحکام کے لیے کوئی پلان نہیں بناسکے۔ یہ شنید بھی ہے کہ سعودی عرب ستمبر میں پاکستان میں بڑی سرمایہ کاری کرنے جارہا ہے اس کا کہنا ہے کہ کوئی بڑا مضبوط اور مربوط پلان دیں۔ چھوٹی چھوٹی سرمایہ کاری کا فائدہ کوئی نہیں ہے مگر ہماری طرف سے اس سلسلے میں منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔ مسقبل میں بھی اس حوالے سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ ایسی غیر ملکی کمپنیوں کے ماہرین سے پلاننگ اور تجاویز لی جارہی ہیں جو پاکستان کے حقیقی مسائل کا ادراک ہی نہیں رکھتیں۔ ہمیں اپنے تمام تر حالات کا جائزہ لے کر معاشی منصوبہ بندی کرنا ہوگی۔ ہمیں دیکھنا ہوگا وہ کون سے حالات تھے جن کے سبب 1200 سے زائد کمپنیاں پاکستان چھوڑ کر دوبئی منتقل ہوگئیں؟ ہمارے بیشتر صنعتی ادارے بند کیوں پڑے ہیں؟ تاجر حضرات جو ان دنوں سڑکوں پر ہیں احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ ان کے مسائل کیا ہیں؟ ہماری جو ہنر مند افرادی قوت ہے اس کی کھپت کیسے ہوگی؟ نوجوان جو اعلیٰ تعلیم کے بعد میدان میں آرہے ہیں ان کے لیے مواقع کیسے پیدا کرنے ہیں؟ جب تک ان امور کو پیش نظر نہیں رکھا جاتا تب تک مربوط اور مو¿ثر معاشی پالیسی ترتیب نہیں دی جاسکتی۔ پاکستان کو اس وقت ڈالر کی ضرورت ہے اور ڈالر کے حصول کا ایک ہی ذریعہ ہے وہ ہے ایکسپورٹ مگر ایکسپورٹ کو کیسے بڑھایا جائے ہماری ایکسپورٹ اس وقت اس لیے ختم ہو کے رہ گئی ہے کہ ہمارے ہاں کسی قسم کی پروڈکشن نہیں ہورہی۔ سارے صنعتی ادارے تو غیر فعال ہوچکے ہیں کیونکہ ان اداروں کی ضرورت کے مطابق بجلی، گیس، پٹرول اور گیس مہنگی اور کم یاب ہونے کے سبب دستیاب نہیں ہے۔ اگر دستیاب ہے بھی تو اتنی مہنگی ہے کہ جو مال یہاں تیار ہوتا ہے وہ بیرونی منڈیوں میں اپنی زیادہ قیمت کی وجہ سے اپنی جگہ نہیں بنا پارہا۔ ایک شے اگر چین یا کسی دوسرے ملک کی ہے وہ پانچ یا دس روپے کی دستیاب ہے جب کہ وہی پاکستانی شے دو تین سو روپے کی اس لیے ہوگی کیونکہ انرجی سورسز کے مہنگے ہونے کے سبب پروڈکشن کاسٹ مہنگی ہوجاتی ہے اس طرح ہم ایکسپورٹ کیسے بڑھا سکتے ہیں؟ ایکسپورٹ نہیں بڑھے گی تو ڈالر کیسے آئیں گے اب صرف تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصول کر کے اور اشیائے ضرورت پر ٹیکس لگا معاملات کو آگے بڑھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہماری وفاقی اور صوبائی حکومتیں واپڈا کی سب سے بڑی ڈیفالٹر ہیں۔ ان کے ذمہ واپڈا کی 2 کھرب 56 روپے کی ادائیگی ہے۔اب خود حکومت تو بجلی کے بل ادا نہیں کر رہی اور دو سو سے پانچ سو یونٹس بجلی استعمال کرنے والے عام شہریوں کا مہنگی بجلی کے بلوں کے ذریعے خون نچوڑا جا رہا ہے۔ ان حالات میں بھی کسی قسم کا احساس نہیں کیا جا رہا۔ افسر شاہی اور وزرا کے اللے تللوں پر بے دریغ خرچہ کیا جارہاہے۔
 مہنگی سے مہنگی گاڑیاں خریدی جارہی ہیں۔تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔ پر تعیش زندگی کے تمام لوازمات فراہم کیے جارہے ہیں۔ حالات کی ابتری کا رونا تو صرف عام اور غریب آدمی کے لیے ہے۔ پچھلے دنوں ایک تجزیاتی سروے رپورٹ کا حوالہ دے کر حکومت کی طرف سے کہا گیا کہ مہنگائی میں خاصی حد تک کمی آگئی ہے جبکہ یہ مکمل طور پر غلط بیانی تھی۔ حقیقت اس کے برعکس تھی جس رپورٹ کا حوالہ دیا جارہا تھا۔ اس کے مطابق مہنگائی کی شرح میں کمی نہیں آئی بلکہ مہنگائی بڑھنے کی رفتار میں کمی آئی ہے۔ اس رفتار میں کمی اس لیے آئی ہے کہ مہنگائی پہلے ہی اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے۔ مہنگائی میں جو اضافہ چلا آرہا ہے وہ ویسے ہی جوں کا توں ہے۔ اس میں عام آدمی کی مشکلات میں کمی نہیں ہوئی۔ ہو بھی تو کیسے؟ محض عارضی اور وقتی سہاروں سے مستقل بیماری کا علاج تو نہیں ہو سکتا۔ آپ اصلاح احوال کے نام پر پرانی اتھارٹی کو ختم کرکے نئی اتھارٹیز بنا دیتے ہیں جس پر دوبارہ نئے سرے سے اخراجات ہونے شروع ہو جاتے ہیں اور وہ اخراجات نہ صرف بڑھ جاتے ہیں بلکہ نتیجہ بھی کچھ نہیں نکلتا ماسوائے چار دن کی ذاتی تشہیر۔ اب حالات یہ ہیں کہ یوٹیلٹی سٹورز اور پی ڈبلیو ڈی کے ملازمین پہلے ہی سڑکوں پر ہیں۔ ٹیچرز بھی احتجاج کر رہے ہیں۔ کل کلاں اگر واپڈا اور پی آئی اے کی نجکاری کرتے ہیں تو وہ بھی سڑکوں پر آجائیں گے۔ مسائل بھی حل نہیں ہوں گے اور انتشار میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ اس وقت ملک مکمل معاشی مسائل کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا ہے۔ حکومت کا اصل امتحان یہ ہے کہ ملک کو ان اندھیروں سے کیسے نکالنا ہے۔ جب تک ملک اس معاشی صورتحال سے نہیں نکلے گا تب تک انتشار ختم ہوگا نہ سیاسی استحکام آئے گا۔ کمزور معیشت ملکی سلامتی کے لیے بھی خطرہ بنی رہے گی۔

اشتیاق چوہدری ایڈووکیٹ… سفیر حق

ای پیپر دی نیشن