کچھ روز ہوئے مجھے انویٹیشن ملا۔ آفیسرز میس (Officers mess) میں ٹی پارٹی ہو رہی ہے۔ آپ باقاعدہ اس میں میزبان بھی ہیں۔ جج صاحبان کی بیگمات ہر ماہ آفیسرز میس میں اکٹھی ہوتیں اور ایک دوسرے کے ساتھ مل کر خوشی محسوس کرتیں۔ ججز بیگمات کو بھی اللہ نے توفیق اور ہمت دی ہے کہ خدمت خلق کریں۔ عامر رضا جسٹس کی وائف تسنیم گو کہ خود ڈاکٹر ہیں‘ ایک ہسپتال کے کام کے علاوہ بہبود ادارہ میں جو غریب اور نادار لوگوں کے لئے ہسپتال بنا ہے‘ وہاں کی منتظم ہونے کے ناطے احسن طریقے سے کام کرتی ہیں۔
اسکے علاوہ لاہور کے سابق چیف جسٹس سردار اقبال کی اہلیہ عفت اقبال جو اس وقت حیات نہیں مگر انہوں نے ہیلپنگ ہینڈ سوسائٹی کے نام سے ادارہ قائم کیا تھا اور اللہ کی مخلوق کی خوب خدمت کی۔ اسکے علاوہ اتنی وہ بااخلاق خاتون تھیں کہ جو بھی ان سے ملتا انکی بے حد تعریف کرتا۔ مجھے تو وہ اپنی بیٹیوں کی طرح محبت کرتی تھیں۔ میں کبھی کبھی انکی کمی بہت محسوس کرتی ہوں۔ ہیلپنگ ہینڈ سوسائٹی کا ادارہ آج بھی قائم ہے‘ انکی بڑی بیٹی نیلم اور ریما چلاتی ہیں۔
اور سب سے بڑی خوبی کی یہ بات ہے۔ ناصرہ جاوید اقبال جو جسٹس جاوید اقبال کی وائف ہیں‘ شادی کے کئی سال بعد وہ لندن سے LLM کی ڈگری لے کر آئیں اور بعد میں جج کے عہدے پر بھی تعینات ہوئیں۔ کئی بیگمات ڈاکٹرز اور پروفیسر ہیں اور آجکل ظاہرہ نجم جو جسٹس نجم کاظمی کی اہلیہ ہیں بیماری کی حالت میں بہت کام کرتی ہیں اور ایک ٹرسٹ بھی چلاتی ہیں۔ انکی بیٹی ماہ نوروہ بھی کسی جسٹس کی اہلیہ ہیں جو خود کسی ادارے میں پڑھاتی ہیں وہ بھی شانہ بشانہ اپنی والدہ کے ساتھ کام کرتی نظر آتی ہیں اور بہت سی بیگمات بھی ڈاکٹرز ہیں ان میں ڈاکٹر ماریانہ تنویر، ڈاکٹر افشاں اسکے علاوہ جسٹس قیوم کی وائف رخسانہ کا نام بھی لینا سرفہرست سمجھتی ہوں۔
انسانیت کی بھلائی کیلئے وہ بھی ان تھک محنت کر رہی ہیں۔ ایک چھوٹے پیمانے پر انہوں نے غریب اور نادار لوگوں کیلئے کام شروع کیا تھا وہ کافی پھیل گیا ہے۔ وہ لوگوں کے مسائل سنتی ہیں اور جتنا ممکن ہو سکے انکی مدد بھی کرتی ہیں۔ اللہ ان کو بھی اجر دیگا۔
غرض کہ ستمبر کی میٹنگ میں جب پہنچی تو جج صاحبان کی بیگمات خراماں خراماں چلی آرہی تھیں۔ خوش لباس‘ چہروں پر مسکراہٹ سجائے سب کے گلے مل رہی تھیں۔
یہ ٹی پارٹی صرف گپ شپ کیلئے محدود نہیں بلکہ جب ساری خواتین آجاتی ہیں تو باقاعدہ درس کی محفل سجتی ہے۔ مینہ صاحبہ وہ بھی جسٹس کی اہلیہ ہیں وہ اس مرتبہ درس رسول اللہ ﷺ کی شان میں درس دے رہی تھیں۔ حاضرین محفل بڑے شوق اور ذوق کے ساتھ رسول کریم کی شان میں سن رہی تھیں۔ میرے خیالات کا دائرہ اپنے پیارے نبی ﷺ کی جانب چلا گیا۔ اللہ نے رسول کریم کو دنیا میں انسانوں کیلئے ایک رحمت بنا کر اور آخری نبی بنا کر بھیجا۔ اس مہینے اللہ پاک نے آخری نبی بھیج کر نبوت کا سلسلہ محمدﷺ پر ختم کر دیا۔ ظاہر ہے کہ رسول کریم ﷺ کی شان والا کوئی آیا ہے اور نہ آئے گا۔
رسول کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں جا رہا ہوں ایک اللہ کا پیغام اور دوسری اپنی سنت جب تک میری امت اس پر عمل کرتی رہے گی گمراہ نہیں ہو گی۔
ہمارے رسول نے ملک و قوم اور انسانیت کا دھارا بدل دیا۔
کسی قوم کی تہذیب و تمدن اور ترقی کا حال معلوم کرنا ہو تو دیکھو اس معاشرے میں عورت کا درجہ کیا ہے۔ جس زمانے میں رسول کریم خدا وند تعالیٰ کا پیغام پہنچانے کیلئے معبود ہوئے تو عورت ساری دنیا میں محکوم تھی اور کم ترین سمجھی جاتی تھی اور وہ بہت قانونی حقوق سے محروم تھی۔ عرب کی عورتوں کا حال بھی دوسری عورتوں سے بہتر نہیں تھا۔
لڑکیوں کو زندہ دفن کر دینے کا رواج تھا وہ کسی جائیداد کی وارث نہیں ہو سکتی تھی بلکہ وہ خود جائیداد کا ایک حصہ تھی لیکن آپ کے آنے کے بعد لوگ جو خون خواری کے پیکر تھے وہ زمین سے نظر اٹھا کر بھی چلنا عیب سمجھتے تھے۔ وہ پانچ وقت کے نمازی ہو گئے۔ عورتیں کھلم کھلا ہاتھوں میں سونا لے کر صفا سے یمن تک سفر کرتیں۔ رسول کریمﷺ کے ذریعے ہدایت کا نور پوری دنیا میں پھیلا۔ ہمیں چاہیے ان کی پیروی کریں اور محبت کریں۔ اللہ گمراہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔
مجھے انتہائی خوشی ہوتی ہے کہ یہ خواتین صرف ٹی پارٹی ہی نہیں کرتیں بلکہ بہت سے لوگوں کی حاجت روائی بھی کرتی ہیں۔ یہ سب ہمارے نبی کا کمال ہے جنہوں نے خواتین کو ان کے حقوق دلوائے اور زندگی میں آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔
ہمارے رسول کریمﷺ کا خواتین پر بہت بڑا احسان ہے ان کی وجہ سے ہی ا ن کو حقوق ملے۔ آج کے دور میں مردوں کے مقابلے میں عورتیں بھی ہر فیلڈ میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں اور بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔
محفل میں ایک خاص نور اور ایک خاص خوشبو پھیلی تھی۔ مینہ صاحبہ بڑے خلوص اور محبت کے ساتھ درس مسلسل دے رہی تھیں۔ اتنی خاموشی اور اتنا سرور یوں لگتا تھا کہ ہمارے رسول کریمﷺ وہاں جلوہ افروز ہیں۔
اس آفیسر میس میں ہر ماہ خواتین کی ٹی پارٹی ہوتی ہے۔ جونہی درس کا اختتام ہوا تو چائے کے لئے خواتین کو بلایا گیا۔چائے کے دوران میٹھی میٹھی سی گفتگو ہو رہی تھی اور خوشدلی کے ساتھ ایک دوسرے کو مل کر جانا شروع ہو گئی تھیں۔